منشی نول کشور کے بعد
اردو دنیا میں جہاں تک طباعت و اشاعت کا کاروبار ہے لکھنؤ کے منشی نول کشور کو ایک مثالی حیثیت حاصل ہے
BUENOS AIRES:
ابھی کل جس شخص کو ہم سپردخاک کرکے آئے ہیں اردو کے حوالے سے وہ شخص ایک کارنامہ کی وجہ سے اردو کے ناشروں میں امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اردو کلاسیک کے ایسے مال کو جسے نئے ادبی رجحانات کے علمبرداروں نے کنڈم مال قرار دے دیا تھا اور ناشرین اسے یہ سوچ کر ہاتھ نہیں لگاتے تھے کہ بازار میں اب اس کی کیا قیمت ہے۔ اس فراموش شدہ مال کو اس نے لائبریریوں کی گردآلود الماریوں سے برآمد کیا، جھاڑپونچھ کر انھیں چھاپا اور لیجیے اب اس مال کی مانگ اس حد تک ہے کہ اس کے انگریزی میں ترجمے کیے جارہے ہیں اور یورپ اور امریکا کے ناشرین اہتمام سے انھیں شایع کررہے ہیں۔
یہاں ذکر ''سنگ میل'' کے نیاز احمد کا ہے۔ جو ابھی ابھی دنیا سے سدھارے ہیں۔ ایک مرتبہ جب انھوں نے ہم سے ذکر کیا تھا کہ یہ جو اردو کی ضخیم داستانیں ہیں میں انھیں شایع کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہوں۔ تب ہم نے ان سے اپنا ایک تجربہ بیان کیا۔ یہ مجلس ترقی ادب کے اس دور کی بات ہے جب سید امتیاز علی تاج اس کے نگران تھے اور وہ کس ذوق وشوق سے کسی بھلے زمانے میں فورٹ ولیم اسکول میں نئے سرے سے مرتب ہوکر شایع ہونے والی داستانوں کو محققوں کی مدد سے برآمد کرکے شایع کررہے تھے۔ ہم نے ایک دفعہ موقع پاکر ان سے عرض کیا کہ یہ مختصر داستانیں تو آپ نے بہت اہتمام سے شایع کیں مگر وہ جو لمبی داستانیں ہیں اور جسے کوئی ناشر ہاتھ نہیں لگاتا ان پر آپ نے توجہ نہیں کی۔
کہنے لگے کہ ''بھائی جسے طلسم ہوش ربا ہے یا ایسی ہی اور داستانیں انھیں ہم کیسے ہاتھ لگائیں۔ اس ایک داستان کو شایع کرنے کا تہیہ کریں تو سال کی ساری گرانٹ اس پر صرف ہو جائے گی اور ہماری کارکردگی پر حرف زنی ہوگی کہ مجلس نے پورے سال میں ایک کتاب چھاپی ہے۔''
نیاز صاحب بولے ''مگر میں نے طلسم ہوش ربا کو چھاپنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔''
ہم نے کہا کہ نیکی اور پوچھ پوچھ۔ پھر ہم کالم لکھیں گے کہ منشی نول کشور ہجرت کرکے پاکستان آن پہنچے ہیں۔
مگر انھوں نے تو سچ مچ اس داستان کو جو موٹی موٹی آٹھ جلدوں میں ہے چھاپ ڈالا اور اس پر چپ ہوکر نہیں بیٹھ رہے۔ کتنی ضخیم اردو انگریزی اور انگریزی لغات اردو اور فراموش شدہ تذکرے اور تاریخی کتب جو نول کشور نے اپنے وقت میں شایع کیں اور پھر ان کے دوبارہ چھپنے کی نوبت ہی نہیں آئی اور پھر ایسے مخطوط بھی تو تھے،انھیں کہاں کہاں سے ڈھونڈ کر برآمد کیا اور شایع کرتے چلے گئے۔
پتہ چلا کہ اس فراموش شدہ مال کے بازار میں آنے کی دیر تھی اس کے خریدار بھی پیدا ہوگئے۔ اصل میں ہمارے ناشرین بالعموم لکیر کے فقیر چلے آرہے تھے۔ زبان اور ادب کے سلسلہ میں جو تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور جو نئے رجحانات جنم لیتے رہتے ہیں اور ان کے حساب سے کتابوں کے مارکیٹ کا رنگ بدلتا رہتا ہے اس کی چھان بین کم ہی کی جاتی ہے۔ اب اس عرصے میں ہوا یہ کہ مشرق و مغرب کی کتنی یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے کھل گئے۔ اس کے ساتھ تحقیق کے کاروبار نے فروغ پایا اور تحقیق کے لیے غذا تو سب سے بڑھ کر گزرے زمانوں کے طباعت شدہ مال سے اور مخطوطوں ہی سے مہیا ہوتی ہے۔ پھر یوں بھی ہوا کہ وہ دور جب سارا زور نئے ادب پر تھا اور کلاسیکی ادب کو کباڑ خانے کا مال سمجھا جاتا تھا گزر چکا تھا۔ کلاسیکی ادب کیا' داستان کیا' شاعری پھر سے توجہ کا مرکز بن رہی تھی۔
نیاز صاحب نے نئے شعور کے ساتھ طباعت و اشاعت کے میدان میں قدم رکھا۔ اس نئے شعور میں یہ بات بھی تو شامل تھی کہ جو کتاب شایع کی ہے اس کا دوسرا تیسرا ایڈیشن بھی آنا چاہیے اور یہ کہ مصنف رائلٹی کا بھی حقدار ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ ان کے یہاں مصنف سے رابطہ صرف کاروباری سطح تک محدود نہیں تھا۔ کاروباری تعلقات کے ساتھ ساتھ بلکہ شاید کسی قدر اس سے بڑھ کر انسانی تعلقات کی بھی اہمیت تھی۔
اصل میں اردو دنیا میں جہاں تک طباعت و اشاعت کا کاروبار ہے لکھنؤ کے منشی نول کشور کو ایک مثالی حیثیت حاصل ہے۔ تن من دھن سے اس کاروبار میں غرق اور محض کاروبار سمجھ کر نہیں بلکہ علم و ادب سے سچا لگائو۔ اس کے ساتھ اصلی اور نقلی کی شناخت جو خداداد تھی۔ اگر ناشر کے یہاں یہ شعور، یہ شناخت کا مادہ نہیں ہے تو وہ اس میدان میں کتنی دور تک جاسکتا ہے اور کس حد تک اپنے ادارے کا وقار اور ساکھ قائم رکھ سکتا ہے۔ صرف بیسٹ سیلر کی تلاش میں رہنا اور اسی کو آخری اور حتمی معیار بنا لینا، اس واسطے سے پیسہ تو کمایا جاسکتا ہے مگر نشرو اشاعت کی دنیا میں ناموری حاصل نہیں کی جاسکتی۔ منشی نول کشور ہی کے زمانے میں کتنے ناشر نمودار ہوئے، کتنی انھوں نے کتابیں چھاپیں، کتنی دولت کمائی مگر نول کشور میں وہ کیا وصف تھا کہ ان کا ادارہ ایک مثال بن گیا اور جو کتاب شایع کی اسے بامعنی کتاب ہونے کی سند مل گئی اور کیا کمال کا ادارہ تھا کہ مذہب اور ادب دونوں کے ذیل میں اتنا کچھ چھاپ ڈالا کہ مضامین نو کے انبار لگ گئے۔ خالی شاعری کے دیوانوں اور داستانوں پر مت جائیے۔ اسلامیات کے ذیل میں بھی اتنا کچھ چھاپ ڈالا ہے کہ کیا احادیث اور کیا ملفوضات اور کیا معقولات اور منقولات ہر قسم کی کتاب وہاں سے دستیاب تھی۔
نیاز صاحب کے طور طریقوں سے لگتا یوں تھا کہ منشی نول کشور کو انھوں نے اپنے لیے مثال بنا رکھا تھا۔ کچھ اسی رنگ سے سوچتے نظر آتے تھے۔ کچھ ویسے ہی خواب، ویسے ہی منصوبے، مگر کاش ایسا ہوتا کہ مثال پرستوں کے سب منصوبے پروان چڑھ جایا کرتے مگر اکثر ہوتا یوں ہے کہ ایسے آدمی کو کبھی زمانہ خراب ملتا ہے، کبھی زندگی دغا دے جاتی ہے۔ نیاز صاحب کے سلسلہ میں بھی یہی ہوا؎
بہت نکلے مرے ارمان پھر بھی کم نکلے
اس سرگرم عمل شخص کی صحت ہی جواب دے گئی۔ معطل ہوکر گھر بیٹھ گئے۔ بس اسی عالم میں زندگی سے گزرگئے۔ خیر پھر بھی پیچھے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں جس کے فروغ پانے کے امکانات موجود ہیں۔ اگر پدر نتواند پسر تمام کند۔