بسوں کے اڈے پر حصول رزق میں مشغول خاتون

کام کرنے والی خواتین لوگوں سے عزت مانگتی ہیں، ارم روبینہ کی کہانی.


Rizwan Tahir Mubeen January 13, 2014
کام کرنے والی خواتین لوگوں سے عزت مانگتی ہیں، ارم روبینہ کی کہانی۔ فوٹو: ایکسپریس

دو، تین عشرے قبل تک شہر سے پرے سمجھا جانے والا علاقہ۔۔۔ آج بھی اگر اسے شہر کے مضافات میں نہ بھی شمار کریں تو مرکزِ شہر سے اس کی مسافت خاصی۔۔۔

امن وامان کے حوالے سے آج بھی بہت حساس۔۔۔ اس کی تاریخ بھی خون کے چھینٹوں سے مبرا نہیں۔۔۔ زمانہ امن میں بھی عام آدمی یہاں آکر کچھ ڈرا ڈرا سا رہتا ہے۔۔۔ مگر سہ پہرکے سمے، جب سورج کی واپسی کی منزل بہت کم دور رہ گئی ہے۔۔۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک پر ہچکولے لیتا شہر کا داخلی اور خارجی ٹریفک اڑتی گَرد کو تھمنے نہیں دے رہا۔۔۔ بیرون شہر جانے والے مسافر اپنا سامان ڈھوئے جوق در جوق آئے چلے جا رہے ہیں۔۔۔ دو رویہ سڑک کی دوسری جانب کچھ یہی منظر شہر کی جانب آنے والوں کا بھی ہے۔۔۔ مگر ہم شہر کے باہر کو جانے والی پٹی پر تھے، اس لیے بیرون شہر سفر کے خواہش مند لوگوں کا ہی مشاہدہ کر رہے تھے۔۔۔ جو سڑک کے کنارے ایک عارضی دفتر کا رخ کر رہے تھے، جس پر لکڑی کے بانسوں سے تنا ہوا ایک کپڑا سائبان بنا، مغرب کی سمت سے وارد ہونے والی دھوپ کو روکے ہوئے تھا۔۔۔ یہ ایک نجی بس سروس کا ٹکٹ کائونٹر تھا۔

''دفتر'' کی نیچی ''چھت'' کی وجہ سے کمر دُہری کیے مسافر اپنی باری کے منتظر تھے، کہ پیسے دے کر ٹکٹ لیں اور جلدی سے، روانہ ہونے کو تیار بس میں اپنی نشست جا لیں۔۔۔ ''کتنے مسافر؟ کون سی نشستیں؟ کتنی خواتین اور کتنے بچے؟'' ایک طرف یہ معاملات، دوسری طرف یہ سب اندراج کرنا ہے۔۔۔ ایک رقعے پر، پُر ہونے والی نشستوں کو قلم زَد کر کے ٹکٹ جاری کرنے ہیں۔۔۔ میز کی دوسری طرف یہ تمام امور انجام دینے کو کوئی مرد نہیں، بلکہ تن تنہا ایک خاتون نہایت حاضر دماغی اور برق رفتاری سے یہ سب کام کیے جا رہی ہیں۔ دیکھنے والوں کو یہ منظر چونکاتا ضرور ہے کہ یہ کام اور وہ بھی شہر کے اس حساس علاقے میں، جہاں امن وامان کی صورت حال خراب ہوتی رہتی ہے، یہاں ایک خاتون کس ہمت سے یہاں بیٹھی اپنے گھر کے لیے روزگار کما رہی ہے۔

ان خاتون کا نام ارم روبینہ ہے، جو عُنیزہ کے نام سے بھی معروف ہیں۔ تعلیمی قابلیت انٹر ہے۔ 14 برس قبل کنگ ایڈورڈ اسکول میں ہیڈ مسٹریس رہیں۔ ایک دفعہ اپنی ماتحت خواتین اساتذہ کو بس ہوسٹس کی اسامیوں کے لیے لے جانا ہوا۔ دوران انٹرویو ایک سوال کا جواب جب کوئی امیدوار نہ دے سکا، تو موقع پر موجود ارم روبینہ سے نہ رہا گیا اور انہوںنے جواب دے ڈالا۔ ان کی اس جرأت سے متاثر ہو کر انہیں ملازمت کی پیشکش کی گئی۔ یوں انہوں نے تدریس کو خیرباد کہا اور اس شعبے کا رخ کیا۔۔۔ ٹرانسپورٹ کا شعبہ۔۔۔ جہاں خواتین کام کرنا تو درکنار تنہا سفر کرنے سے بھی گریز کرتی ہیں۔ یہ ہمت کرکے بیرون شہر جانے والی بسوں میں خاتون میزبان (ہوسٹس) بن گئیں۔ پھر ایک ہفتے بعد ہی انہیں دفتری امور کی ذمہ داریاں دے دی گئیں۔ اس وقت اس نجی بس سروس میں بکنگ کلرک کے عہدے پر فائز ہیں۔ جب مینجر نہیں ہوتے تو ان کی ذمہ داریاں بھی وہی ادا کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہاں آکر سیکھا کہ ایک عورت مردوں کی دنیا میں کس طرح باہر نکلتی ہے، پہلے وہ بہت کم حوصلہ تھیں۔ اب مسافروں کی آمدورفت زیادہ ہو تو رات دیر تک بھی بے خوفی سے یہاں رہتی ہیں۔ اپنی اس ہمت کا کریڈٹ وہ اپنے شوہر اور کمپنی کے مالک کو دیتی ہیں۔

ارم نے شادی کے بعد بہت اچھے دن گزارے۔ ان کے شوہر مقصود درزی ہیں۔ کئی نمایاں شخصیات کے ملبوسات تیار کر چکے ہیں۔ شادی کے بعد دبئی میں برسرروزگار تھے۔ دبئی میں کام ختم ہوا تو معاشی تنگی نے آلیا اور انہیں شوہر کے ساتھ معاش کے میدان میں آنا پڑا۔ والدین کے دنیا سے جانے کے بعد بھائیوں سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے اور انہیں شکوہ ہے کہ ان کے بھائیوں نے انہیں جائیداد میں سے ان کا حصہ بھی نہیں دیا، یوں صورت حال اور کٹھن ہوتی چلی گئی۔ آزمایش کی اس گھڑی میں سوائے چند ایک رشتے داروں کے، سب نے چھوڑ دیا۔ البتہ ان کے شوہر نے ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ دبئی میں کام ختم ہونے کے بعد ان کے شوہر نے گھر کے بیرونی حصے میں اپنی درزی کی دکان قائم کی تو ارم نے زنانہ سلائی کے کام میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹایا۔ اس کے بعد اسکول میں تدریس کا سلسلہ رہا۔ جس کے بعد گزشتہ 14 سال سے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی سے منسلک ہیں۔ اپنا گھر بنانے کے لیے سارا زیور بیچ کر زمین لی اور چھ سال پہلے جیسے تیسے کر کے اس پر گھر بنایا۔

 photo Pic3_zps5aafc0aa.jpg

ارم کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں خواتین کو پہلے عزت نہیں دی جاتی تھی۔ آج بھی بعض ڈرائیور کنڈیکٹر عورت ہونے کی وجہ سے ان کے ماتحت کام کرنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ پہلے یہاں رکھے گئے ایک کنٹینر میں بیٹھتی تھیں، جسے تجاوزات قرار دے کر ہٹا دیا گیا۔ اب یہاں باہر بیٹھنا پڑ رہا ہے۔ جس پر لوگ اب اور بھی باتیں کرتے ہیں، جو کافی دکھ پہنچاتی ہیں، لیکن لوگوں کی یہ باتیں میرا پیٹ نہیں بھرتیں۔ اس لیے جو وہ کر رہے ہیں، ان کی پرو انہیں۔ مجھے صرف اپنی نوکری سے مطلب ہے۔ اب بھی جب کبھی انہیں یہاں سے اٹھ کر بعض اوقات ''ہاکری'' کرنا پڑتی ہے، جس میں انہیں ٹکٹ کائونٹر سے گاڑی میں بیٹھنے والے مسافروں کے بیچ رابطے کا کام کرنا ہوتا ہے، تو لوگ اور بھی زیادہ مذاق اڑاتے ہیں، لیکن میں ان تمام تکلیف دہ چیزوں کو نظر انداز کرتی ہوں۔

لوگوں کے رویوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہاں تو خواتین ہی ہمارا مذاق اڑاتی ہیں۔ یہ نہیں سوچتیں کہ ہم اپنی مجبوری سے یہاں ہیں اور ہمارے بھی گھر بار ہیں۔ ہم لوگوں سے عزت مانگتے ہیں۔ ملازمت کرنے والی خواتین بری نہیں ہوتیں۔ یہ سوچیں کہ ہماری نوکری تو اتنی سخت ہے کہ ہم لوگ تو تہوار پر بھی یہاں ہوتے ہیں، صرف اور صرف اپنی روزی کی خاطر۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو خود مختار بنائیں۔ یہ مت سوچیں کہ لڑکیاں ہیں تو کچھ نہیں کر سکتیں۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا سب سے بری بات ہے، چاہے وہ اپنا بھائی کیوں نہ ہو۔

گھر کے کاموں کے حوالے سے ارم کا کہنا ہے کہ وہ سب کام خود کرتی ہیں۔ ملازمت کے ساتھ یہ سب کرنا کٹھن ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ ان کے تین بچے ہیں، بڑی بچی حافظہ ہے اور اب میٹرک کے بعد عالمہ بن رہی ہے، اکلوتا بیٹا آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے، جب کہ چھوٹی بیٹی چھ سال کی ہے۔ کہتی ہیں کہ ایک ماں کی حیثیت سے اپنے آرام کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ صبح سویرے اٹھ کر پہلے گھر کے کام نمٹاتی ہیں۔ دوپہر کو بچے گھر لوٹتے ہیں، تو ڈھائی بجے تک دفتر آجاتی ہیں اور رات کو آخری گاڑی جانے تک ٹھہرنا ہوتا ہے۔ عموماً آٹھ سے نو بجے تک فارغ ہو جاتی ہیں۔ البتہ جمعہ، ہفتہ اور اتوارکو کبھی کبھی رات ڈیڑھ، دو بھی بج جاتے ہیں۔ تاخیر کی صورت میں کمپنی کی طرف سے گھر پہنچانے کی سہولت مل جاتی ہے۔

بچوں کے مستقبل کو سنوارنا ارم کی اولین ترجیح ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑی بیٹی اب اپنا مدرسہ بنانا چاہتی ہے، میری خواہش ہے کہ اس کا یہ خواب پورا کروں۔ بیٹے کو پڑھائی کے بعد بیرون ملک بھیجنا چاہتی ہیں کیوں کہ یہاں کے حالات سے ڈر لگتا ہے۔ میں تنہا سارے خطرات کا سامنا کر لیتی ہوں، لیکن شوہر اور بچوں پر آنچ نہیں آنے دینا چاہتی۔

 photo Pic4_zps142495a3.jpg

ارم کو یہاں سے 250 روپے روز ملتے ہیں، سخت منہگائی کے باعث اب معاشی تنگی سے نبرد آزما ہیں۔ اس لیے چاہتی ہیں کہ ان کی اجرت میں اضافہ کیا جائے۔ بچوں کی بڑھتی ہوئی فیسیں، آنے جانے کا کرایہ اور شوہر کی بیماری کی وجہ سے سخت مسائل ہیں۔ جو کماتے ہیں وہ ختم ہو جاتا ہے۔ اب بچت بالکل نہیں۔ اس لیے ان کی خواہش ہے کہ کم سے کم ان کی 14 سالہ خدمت کا ہی کچھ خیال کر لیا جائے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ اگر وہ اتنا وقت کسی دوسرے ادارے کو دیتیں، تو یقیناً کافی ترقی کر چکی ہوتیں، لیکن یہاں کے ماحول سے ہم آہنگی کی وجہ سے کہیں اور جانے سے کتراتی ہیں۔ ایک بار ایک فیکٹری گئیں، تو وہاں کے ماحول سے دل مطمئن نہیں ہوا، لہٰذا پھر اسی کام کو ترجیح دی، کیوں کہ یہاں کمپنی کے مالک سے لے کر ارد گرد کے لوگ بھی سب شناسا ہیں۔ کمپنی کے مالک بھی بالکل شفیق باپ کی طرح ہیں، لیکن بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کے باعث انہیں لگتا ہے کہ اگر ان کی جگہ کوئی مرد یہ کام کرتا تو شاید اسے مالی تنگی کے مسائل درپیش نہ ہوتے۔

اپنے کپڑے کسی کو پہننے نہ دیتی تھی

اپنے بچپن کے حوالے سے ارم روبینہ کا کہنا ہے کہ وہ جب پیدا ہوئیں، تو گھر کے پانچ خاندانوں میں کوئی بیٹی نہ تھی، لہٰذا بڑی نازوں سے پالی گئیں۔ گھر میں ان کے منہ سے نکلتے ہی خواہش پوری کر دی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ اگر دن کو رات اور رات کو دن کہتی تھی تو مان لیا جاتا تھا۔ والد ان کی ماں اور بھائیوں کی بات پر بھی انہیں ترجیح دیتے کہ جب یہ کہے گی تو پورا کروں گے۔ بقول ارم کے کہ بچپن میں انہوں نے کبھی جوتی جڑوا کر نہیں پہنی اور جو کپڑے اُن کے لیے آتے تھے، وہ پھر کسی صورت بھی کسی اور کو نہیں پہننے دیتی تھیں۔ جب یہ کپڑے چھوٹے ہو جاتے تو اسے قینچی سے کتر ڈالتیں تاکہ کوئی دوسرا نہ پہننے پائے۔

150خواتین میں سے کوئی نہ چل سکا

اس کمپنی میں، میرے ساتھ ڈیڑھ سو کے قریب خواتین نے کام شروع کیا، لیکن پھر مختلف وجوہ کی بنا پر وہ سب چھوڑتی چلی گئیں۔ اب صرف ایک خاتون ہیں، جو صبح میرے آنے سے پہلے میری جگہ بیٹھتی ہیں۔ وہ بھی کافی بد دل تھیں، لیکن میں نے ان کی ہمت بندھائی کہ لوگوں کی باتوں کی پروا نہ کرو، تم محنت کر رہی ہو اور یہ جو روز تم 250 روپے لے کر جاتی ہو، یہ اَن مول ہیں، کیوں کہ مصیبت میں کوئی رشتہ دار کام نہیں آتا۔ مجھے بھی یہ کام شروع کرنے پر اپنے بھائیوں کی طرف سے سخت ناپسندیدگی کا سامنا تھا، لیکن ان کا رویہ تو پہلے ہی میرے ساتھ درست نہ تھا۔ والدہ کی وفات کے بعد میں نے میکے جانا بھی چھوڑ دیا۔ اس لیے مجھے اصل فکر اپنے سسرال کی طرف سے تھی، جنہوں نے حیرت انگیز طور پرمزاحمت نہ کی، بلکہ حوصلہ افزائی کی کہ میں محنت کر کے اپنے بچوں کو تعلیم دلا رہی ہوں، کیوں کہ سسرال میں تعلیم کا زیادہ رواج نہ تھا۔ میرے خاندان میں چند ایک خواتین تدریس اور طب کے شعبے سے وابستہ ہیں، لیکن اس نوعیت کا کام کوئی نہیں کرتا۔

پورے سال میں صرف تین چھٹیاں!

ارم یہاں یومیہ اجرت پر کام کرتی ہیں۔ جس دن کام کرتی ہیں، فقط اسی دن کے پیسے ملتے ہیں۔ کوئی ہفتہ وار تعطیل بھی نہیں۔ صرف عید، بقرعید اور یوم عاشور کی چھٹیاں ملتی ہیں۔ اس لیے خراب حالات میں بھی پہنچنا پڑتا ہے، بصورت دیگر اس دن کی اجرت سے محروم رہ جاتی ہیں۔ اس لیے انہیں اپنے کسی شوق یا مشغلے کی تکمیل کے لیے فرصت شاذ ہی مل پاتی ہے۔ تمام وقت ملازمت اور گھریلو امور کی انجام دہی میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔ کسی خوشی غمی میں شرکت کے لیے بھی بہت سوچنا اور وقت نکالنا پڑتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں