کپتان پر رحم کیجیے
گھر جل رہا تھا میرا اور سب تماشا دیکھ رہے تھے، جن سے اُمید تھی وہ وزرا بھی ہاتھ سینک رہے تھے
اتنے مصروف نہ رہا کرو، تھوڑا ہم کو یاد بھی کرلیا کرو ،کیونکہ لگا کر چھوڑدینے سے تو پودے بھی سوکھ جاتے ہیں...
ہماری زندگی میں سب سے بہترین شخص وہ ہوتا ہے جو ہمیں اُس وقت بھی سمجھتا ہے جب ہم خود بھی اپنے آپ کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، تاہم ارواح اپنی جیسی روحوں کو ڈھونڈھ ہی لیتی ہیں، یہ طاقت انھیں ازل سے ودیعت کردی گئی ہے اور پھر ویسے بھی حیات کوئی تاحیات تھوڑی ہے جو گذر نہ جائے... دل گرفتہ ،آزردہ ، حزین ، سوگوار اور شاید کچھ قنوطی سا ہوگیا ہوں میں... میں نے اپنی سیاسی بلوغت کے بعد سے ایسے افراد نہیں دیکھے جو ماضی قریب کے متروک و مذمم سیاسی کردارو ں کو وضاحت سے عاری حرکات و سکنات کے بعد بھی اُن ہی کے پڑھے ہوئے اشعار میں اُنہیں یاد رکھیں... جب مٹی ڈال ہی چکے ہیں اور آخری رسومات کا بھی اپنے تئیں ادائیگی کا متصورانہ عمل حقیقت کے پیرایے میں مرصع و مرقع کر چکے ہیں تو کس ناہنجار، بدگو ، بد وضع اور بے راہ کے کہنے پر اُن ہی اشعارکو عرض مکرر کی چکی میں پیسے چلے جارہے ہیں کہ
وفا کرو گے، وفا کریں گے
جفا کرو گے جفا کریں گے
ستم کرو گے ستم کریں گے
کرم کرو گے کرم کریں گے
ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے
جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے
کیا ہوگیا ہے آپ کو حضور؟ یہ اشعار توکسی کی یاد دلاتے ہیں، کیا بہت یاد آرہے ہیں آپ کو؟آپ تو ببلی کی طرح ہوگئے جو ببلو سے ہی شادی کرنا چاہتی تھی، اکثر اپنی امی سے کہا کرتی تھی کہ '' ببلو مجھے کہتا ہے کہ تمہارے جیسی حسین لڑکی میں نے اِس دُنیا میں نہیں دیکھی'' ماں کہتی کہ دفع کرو، ایسے انسان کو جو شادی سے پہلے ہی جھوٹ بولتا ہے''کس کا مشورہ تھا کہ اشعار نہیں آتے تو یہ اشعار پڑھ دیجیے!رسول اﷲﷺ سے محبت کرنے والوں سے کہا جاتا ہے نہ پوچھا جاتا ہے کہ '' وفا کرو گے، وفا کریں گے'' کیونکہ وفا تو کرنا ہی مصطفیﷺ سے ہے جو برسوں پہلے آپ کے اور میرے اقبال آپ کو سمجھا چکے... غلط افراد کو، غلط موقع پر، غلط معاہدے کے ساتھ، غلط بات کرنے کے لیے، غلطی سے بھیجنے والوں کو شاید ابھی تک یہ سمجھ میں آیا نہیں کہ اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، یہ مسئلہ آپ کی خوش گفتاری یا ٹیلی ویژن پر تقاریر سے حل نہیں ہوگا بلکہ تفاسیر جاننے والے اہل علم سے کلام الکلام کاایک کلامی شذرہ ہے جسے جذباتی اشعار ، لہجوں کی کرختگی اور جملوں کی بددلی کبھی حل کی دہلیز پر نہیں پہنچا سکتی... وزرا تو ایسے مذاکرات کررہے ہیں کہ گویا جہیز پر لڑائی ہورہی ہو...ایک طرف سے پوچھا جارہا ہے کہ ''کیا تمہارے باپ کی اوقات مجھے جہیز میں گاڑی دینے کی ہے؟'' تو دوسری جانب سے جواب یہ آرہا ہے کہ ''میرے باپ کی اوقات تو تمہیں جہیز میں جہاز دینے کی بھی ہے لیکن کیا تمہارے باپ کی اوقات ایئر پورٹ بنانے کی ہے؟''...
یہ لڑائی ابھی تھمی ضرور ہے لیکن دلوں میں گنجائشیں باقی نہیں... وفاداروں کے بجائے اداکاروں کو بھیجیے گا توحل المشکلات کا باب کھلنے سے پہلے ہی بند ہوجاتاہے...جنابِ وزیر صاحب! جس دور سے ہم گذرے ہیںآپ گذرتے تو شاید گذر ہی جاتے... سب نے مل کر دو نہیں ایک پاکستان بنانے کی قسم کھائی تھی، جو وزرا اور مشیروں کا نیا پاکستان بن چکا ہے...میرے کپتان کواپنوں نے ڈسا ہے، ممالک کے سفیروں کو نکالنے کے کیا معاہدے کیے جاتے ہیں؟ کچھ دنوں کے لیے سفارتی عمل روکا جاسکتا تھا ! سفارت خانے کو انتظامی اور ہنگامی صورتحال کے تحت بند کیا جاسکتا تھا لیکن پہلے آپ سفیر نکالنے کا معاہدہ کرتے ہیں پھر مکرتے ہیں، پھر بگڑتے ہیں اور جب نہیں سنبھل پاتا تو ''محافظین''سے مدد کے خواست گار ہوتے ہیں اور جب اُن کی کاوشوں سے مسائل حل ہوجائیں تو دوبارہ اپنے ہی آپ کو مشکل کشا بنا کر سہرہ فتح چہرہ خطا پر سجا لیتے ہیں... یہ عجیب قسم کی ٹیلیفونک گفتگوکرنے والے وزرا کب تلک کپتان کی چھاتی پر مونگ دلیں گے؟ کب تک سب اچھا اورصورتحال قابو میں ہے جیسے رنگین جملوں سے بے رنگ فضا کو رنگریز بن کر کذب کے رنگوں سے رنگیں گے؟ بس کیجیے جناب! علمی مسائل علم جاننے والو ں کے سپرد کردیجیے وہ نہ سفیر نکالنے کے معاہدے کریں گے اور نا ہی ناموسِ رسالت کی اساسی فکر سے ایک انچ پیچھے ہٹیں گے... جن کا کام ہے انھیں کرنے دیجیے اورکپتان پر رحم کیجیے ۔
اپنی آواز کی خیرات نہیں کی اُس نے
میں نے چاہا بھی مگر بات نہیں کی اُس نے
گھر جل رہا تھا میرا اور سب تماشا دیکھ رہے تھے، جن سے اُمید تھی وہ وزرا بھی ہاتھ سینک رہے تھے۔