’’ساحل پہ کھڑے ہو‘‘ پر ایک نظر
’’ساحل پہ کھڑے ہو‘‘ کی شاعری میں اساتذہ کا رنگ اور لفظوں کی قندیل جگمگاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ممتاز شاعر آفتاب مضطر اپنے نام کے اعتبار سے اسم با مسمیٰ ہیں۔ آفتاب بن کر شاعری کے افق پر جلوہ گر ہوئے اور ان کی بے قراری اور وجدانی کیفیت نے انھیں صبح و مسا تخلیقی صلاحیتوں اور شاعری کرنے کی اپچ نے مصروف رکھا اسی مصروفیت کے باعث کئی اہم کتابیں منظر عام پر آکر قارئین و ناقدین سے خوب داد و تحسین وصول کرچکی ہیں۔ ان کے پہلے شعری مجموعے کا نام ''سورج کے اس پار'' تھا یہ جاپانی صنف سخن ہائیکو پر مشتمل ہے۔
1997 میں شایع ہوئی اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا جاپانی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے اور مترجم جناب یگی یوگی اناکا ہیں اور باعث مسرت بات یہ ہے کہ جاپانی زبان میں ترجمہ ہونے والی پاکستان میں یہ پہلی کتاب ہے۔ دوسرا شعری مجموعہ ''قبول ورد کے فیصلے'' 2009 میں اور تیسرا مجموعہ ''لاکلامی'' 2014 کو ناقدین نے جدید مسدس حالی کا درجہ عطا کیا ہے جوکہ آفتاب مضطر کی خوش بختی ہے۔
''عام معروضی مغالطے'' اس کے علاوہ ضخیم پی ایچ ڈی مقالے کی تلخیص بہ عنوان ''آسان اور جدید اردو عروض'' یہ کتاب نیشنل بک فاؤنڈیشن سے اشاعت کے مرحلے سے گزری ہے جنوری 2018 میں آفتاب مضطر کی خوش نصیبی اپنے سفر کا اختتام ادھر ہی نہیں کرتی بلکہ اللہ کے کرم اور رسول پاکؐ کی محبت و عقیدت ان سے نعتیہ کلام لکھواتی ہے۔ ان کے نعتیہ مجموعے ''القا'' پر حکومت پاکستان کی جانب سے قومی سیرت ایوارڈ اور یادگاری شیلڈ سے بھی نوازا گیا۔
گزشتہ برس 2020 میں ان کی شہرت یافتہ غزل ''ساحل پہ کھڑے ہو'' کے عنوان سے کتاب کی شکل میں منظر عام پر آئی ہے۔ کتاب بعد میں شایع ہوئی لیکن شہرت کی بلندیوں پر اس نے قدم پہلے رکھا اس حوالے سے ندیم اقبال ایڈووکیٹ کی رائے کے مطابق ''ساحل پہ کھڑے ہو'' آفتاب مضطر کا وہ تخلیقی شاہکار ہے جسے نغمہ و آواز کا روپ ملا تو شہرہ آفاق توقیر سے خیر مقدم کیا گیا۔ ڈاکٹر آفتاب مضطر ان معدودے چند اہل قلم اور تحقیق کاران میں سرفہرست ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ گلوکار سجاد علی نے اسے اپنی خوبصورت آواز و آہنگ کیا عطا کیا کہ اس کے پر نکل آئے اور اس نے خوب اڑان بھری ، ان کی آواز گلی کوچوں، شہروں اور ملکوں میں دل کش اور مدبھری آواز کے ساتھ خوب گونجی اور لوگوں کے دلوں میں اتر گئی، یہ بڑی کامیابی ایک بار پھر آفتاب کے حصے میں آئی۔ تو آئیے پھر سنتے ہیں۔ یہ غزل کا چھٹا شعر ہے:
ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
مطلع ہے:
ہر ظلم تیرا یاد ہے بھولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش، میں تجھ سا تو نہیں ہوں
ایک اور شعر نذر قارئین :
چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کے ہاتھوں
مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں
غزل اس قدر دل فریب اور موثر ہے کہ اس کا ہر شعر قابل مطالعہ ہے۔ سجاد علی کی گائیکی نے اسے دوآتشہ بنا دیا ہے ۔ شاعر نے دل سے لکھی ہے اور دل میں اتری ہے تو پھر آئیے مقطع بھی سن لیتے ہیں۔
مضطر مجھے کیوں دیکھتا رہتا ہے زمانہ
دیوانہ سہی، ان کا تماشا تو نہیں ہوں
ڈاکٹر یونس حسنی نے بے حد خلوص کے ساتھ مضمون بہ عنوان ''ساحل پر ایستادہ شناور'' قلم بند کیا ہے، فرماتے ہیں بہ ظاہر مضطر ساحل پر کھڑے ہیں مگر وہ سمندر کی پنہائیوں سے واقف شناور بھی ہیں وہ طلوع سحر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور غروب آفتاب کے نتائج سے بھی باخبر ہیں، وہ نظر کی کرشمہ سازیوں اور دل کی ولولہ زایوں سے بھی گزرے ہیں ، انھوں نے زندگی کو ہر زاویے سے دیکھا اور پرکھا ہے تب اپنے مشاہدات کو شعر میں ڈھالا ہے، وہ فنکارانہ انداز میں اپنے جذبات و تصورات کو پیش کرتے ہیں اور کلاسیکل اقدار کے حامل ہونے ، باوصف ، شعر میں جدت آمیز شاعرانہ اظہار سے باز نہیں رہتے۔
آفتاب مضطر کے کلام میں ہجرووصال اور فرقت کے فسانے بھی ہیں اور زمانے کے اطوار اور چلن کی کہانی کو شاعری کا روپ عطا کیا ہے۔ ان کا انداز تکلم دل نشیں ہے۔ ان کی ایک غزل جو معنی آفرینی اور لفظوں کی گہرائی اور شعریت کے حسن سے مرصع ہے:
عجب مزاج تھا اس کا پہیلیوں جیسا
خفا ہوا تو اسے بوجھنا محال ہوا
رہا بعید تو، مجھ سے گریز پا ہی رہا
قریں ہوا تو مری روح کی مثال ہوا
آفتاب مضطرکی شاعری محبت کی شاعری ہے۔ ان کی شاعری سچے جذبوں کی مثال ہے، نغمگی کے رنگ میں رنگی ہوئی، اکثر ان کی غزلیات پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ دور کہیں ویرانے میں کوئی بانسری کی دھن پر ناکام محبت کے گیت الاپ رہا ہو، اور ہوائیں درد بھرے گیتوں کو منتشر کرنے کا کام انجام دے رہی ہیں۔ شاعر نے ماضی کا نوحہ درد مندی سے بیان کیا ہے کہ موسیقیت کی قوس و قزح غالب آ گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
وہ دن بھی خوب تھے یعنی وصالِ یار کے دن
وہ اختیار کی راتیں، وہ اعتبار کے دن
یہ اپنے مقدر کی بات ہے یارو
کسی کے جیت کے دن ہیں کسی کے ہار کے دن
ادھار دن کا چکاتا ہے ڈوبتا سورج
اندھیری شب میں اترتا ہے جب اتار کے دن
آفتاب نے معاشرتی ناہمواریوں، سماجی ناانصافیوں، جبر و قہر کی فضا کو لفظوں کی سچائی میں ملبوس کردیا ہے۔
یہاں تو مچی ہے عجب مارکاٹ
بہت ہو گیا شہر سے دل اچاٹ
کہیں بے لباسی، کہیں خلعتیں
کہیں فقر و فاقہ کہیں ٹھاٹ باٹ
کہیں چوبِ شیشم کے ہیں بام و در
کہیں پر ٹنگا ہے اٹنگا سا ٹاٹ
''ساحل پہ کھڑے ہو'' کی شاعری میں اساتذہ کا رنگ اور لفظوں کی قندیل جگمگاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ آفتاب کو گلستان ادب میں قدم رکھتے اور جماتے ہوئے چالیس عشرے بیت چکے ہیں اور اب وہ قادرالکلام شعر کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ عزت و مقام ، محنت، لگن اور ان کے استاد فدا خالد دہلوی کی تربیت اور فیض کا نتیجہ ہے اسی لیے وہ ایسے اشعار تخلیق کرسکے ہیں:
رات مغنی بربطِ دل پر گیت سنانے آیا تھا
گیت سنانے آیا تھا یا وجد میں لانے آیا تھا
بیاکل' مضطر اور بیراگی اس کو سن سن جھوم اٹھے
سب کے دل کی بات وہ اپنی دھن میں سنانے آیا تھا