کنفیوزڈ ریاست کا دلیر سپاہی
بالآخر شدت پسندوں کی راہ میں کھڑی چوہدری اسلم کی شکل میں مضبوط دیوار ہمیشہ کیلیے ڈیہہ گئی،جس نے ان کا راستہ روکے رکھا
بالآخر شدت پسندوں کی راہ میں کھڑی چوہدری اسلم کی شکل میں وہ مضبوط دیوار ہمیشہ کے لیے ڈیہہ گئی،جس نے ان کا راستہ روک کر شہر قائد کوآگ و خون سے بچانے کی اپنی سی کوشش کی ۔میں اپنے دل کی گہرائیوں سے انھیں شہید لکھنے کا خواہشمند ہوں۔ مگراپنی خواہش کی تکمیل سے قبل مجھے ایک نیم مذہبی ونیم سیاسی جماعت کے امیر وقت کا وہ فتویٰ یاد آجاتا ہے، جو انھوں نے چند ماہ پیشتر دہشت گردوں کے سربراہ کی ہلاکت پر دیا تھا۔اس لیے اب میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ چوہدری اسلم سمیت ان پولیس اہلکاروں کو شہید لکھوں جنہوں نے وطن کی مٹی سے وفا کے ثبوت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیایا پھر اس دہشت گرد کو شہید لکھوں جس نے وطن کے ان جانبازسپاہیوں کو پیوندِ خاک کیا۔
میں لکھتا رہاہوں اور لکھتا رہوں گا کہ ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے ہمارے حکمران، منصوبہ ساز اور اسٹیبلشمنٹ روزِاول کنفیوزڈ چلی آرہی ہے۔ قدرت کی نعمتوں سے مالامال اس خطہِ ارض کو اس حال تک پہنچانے میں اغیار کا نہیں خود ہماری قیادتوں کا ہاتھ ہے۔ہمارے رہنمائوں، اکابرین اور دانشوروں نے اس کے خوبصورت چہرے کو اپنے نوکیلے زہریلے ناخنوں سے کھرچ کر بدنما بنایا ہے۔اس کے منہ پر کالک ملی ہے اور اس کی عصمت کو سرِبازار تارتار کیا ہے۔ ان کی سمجھ میں اتنی سی بات نہیں آتی کہ تاریخ میں رونما ہونے والے واقعات ماضی میں کیے گئے فیصلوں کا تسلسل ہوتے ہیں۔ معاملات و مسائل کو ان کی کڑیوں سے جداکرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔خاندان کے سربراہ کی غلطی پورے خاندان کو متاثر کرتی ہے،جب کہ ریاست کے سربراہ کی غلطی ریاست کو تباہ کر دیتی ہے۔
یہ تسلیم کہ نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارے اور بعدازاں ہندو کی اکثریت سے نجات کے لیے الگ مملکت کی جدوجہد میں مذہب کے نعرے نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھامگرکامیابی کے بعدتو اس ریاست کو فلاحی مملکت میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ ایک ایسی ریاست جس میں جمہوریت ہو،ہر فرقہ،مسلک اور عقیدے کے ماننے والے کو آزادی ہو۔ ہم نے متحدہ ہندوستان سے کیوں آزادی اختیار کی؟ اسی لیے کہ ہندو اکثریت کے آمر ہوجانے کا خوف تھا، اکثریت کے بل بوتے پر ان کے من مانیاں کرنے کا خدشہ تھا مگر اب ہم خود کیا کررہے ہیں؟ ذرا جرأت مندی سے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ جن خدشات کی خاطر برصغیر تقسیم ہوا،لوگ آگ و خون کی ندیاں عبور کرنے پر مجبور ہوئے۔ لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اس سے کئی گنا زیادہ تعداد میں لوگوں نے سرحد کے دونوں جانب نقل مکانی کی۔اب اسی مملکت خداداد میں اکثریت ہر اقلیت پر اپنی بالادستی مسلط کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ان سے جینے کا حق چھینے پر آمادہ ہے۔ان کی عبادت گاہوں،مقدس مقامات اور گلیوںمحلوں کو تباہ و برباد کیا جارہاہے۔
ایک ایسا ملک جس کے قیام کی جدوجہد میں شیعہ، سنی، بوہری، اسماعیلی، مہدوی اور احمدی سبھی شریک تھے۔ جس کے قیام کے لیے مقامی مسیحی آبادی نے قربانیاں دیں۔ہندوئوں نے جسے چھوڑنے سے انکار کیامگر ان تمام باتوں کو بھلاکر مذہبی جنون پرستی کو کھلاچھوڑ دیا گیا ہے، جس کے سبب یہ دھرتی آگ و خون میں لتھڑچکی ہے اور اب یہ عالم ہے کہ چہار سو بکھری سوختہ لاشیں، جلی عمارتیں اورگاڑیاںاور باردو کی کبھی ختم نہ ہونے والی بوکے سواء کچھ بھی تو نہیںہے۔آج نہ اقلیت محفوظ ہے اور نہ اکثریت کو امان حاصل ہے۔ کیا اسی لیے یہ ملک بنایا تھا؟ کیا عقیدے اور لسانی ونسلی بنیاد پر خطِ امتیاز کھینچنے کے لیے یہ ملک تعمیر کیا تھا؟کسی دانشور نے کیاخوب کہا تھا کہ نفرتوں کی بنیاد پر قائم معاشروں میں نفرتوں سے چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا۔ جب کسی ایک نفرت کو بنیاد بناکرکوئی حد فاصل کھینچی جاتی ہے، تو خود روپودوں کی طرح نئی نفرتوںکی کونپلیں پھوٹنا شروع ہوجاتی ہیںاوریہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ معاشرہ ان ہی نفرتوں کی آگ میں جھلس کر خاکستر نہیں ہوجاتا۔
کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن اس حقیقت کو اب قبول کرنا پڑیگا کہ اس ملک کی بدنصیبی کاآغاز اسی روز ہوگیا، جب دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد منظور کی تھی۔کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ملک کا جغرافیہ پہلے وجود میں آتا ہے اور اس کے مقاصد کا تعین دو برس بعد ہوتا ہے۔اس میں شک نہیںدنیا کے کئی خطوں میں آزدی کے لیے کہیں مذہب کہیں قومیت کو آلہ کار بنایا گیا مگر جب آزادی نصیب ہوگئی تو قیادتوں نے اپنی پوری توجہ ریاست کے استحکام اور عوامی مسائل کے حل کی طرف مبذول کردی لیکن پاکستان میں مذہب اور اس سے بڑھ کر مسالک کو جس طرح سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، وہ تاریخ عالم کی بدترین مثال ہے۔ اگر66برس کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو وطن عزیز میں جنم لینے والی ہر خرابی بسیار کے پیچھے اسی نوعیت کے غلط ریاستی فیصلوں کا تسلسل نظر آئے گا۔
جنرل ضیاء کے دور میں پروان چڑھنے والی عسکریت جہاد کا لبادہ اوڑھ کرمسلم اور غیر مسلم کی تقسیم کو گہراکرنے کے بعد خود مسلمانوں میں متشدد فرقہ واریت کا راستہ کھولنے کا سبب بنتی ہے۔1980میںمذہبی شدت پسندی کی وہ چنگاری، جسے ہم نے پڑوس میں پھینکا تھا، آج شعلہ جوالا بن چکی ہے اور اس کے شعلے ہمارے اپنے درودیوار کو جھلسارہے ہیںمگر ہم آنکھیں موندے یہ ساراکھیل تماشہ محض اس لیے دیکھنے پر مجبورہیں،کیونکہ ہمارے حکمران اور منصوبہ سازدہرے معیار میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس عفریت سے نمٹنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ویسے بھی چونکہ، چنانچہ اور اگر، مگر کی مصلحتوں میں مبتلا قیادتوں سے جرأت مندانہ فیصلوں کی توقع عبث ہوتی ہے ۔خاص طورپر جہاں پانچ فیصد سے بھی کم ووٹ بینک رکھنے والی جماعتوں کواس قدر سر پر چڑھالیا گیا ہوکہ وہ فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے لگی ہوں اور اسٹیبلشمنٹ ان کھلاڑیوں کو رہنماء بنانے پر تلی بیٹھی ہو، جن میں سیاسی بصیرت تلاش کرنا گویاجوئے شیر لانے کے مترادف ہو۔
بہر حال اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پولیس، فوج اور دیگر سیکیورٹی اہلکاروں نے اعلیٰ افسران سے سپاہیوں تک دہشت گردی کے خاتمے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اس ملک کی حفاظت میں اپنا کردار اداکیا ہے حالانکہ پولیس کی کارکردگی کے بارے میں فرسودہ تنظیمی ڈھانچہ اور سیاسی مداخلت کے سبب ہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہی ہیں مگر اس کے باوجود اس نے ہر عفریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے لیکن حکمرانوں، سیاسی قائدین اور منصوبہ سازوں کی فرسودہ سوچ اور دہرے معیار پرمبنی غلط حکمت عملیوںکے باعث ان سب کی قربانیاں رائیگاںجارہی ہیںکیونکہ بعض سیاسی جماعتیںیہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی شدت پسند عناصر کے ساتھ مذاکرات اور مکالمے پر مصر ہیں۔ان جماعتوں اور ان کے رہنمائوں سے کوئی پوچھے کہ چوہدری اسلم کی شہادت کس ڈرون حملہ کا ردعمل ہے؟کیا وہ اب بھی بے گناہ شہریوں کو آگ وخون میں نہلانے، فوجیوں کے گلے کاٹنے،پولیس اہلکاروں کو خود کش حملوں سے ختم کرنے اور سب سے بڑھ کر اس ملک کے آئین کو تسلیم نہ کرنے والوں سے مذاکرات ومکالمہ کے حق میں ہیں؟اگر ایسا ہے توپھر ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھنے چاہئیں۔کیونکہ موجودہ حالات میں کوئی بھی ذی شعور اور اس ملک کے وجود سے معمولی سا تعلق رکھنے والا شخص درندہ صفت عناصر کے ساتھ مذاکرات کی حمایت نہیں کرسکتا۔
یہاں پھر عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف جن کی نیت پر ہمیں کوئی شک نہیں ہے۔ جو اس ملک کو حقیقی معنی میں ایک جمہوری ملک بنانے اور بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کرنے کے حامی تصور کیے جاتے ہیں۔اگر خلوص نیت کے ساتھ شدت پسندی اور دہشت گردی کی عفریت سے چھٹکارا پانے کے خواہشمند ہیںتو انھیںکسی کل جماعتی کانفرنس کا سہارا لینے کے بجائے بحیثیت اس ملک کے چیف ایگزیکٹو دوٹوک فیصلہ کرنا ہو گا۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ اس ملک کے شہر پرامن ہوں اور جمہوری اقدار یہاںپھلیں پھولیںتواس مقصد کے لیے انھیں مذہب کے نام پر شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کا قلع قمع کرنا ہوگالیکن اس مقصدکے لیے سب سے پہلے اپنا وفاقی وزیر داخلہ تبدیل کرنا ہوگا۔ موجودہ وفاقی وزیر داخلہ کی موجود گی میں دہشت گردی کے خلاف کسی مؤثرکارروائی کا امکان نہیں ہے۔یہ باتیں کسی ذاتی بغض وعناد پر نہیں،بلکہ ان ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں، جن کا مشاہدہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران ہوا ہے۔ ان کے اسی نوعیت کے جرأت مندانہ فیصلوں میںاگر وہ کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں، تو وطن عزیز اور ہم سب کی بقاء مضمر ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ چوہدری اسلم شہید سمیت ان تمام اہلکاروں کو جو فوج، پولیس یا کسی اور سیکیورٹی ادارے سے تعلق رکھتے ہوں اور جنہوں نے اس ملک اور اس کے عوام کو تحفظ پہنچانے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے انھیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔