خوشحال پاکستان کے تصور کی تکمیل

سردی کی شدت میں اضافہ ہوتے ہی جہاں کئی وائرل انفیکشن حملہ آور ہوتے ہیں، وہاں ڈپریشن میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے


Shabnam Gul January 12, 2014
[email protected]

موسموں کی تبدیلی اور شدت انسانی مزاج اور صحت کو بری طرح متاثر کرنے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی زندگی مزاج اور رویے بدلنے کی وجہ سے رنگ بدلنے لگی ہے۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہوتے ہی جہاں کئی وائرل انفیکشن حملہ آور ہوتے ہیں، وہاں ڈپریشن (افسردگی و قنوطیت) میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ سرد ترین ملکوں میں جہاں برفباری ہوتی ہے اور سورج دنوں تک دکھائی نہیں دیتا ان ملکوں میں لوگ SAD سیزنل افیکٹیو ڈس آرڈر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس بیماری کو دریافت کرنے والے ڈاکٹر نارمن ای روزینتھل ہیں۔ جس کا علاج لائٹ تھیراپی سے کیا جاتا ہے۔ نیم تاریک ماحول اداسی و افسردگی کا سبب بنتا ہے۔ روشنی و ہوا کا جن گھروں میں گزر نہیں ہوتا وہاں کے مکین اکثر اداسی و بے زاری کا شکار ہوجاتے ہیں۔

سردی کے موسم میں جب دو سو سے زائد وائرس انسانی جسم پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں، اس وقت احتیاطی تدابیر اور مناسب غذا سے بہتری آسکتی ہے۔ 1970 میں امریکا کے بایو کیمسٹ اور نوبل پرائز ونر Linus Pauling نے ''وٹامن سی اینڈ دی کامن کولڈ'' نامی کتاب لکھی۔ ان کا کہنا ہے کہ وٹامن سی کے استعمال سے سردی کے موسم میں ہونے والی کئی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ وائرس چھینکنے، کھانسی، دروازوں کے ہینڈل، ٹیلی فون، کمپیوٹرز اور نلوں پر سے صحت مند لوگوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بیمار لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ جس کی وجوہات میں صفائی اور مدافعتی نظام کا مستحکم ہونا ہے۔ امیون سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے سبزیوں و پھلوں کا استعمال مفید رہتا ہے۔

غذا کو چار حصوں میں منقسم کیا جاتا ہے۔

1۔پروٹین: اس طرح کی غذا میں گوشت، مرغی، مچھلی، انڈے، بین، مٹر، خشک میوہ جات شامل ہیں جو جسم کو پروٹین کے ساتھ منرل اور وٹامن بی بھی مہیا کرتے ہیں۔

2۔ڈیری فوڈ: جس میں دودھ، مکھن، چیز، دہی شامل ہے جو پروٹین، کیلشیم، پوٹاشیم اور وٹامن ڈی اور بی بھی فراہم کرتے ہیں۔

3۔فائبر: ہر انسان کو روزانہ تقریباً چار سو گرام فائبر لینا چاہیے۔ اس گروپ میں دلیہ، ڈبل روٹی، پاستہ، براؤن رائس اور آلو شامل ہیں۔

4۔سبزیاں و پھل: یہ جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتے ہیں۔ جو منرل، وٹامنز اور فائبر حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔

جنک، فاسٹ فوڈ، فروزن فوڈ، چائے وکافی یا الکوحل کا زیادہ استعمال جسم کے مدافعتی نظام کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ جسم پر وبائی بیماریاں بار بار حملہ آور ہونے لگتی ہیں۔

سردیوں میں نزلے، زکام وکھانسی سے بچنے کے لیے یہ احتیاطی تدابیر موثر رہتی ہیں:

٭غرارے و بھاپ لینا: صبح وشام نمک کے گرم پانی سے غرارے کرتے رہنے سے گلے و حلق کی بیماریاں غائب ہوجاتی ہیں۔ بھاپ لینے سے نزلے و زکام کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ ایک بہت ہی موثر اور سادہ سا علاج ہے جو ایشیا سے لے کر یورپ تک مروج ہے۔ جو ان کی روزمرہ کی زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ہائی بلڈپریشر کے متاثرین نمک کی جگہ پھٹکری کا پانی غراروں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔

٭پانی کا زیادہ استعمال: سردیوں میں وائرل انفیکشنز اور مستقل کھانسی کے لیے دن بھر میں دس سے بارہ مرتبہ چکن سوپ، گرین ٹی،گرم دودھ شہد کے ساتھ، ادرک کی چائے، دار چینی، لونگ اور بڑی الائچی کی چائے متبادل طور پر استعمال کرنے سے بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں گرمیوں میں بہت ٹھنڈا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ سردیوں میں فریج سے باہر رکھا ہوا پانی بھی ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ گرمی ہو یا سردی ایشیا کے بہت سارے ملک جن میں چین و جاپان شامل ہیں، پینے کے لیے نیم گرم پانی استعمال کرتے ہیں۔ چین کے لوگ فطری دوا اور ین اور ینگ فلسفے کے مطابق، گرم پانی کو صحت کے لیے مفید قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق نزلہ، زکام، کھانسی، بے خوابی، ڈپریشن اور معدے کے امراض میں گرم پانی پینے سے فائدہ ہوتا ہے۔ جسم کی نہ صرف فطری توانائی بحال ہوتی ہے بلکہ جسم جراثیم کے اثر سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ وزن میں کمی واقع ہوتی ہے۔ گرم پانی پینے سے جسم میں خون کے بہاؤ میں روانی آتی ہے اور نروس سسٹم کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔

٭جڑی بوٹیوں سے علاج: ان جڑی بوٹیوں کو Anti Viral Herbs کہا جاتا ہے۔ جو فلوکے ساتھ بہت سی شکایت میں استعمال کی جاتی ہیں۔ ان میں لوینڈر، یوکلپٹس، لیمن بام، پیپرمنٹ، ٹی ٹری، وائٹ اوک بارک شامل ہے۔ اس کے علاوہ لہسن، ادرک، کالی مرچ، تھائیم اور الائچی بھی سردیوں میں موثر قرار پاتے ہیں۔

٭ایک چمچ گڑ اور چند کالی مرچیں دن میں چار سے پانچ مرتبہ کھانسی کے لیے مفید ہیں۔

٭Nasal Drops کے استعمال سے بھی کھانسی کو فائدہ ہوتا ہے۔

٭سردیوں میں سبزیوں کے سوپ زیادہ استعمال کرنے چاہئیں۔

٭ایک گلاس نیم گرم پانی میں دو چمچ شہد اور لیموں کے چند قطرے ڈال کر استعمال کریں۔

جیساکہ میں نے شروع میں سردیوں میں ہونے والے ڈپریشن کا ذکر کیا تھا۔ جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وٹامن بی کی غذا کے استعمال سے ڈپریشن کا علاج ممکن ہے۔ اس غذا میں دالیں، بین، چنے، جو کا دلیہ، شیل فش، چیز، بیف، انڈے، ٹیونا، مونگ پھلی، ٹماٹر، مچھلی، مرغی، مشرومز، تربوز، ایواکاڈو (ناشپاتی)، بیجوں، خشک میوہ، پستہ وغیرہ شامل ہے۔گاجر، شلجم اور بندگوبھی کا زیادہ استعمال بھی سردی کے موسم کی سختی کو کم کردیتا ہے۔ ہم چاہے کتنی اچھی غذا کیوں نہ لیں اگر جسمانی مشق سے دور ہیں تو بھی جسم کے مدافعتی نظام میں بہتری نہیں آسکتی۔ پیدل چلنا، گھرکے کاموں میں حصہ لینا یا باغبانی جیسے مشغلے سردیوں کے موسم میں بیماریوں کا دفاع کرتے ہیں۔

٭مثبت انداز فکر: برے احساس کو بھول جانا اور اچھی باتوں کو یاد رکھنا اور سراہنا مثبت سوچ کی دلیل ہے۔ مثبت فکرکے حامل افراد کم بیمار ہوتے ہیں۔ سکون، اطمینان اور خوشی کا روشن بہاؤ جسم کو کبھی تھکنے نہیں دیتا۔ صحت کے حوالے سے بنیادی معلومات زندگی کو تحفظ عطا کرتی ہے۔ گھروں کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دواؤں اور طبیبوں کی بھاری بھرکم فیسز پر خرچ ہوجاتا ہے۔ بچے کھلونوں اور گھر خوشحالی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اپنا اور اپنے بچوں کا خیال رکھیے خوشحال پاکستان کے تصور کی تکمیل کی خاطر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔