گھبرانا نہیں ہے
مملکت خداداد کا دروازہ کھٹکھٹانا ضروری نہیں مملکت کے کرتا دھرتا کو خود سوچنا چاہیے کہ یہ بچے عروج و کمال کے مالک ہیں۔
آج میں کچھ ایسے موضوعات پر قلم اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں جو یقیناً قارئین کے دل کی آواز ہوں گے۔ حکومتی کوتاہی پر لکھوں تو ان کے پرستار ناراض ہوں گے، کرپشن کے حوالے سے لکھوں تو مجھ پر بے مقصد تصادم کا الزام لگایا جائے گا، امن و امان کے حوالے سے دلائل دے کر لکھوں تو مجھے خبطی کا خطاب دیا جائے گا مگر یہ سیاسی لوگ لفاظی کی ٹرین میں عوام کے ساتھ ہیں، صورتحال بہت ابتر ہے۔
میرے وطن کے چاروں صوبوں کے عوام خاموش ہیں ۔ہمارے سیاسی حضرات کو ذرا فکر نہیں کہ اس ملک میں قتل عام، لوٹ مار، کرپشن، چور بازاری، رشوت ستانی غرض ہر برا کام ہو رہا ہے قانون ریت کی دیوار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔مفلسی سے لتھڑے مفلوک الحال غریبوں کے چہرے جمود کا شکار ہیں جو کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ ہمارے کچھ سیاسی حضرات کو سوشل میڈیا پر شدید اعتراضات ہیں کہ یہ امن و محبت کا درس نہیں دے رہا بلکہ یہ سیاسی حضرات کے خلاف پراپیگنڈہ ہے۔
ان حضرات کو یہ معلوم نہیں اس قدر دل دہلا دینے والی مہنگائی کی وجہ سے دل خراش خبریں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں، کوئی خودکشی کرکے دنیا سے دور چلا جاتا ہے، کوئی معصوم عورت غربت کی بدحالی کی وجہ سے بچوں سمیت دریا کو لحد کا درجہ دے دیتی ہے، جس پیمانے پر مفلسی ہماری گلیوں اور ہمارے دیہاتوں کی زینت بنتی جا رہی ہے یہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں، کیونکہ میں بھی غربت کی ریت اپنی طرف اڑتے دیکھتا ہوں ، یہ قوم اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی مگر اب سوشل میڈیا نے اس قوم کو حقائق سے روشناس کرادیا ہے۔
اقتدار پر سوار اشرافیہ، امرا، صاحب حیثیت بہت سکون کے ساتھ ہر بجٹ کے بعد زندگی کے مزے لے رہے ہیں، تعلیم یافتہ طبقہ گزشتہ پندرہ سال سے ووٹ پابندی سے نہیں دیتا ،دیہاتوں میں رہنے والے لوگ اپنے مسائل کو دیکھتے ہوئے ووٹر لائن میں کھڑے ہوتے ہیں ۔اخبارات کے مطابق پی ڈی ایم کی ایک جماعت نے اندرون سندھ لاڑکانہ میں ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی سے اتحاد کیا تھا تعلیم یافتہ حضرات نے تو اس پر سوچا مگر معصوم دیہاتی کو کیا معلوم وہی تو جلسے جلوس میں ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک خبر اخبارات میں شایع ہوئی کہ مصر ایئرلائن میں کینیڈا سے قاہرہ کی پرواز میں مسافر خاتون نے بیٹے کو جنم دیا اس میں کمال کی کون سی بات ہے۔ ہمارے یہاں ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ایک خاتون نے کچرے کے ڈھیر پر بچے کو جنم دیا، ہمارے ہاں تو پروٹوکول کے باعث عورتیں رکشوں میں بچوں کو جنم دیتی ہیں توبہ و استغفار کرنی چاہیے ہمارے سیاسی دانشوروں کو ہمارے محترم وزیر اعظم عمران خان نے ڈسکہ الیکشن ہارنے پر رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت دی ہے، جناب وزیر اعظم جنھوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دیا وہ معصوم اور غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے وہ زمانے کی اونچ نیچ نہیں جانتے ہاں وہ اس مہنگائی کی وجہ سے پگھلتے لوہے کی طرح بکھر گئے ہیں۔
مہنگائی نے ان کے دل کے دروازے کو اس بری طرح کھٹکھٹایا ہے کہ انھوں نے ماضی کی قیادت کو سرخرو کردیا مگر تعلیم یافتہ شخص کو معلوم ہے کہ اگر اقتدار میں آیندہ الیکشن میں تبدیلی آئی تو حالیہ اپوزیشن غریب سے یہ کہہ کر جان چھڑا لے گی کہ مہنگائی ہمیں ورثے میں ملی ہے اور پھر یہ غریب دوبارہ تشویش کی لہر میں ڈوب کر اکتاہٹ کا سفر شروع کرے گا پچھلے دنوں ہمارے وزیر اعظم نے صدر پاکستان علوی صاحب کو کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد مشورہ دیا کہ آپ مرغی کا سوپ استعمال کریں۔ میرے محترم وہ مرغی کا سوپ کیسے استعمال کریں کہ مرغی تو 500 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔
جناب خان صاحب اب تو سوائے صبر کے کوئی راستہ نہیں ہے آپ فکر نہ کریں ہم نے گھبرانا نہیں ہے۔ اپوزیشن نے بڑے دعوے سے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی قابل وزیر خزانہ نہیں، تیکھے موضوعات پر اپوزیشن اور حکومت جم کر بولنگ کرا رہے ہیں ابھی قوم بھول بھلیاں کا شکار نہیں ہوئی ہے ان حضرات کے بیانات پڑھ کر جو قوم سختیاں جھیل رہی ہے وہ ان کی عقل پر ماتم کرتی ہے اپوزیشن کے پاس تو قابل وزیر خزانہ تھے وہ خزانہ ہی خالی کرکے لندن میں اب تک اپنی زندگی کی تزئین و آرائش میں مصروف ہیں اور قوم ان کی قابلیت سے متاثر ہو کر آج تک ڈفلی بجا رہی ہے اس قوم کے لیے کوئی فراخدلانہ کام کرنے کو تیار نہیں کرپشن میں ملوث لوگوں کی وجہ سے قوم مایوسی کی گرد میں لپیٹ دی گئی ہے۔
پی ڈی ایم سے وابستہ ایک بڑی پارٹی کے نونہال لیڈر فرما رہے تھے کہ اب وزیر اعظم کو گھر جانا ہوگا۔ تو جناب، وزیر اعظم جب وزیر اعظم ہاؤس خالی کریں گے تو گھر جائیں گے اور اس کے لیے ابھی ڈھائی سال درکار ہیں۔جب دلیلیں سماجی حقوق سے بے بہرہ ہو جائیں تو اعزازات بھی مٹی کے ڈھیر کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اب تو تعلیم، اعلیٰ ریسرچ، سائنس و ٹیکنالوجی پر اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے ناکام، دل گرفتہ نہ ہوں کیونکہ ہمارے ہاں آنکھیں تو ہوتی ہیں مگر عقل کی بینائی کام نہیں کرتی۔
17 سالہ پاکستانی ایم شہیر جس نے فزکس پر ریسرچ آرٹیکل لکھ کر دنیا کو حیرت میں ڈال دیا لاہور کی زارا نعیم نے اے سی سی اے میں 179 ممالک کے 5 لاکھ 27 ہزار طالب علموں میں ٹاپ کیا، شاید ان معصوم بچوں میں اب بھی قابلیت کی کمی ہے جبھی تو کوئی اعزاز نہ پاسکے عوامی سطح پر تاریخ انھیں خراج تحسین پیش کرتی رہے گی مملکت خداداد کا دروازہ کھٹکھٹانا ضروری نہیں مملکت کے کرتا دھرتا کو خود سوچنا چاہیے کہ یہ بچے عروج و کمال کے مالک ہیں۔
ان کو آبرو مندانہ شفقت دی جائے تاکہ ان معصوم بچوں کے قدم لرزش کا شکار نہ ہوجائیں ان ہونہاروں سے والہانہ محبت کیجیے کہ ان کے قدم پاکستان کی ترقی میں دل فریب طریقے سے اٹھیں ان کی حوصلہ افزائی کیجیے تاکہ یہ لمحہ فکریہ سے آزاد ہوں۔