نیا امتحان
جہاں تک حکومت کی سیاسی اور معاشی صورتحال کا تعلق ہے تو ہر دو حوالوں سے وزیر اعظم مشکلات در مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔
کسی بھی حکومت کی کامیابی کا دارومدار داخلی و خارجی ہر دو محاذوں پر اس کی مثبت، ٹھوس، جامع اور تعمیری پالیسیوں اور دوررس نتائج کے حامل مربوط وپختہ اقدامات پر منحصر ہوتا ہے۔ حاکم وقت پر لازم ہے کہ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ذہین و فطین اورکہنہ مشق معاونین کی مدد سے بیرون و اندرون وطن ایک مثالی طرز حکمرانی قائم کرے۔
ملکی سطح پر قومی زندگی کے اہم شعبوں یعنی سیاسی و معاشی استحکام کو یقینی بنائے اور عوام الناس سے کیے گئے وعدوں اور اپنے دعوؤں کی تکمیل کے لیے عام آدمی کی فلاح و بہبود کی منصوبہ بندی کرے تاکہ لوگ غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی ، بھوک ، افلاس، تنگدستی، بیماری اور جہالت کی تاریکیوں سے نکل کر انفرادی خوشحالی، معاشی آسودگی، ترقی و کامیابی اور صحت و تندرستی کے ساتھ پرسکون ماحول میں زندگی بسر کرسکیں۔
ملکی معیشت مستحکم ہو اور سیاسی کشیدگی کا خاتمہ ہو۔ قومی دفاع مضبوط اور ملک کے طول و عرض میں امن و امان قائم رہے اور تمام قومی و ریاستی ادارے ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کی بجائے آئین کے تحت طے کردہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرتے رہیں۔ احتساب و انصاف کا ایسا مثالی و شفاف نظام قائم ہو کہ عوام اور خواص سب کو بلاتفریق ایک ہی قانون کے مطابق جزا و سزا کے عمل سے گزرنا پڑے۔ تب کہیں جا کے ملک میں ایک مثالی معاشرتی، سماجی، سیاسی، معاشی اور عادلانہ نظام قائم ہو سکتا ہے۔
اسی طرح خارجی سطح پر بھی بیرونی دنیا سے معاملات بالخصوص پڑوسی ممالک سے خوشگوار تعلقات کا قیام بھی انتہائی سنجیدہ اور دانشمندانہ طرز عمل کا متقاضی ہوتا ہے۔ پاکستان خطے کا اہم ترین ملک ہے۔ پہلی ایٹمی اسلامی ریاست ہونے کے ناتے جہاں عالم اسلام میں وطن عزیز کو بلند مقام حاصل ہے وہیں عالمی برادری میں بھی پاکستان کی علاقائی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے جو یقینا حوصلہ افزا اور قابل اطمینان بات ہے۔
تاہم بیرون دنیا سے تعلقات کے معاملے میں چونکہ ہر ملک اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر چھوٹے موٹے تنازعات کو نظرانداز کرتے ہوئے، رشتے استوار کرتا ہے اسی باعث ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اسلامی ممالک کے غیر مسلم ملکوں سے بڑے اچھے تعلقات قائم ہیں جب کہ کچھ برادر اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی و تنازعات کا ایک طویل سلسلہ رہا ہے اور یہ روش اب بھی جاری ہے۔ ایران عراق جنگ اور سردست ایران عرب کشیدگی سے ایک دنیا آگاہ ہے جو مسلم امہ کے اتحاد و یکجہتی کے لیے یقیناً ایک بڑا دھچکا ہے اور بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں لمحہ فکریہ بھی۔
عالمی برادری سے دیرپا تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو چند ماہ پیشتر فرانس میں گستاخی رسول کے شرم ناک واقعے کے بعد سے مسلم دنیا میں بے چینی و اشتعال کا پایا جانا ناقابل فہم نہیں۔ مسلمانوں کا ایمان کامل عشق رسول کے بغیر نامکمل ہے اسی طرح نبی کریم ﷺ کی شان میں ہر قسم کی گستاخی ناقابل قبول اور قابل تعزیر ہے۔ بدقسمتی سے مسلم امہ کی کمزوریوں کے باعث مغربی دنیا میں آزادی اظہار کی آڑ میں بار بار حرمت رسولؐ کے حوالے سے وقوع پذیر ہونیوالے ایسے دل خراش واقعات مسلمانوں کے دینی جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں جس کے ردعمل میں مسلم دنیا میں مغربی ممالک کے خلاف انتشار پھیلتا اور نفرتیں جنم لیتی ہیں جو فطری بات ہے۔
اس پس منظر میں وزیر اعظم عمران خان نے بجا طور پر کہا ہے کہ مسلمان نبی پاکؐ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتے، اہل مغرب آزادی اظہار کی آڑ میں منافرت پھیلا رہے ہیں، حضرت محمد مصطفیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے مسلمانوں سے معافی مانگیں۔ وزیر اعظم نے مطالبہ کیا کہ توہین رسالت پر بھی وہی معیار اپنایا جائے جو ہولو کاسٹ کے خلاف تبصرے پر اپنایا جاتا ہے اور حرمت رسول سے انکار کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں اور ان پر پابندی لگائی جائے۔ مسلم امہ کو اس مطالبے کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔
جہاں تک حکومت کی سیاسی اور معاشی صورتحال کا تعلق ہے تو ہر دو حوالوں سے وزیر اعظم مشکلات در مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان بڑے بلند و بانگ دعوے کرتے تھے کہ ان کے پاس پاکستان کے جملہ مسائل کا حل موجود ہے، کام کرنے کے لیے بہترین ٹیم موجود ہے، مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل پی ٹی آئی کا تھنک ٹینک پالیسی بنائے گا، ملک کی معاشی و اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے معاشی ٹائیکون کی خدمات ہمیں حاصل ہیں۔ وائے افسوس کہ محض ڈھائی سال کے عرصے میں حکومت معاشی شعبے کی زبوں حالی کا تدارک کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اپنے قابل اعتماد وزیر خزانہ اسد عمر کو فارغ کرکے پیپلز پارٹی دور کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ پر انحصار کرنا پڑا۔ لیکن گزشتہ ماہ انھیں بھی سینیٹ کا انتخاب ہارنے کے بعد فارغ کردیا۔
ان کی جگہ پی ٹی آئی کے حماد اظہر ایک ماہ بھی وزیر خزانہ نہ رہ سکے اور نظر انتخاب ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ شوکت ترین پر پڑی ، انھیں خزانہ کا قلم دان دے دیا گیا۔ چند روز پیشتر شوکت ترین نے حکومت کی معاشی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اب وزیر خزانہ بن کے وہ حکومت کی معاشی پالیسی کو کیا نیا رخ دیں گے اور کس طرح معیشت کو مستحکم کریں گے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے معتمد خاص جہانگیر ترین کے خلاف شوگر اسکینڈل پر انکوائری کے باعث پی ٹی آئی کے 30 سے زائد ارکان نے ان کی حمایت میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی پیش کش کرکے عمران خان کے خلاف گویا بغاوت کا اشارہ دے دیا ہے۔ وزیر اعظم نے صورتحال کی نزاکت کا ادراک نہ کیا تو جہانگیر ترین جنھوں نے ان کی وفاقی اور پنجاب حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا وہ حکومت گرانے میں بھی پس پردہ رول ادا کرسکتے ہیں۔ شوکت ترین اور جہانگیر ترین دونوں حکومت کے لیے نیا امتحان ہیں۔