18 ویں ترمیم پر عمل درآمد
یہ ٹھیک ہے کہ پارلیمنٹ کا کام آئین و قانون بنانا ہے اورعدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آئین و قانون کی درست تشریح کرے
یہ ایک قطعی اور طے شدہ امر ہے کہ کاروبار مملکت چلانے کے لیے آئین ہی سب سے زیادہ مستند، معروف اور مقدس دستاویز ہے۔ آئین و قانون کی منصفانہ عمل داری سے ہی ریاستی اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور استعمال میں توازن پیدا ہوتا ہے اور نظام سلطنت احسن طریقے سے چلتا رہتا ہے۔ آپ دنیا کے مہذب ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تمام عادلانہ جمہوری معاشروں میں آئین وقانون کی پاسداری سب سے پہلا رہنما اصول نظر آئے گی اور صاحبان اختیار اس پر سختی سے کاربند رہتے ہیں یہی وجہ ہے وہاں کسی بھی ریاستی ادارے کے سربراہ کو خودساختہ ''ایڈونچر'' کی جرأت نہیں ہوتی۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انصاف کا موثر نظام کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ایک صحت مند اور بنیادی عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ جب کہ ناانصافی، حق تلفی، ظلم و زیادتی، انا پرستی، ذاتی عناد، باہمی رنجشیں، عدم مساوات اور شخصی تضادات سے معاشروں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس سے نہ صرف قومی سطح پر لاتعداد مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ ایسے مفاد پرستانہ رویے اور تنگ نظری کے باعث معاشرے میں ہر سطح پر انتشار پیدا ہوتا ہے جو رفتہ رفتہ حکومتوں کے زوال کا سبب بن جاتا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ جہاں طاقت، ضد، منتقمانہ مزاجی اور آمرانہ طرز عمل کے باعث اپنی بات منوانے اور رہنما آئینی اصولوں کو پامال کرنے کی روایت پڑ جائے وہاں مستحکم جمہوری نظام، عادلانہ معاشرتی ماحول اور ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی و استحکام پر بڑے سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ہر سطح پر مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔ معیشت سے لے کر معاشرت تک اور آمریت سے لے کر صحافت تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں صرف ''میں'' کی زور آوری نظر آتی ہے۔ صبر و تحمل، برداشت، مساوات اور مفاہمت سے فرار ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے تمام ریاستی ادارے ہمہ وقت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں مصروف نظر آتے ہیں کبھی پارلیمنٹ کی بالادستی، کبھی عسکری آمریت، کبھی میڈیا کی حاکمیت اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کے درمیان رسہ کشی اور ٹکراؤ کے باعث ریاست کی اہم ترین دستاویز یعنی ملک کا آئین بازیچہ اطفال بن کر رہ گیا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ پارلیمنٹ کا کام آئین و قانون بنانا ہے اور وقتی ضرورتوں اور تقاضوں کے تحت اس میں ترامیم کی جاسکتی ہیں اور عدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آئین و قانون کی درست تشریح کرے جو سب کے لیے قابل قبول ہو ۔ جب کوئی ادارہ اپنے آئینی فرائض کو احسن طریقے سے ادا کرنے سے گریز کرے نتیجتاً شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں اور آئینی و قانونی ماہرین سوالات اٹھاتے ہیں پھر جواب دینا مشکل ہوجاتا ہے۔ اگلے دنوں سینیٹ میں پی پی پی کے ترجمان اور کہنہ مشق سینیٹر فرحت اللہ بابر ایک قرارداد پر بحث کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں متعدد بار دہری شہریت کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کا وزارت قانون نے کوئی واضح جواب نہیں دیا جب کہ دہری شہریت رکھنے والے متعدد اراکین پارلیمنٹ کو نااہل قرار دے دیا گیا اور انھیں جیل بھی بھیجا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سینیٹ نے یہ قانون منظور کیا ہے جس کی بنیاد دہری شہریت رکھنے والے افراد کو سول سروس میں گریڈ 19 سے آگے ترقی نہیں دی جائے گی۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ انتہائی سنجیدہ اور اہم نوعیت کے ہیں۔ آئین و قانون کی پاسداری اور تشریح کے تناظر میں ارباب اختیار کو ان سوالات کا جواب دینا چاہیے۔اصولی طور پر برسر اقتدار حکمرانوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ریاست کے تمام اداروں میں آئین کی عمل داری کو یقینی بنائیں لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے پوری طرح سنجیدہ نظر نہیں آتی گزشتہ دور حکومت میں پی پی پی کے تجربہ کار سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی نے 18 ویں ترمیم کا خاکہ تیار کیا جو پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اب آئین کا حصہ ہے لیکن افسوس کہ آج 18 ویں ترمیم پر بھی شب خون مارنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے چار روز پیشتر 18 ویں ترمیم کے روح رواں سینیٹر رضا ربانی اور سینیٹ میں دیگر اپوزیشن ارکان 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کے حوالے سے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کر رہے تھے۔ سینیٹر رضا ربانی نے واضح الفاظ میں کہا کہ بیوروکریسی میں مرکزیت کی سوچ اور ذہنیت موجود ہے جو اختیارات کی منتقلی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اسی لیے 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی سازش ہو رہی ہے اور صوبائی وسائل پر قبضے کا عمل جاری ہے۔
18 ویں ترمیم پر عمل درآمد کے حوالے سے جو شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں اس پر ارباب حکومت کا نہ صرف واضح اور دو ٹوک موقف سامنے آنا ضروری ہے بلکہ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ 18 ویں ترمیم پر پوری طرح عمل درآمد کے لیے واضح ہدایات جاری کریں اگر صوبوں کی شکایات کا ازالہ نہ کیا گیا قومی وسائل میں انھیں اپنا حصہ نہ ملا ان میں پہلے سے موجود احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو جو خودمختاری دی گئی ہے اسے سلب کرنے کی وفاق کی کوششیں چھوٹے صوبوں کے حقوق غصب کرنے کے مترادف ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں کراچی میں ڈاؤ یونیورسٹی اور یو این ڈی پی کے اشتراک سے تیل و گیس پر وفاق اور صوبوں کی مشترکہ ملکیت کے تناظر میں دو روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس سے وفاقی وزیر پٹرولیم خاقان عباسی، سینیٹر رضا ربانی، وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اور بلوچستان و کے پی کے کے اہم رہنماؤں نے خطاب کیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے کوآرڈی نیٹر تاج حیدر نے نظامت کی اور ان کی اہلیہ ناہید حیدر اور ان کی ٹیم نے دو روز تک پوری تیزی سے کانفرنس کے انتظام کو سنبھالے رکھا۔
سینیٹر رضا ربانی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت آرٹیکل 172 میں شق 3 کا جو اضافہ کیا گیا ہے اس کے تحت پہلی مرتبہ تیل و گیس پر صوبوں کے مساوی ملکیت کا حق تسلیم کیا گیا ہے اور اب اس پر پوری طرح عمل درآمد ہونا چاہیے اور تیل و گیس پر مشترکہ ملکیت کا نظام وضع کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے تحت خودمختار ادارہ قائم کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے کہا کہ سندھ مجموعی گیس کی پیداوار کے 70 فیصد اور تیل کی مجموعی پیداوار کے 60 فیصد سے زائد پیدا کرتا ہے اور ہم تیل و گیس کے شعبے کو چلانے کی صلاحیت پیدا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ انھوں نے تیل و گیس پر صوبوں کی مشترکہ ملکیت کے حق کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جب کہ وفاقی وزیر پٹرولیم خاقان عباسی نے کہا کہ صوبوں نے پہلے تیل و گیس کے منصوبوں میں کام نہیں کیا اب وہ ان منصوبوں کو چلانے کی صلاحیت پیدا کریں انھوں نے خودمختار ادارے کے قیام کی تجویز سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ آئین کی تمام شقوں بالخصوص 18 ویں ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنانا حکومت کی ذمے داری ہے ورنہ وفاق اور صوبوں میں فاصلے پیدا ہونے لگیں گے۔