دنیاوی شیطانوں کی کارستانیاں

ہمارے ملک میں پس پردہ ایک باقاعدہ جنگ جاری رہتی ہے جس کے پس منظر میں خفیہ انداز میں ہمارا پیدائشی دشمن سرگرم رہتا ہے۔


اطہر قادر حسن April 28, 2021
[email protected]

لاہور: دہشت گردی ایک عرصے سے قوم پر مسلط ہے۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ میں دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی مذموم کارروائی کی جس کے نتیجے میں رمضان المبارک کے برکتوں اور رحمتوں والے مہینے میں انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔

دہشت گردی کے کسی واقعے میں جان قربان کرنے والے بلاشبہ شہید ہوتے ہیں اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کے ہاں شہادت کا رتبہ پاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ہمارے پاس تو ان شہداء کے لیے الفاظ نہیں ہیں، اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ان کی شان یوں بیان کی ہے کہ وہ مرتے نہیں ہیں، زندہ رہتے ہیں، بس تم انھیں دیکھ نہیں سکتے ورنہ وہ آپ کی طرح کھاتے پیتے ہیں اور زندگی بسر کرتے ہیں۔

دہشت گردی کی کارروائیوں میں جس بے دردی کے ساتھ انسانی جانوں کو تلف کیا جاتا ہے، وہ مسلمانوں کا کام نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں ایک مدت سے جو ڈھیلا ڈھالا نظام حکومت چل رہا ہے جس میں جس کے جی میںجو آئے وہ کر دے اور قانون اس کا ہاتھ نہ روکے۔

یہ سب اسی لاپرواہی کا نتیجہ ہے جس ملک کی آبادی میں لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکیوں نے قومی شناختی کارڈ بنوارکھے ہوں اور چند ہزار روپے کے عوض اس ملک کے شہری بن گئے ہوں، ایسے ملک میں کسی باہر کے آدمی کے لیے کوئی بھی واردات کرنا کیا مشکل ہے۔ شاید ہی روئے زمین پر کوئی ایسا ملک ہو جس کی شہریت لینا اس قدر آسان ہو ۔

ہمارے ملک میں پس پردہ ایک باقاعدہ جنگ جاری رہتی ہے جس کے پس منظر میں خفیہ انداز میں ہمارا پیدائشی دشمن سرگرم رہتا ہے۔ وہ ہماری سرزمین پر اب کھلی جنگ سے کتراتا ہے کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کے ساتھ باقاعدہ جنگ کا مطلب کیاہے۔

پاکستان اپنے چالاک دشمن کے مقابلے میں بظاہرایک چھوٹا ملک ہے جس کی آبادی اور رقبہ کم ہے اور اسی اعتبار سے دنیا اسے کمزور سمجھتی ہے لیکن پاکستان نے اپنی عددی اور رقبہ کی کمی کو کبھی اپنی کمزوری نہیں سمجھا اور اس نے یہ ثابت کیا کہ یہ چھوٹا ملک دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جو ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں اور یہ صلاحیت اور طاقت اس نے اپنے بل بوتے پر حاصل کی ہے اور اس طاقت کو اس نے بچا کر رکھا ہوا ہے۔

اس صورت حال کے مدنظر چالاک دشمن سامنے آکر وار کرنے سے گھبراتا ہے، اس لیے وہ پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کا سہارا لے کر بدامنی اور افراتفری پھیلا کر اس کو کمزور کر دینے میں لگا رہتا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان کی ترقی جس کو دنیا کی بااثر طاقتیں بھی ہضم نہیں کر پا رہیں اور پاکستان چین کے تعاون سے گوادر کی بندرگاہ کو جس تیزی رفتاری کے ساتھ آباد کر رہا ہے، وہ ان ملکوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے جو دنیا کی تجارتی راہداری پر ایک مدت سے اپنا تسلط برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔

جب گوادر کی تجارتی بندرگاہ اورگزرگاہ مکمل فعال ہو جائے گی تو لا محالہ پاکستان کی ترقی کے راستے بھی کھل جائیں گے اور یہی ترقی ہمارے دشمنوں کے لیے ناقابل قبول ہے اور وہ اس میں رخنہ ڈال کر اس بندر گاہ کے فعال ہونے میں تاخیر چاہتا ہے لیکن ہمارے چینی بھائی بھی اپنی دھن کے پکے ہیں اور وہ دن رات گوادر کی تجارتی بندرگاہ اور اس تک رسائی کے لیے سڑکوں کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں۔

عبرت ناک بات یہ ہے کہ ایک طرف تو دہشت گردی کی جنگ کو ازسر نو شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری طرف ہماری سیاست میں بھی ایک جنگ جاری ہے، پہلے تو سیاست دان زبانی کلامی دست و گریبان رہے مگر اب بات جوتیاں مارنے تک پہنچ گئی ہے۔ سیاستدانوں کا مطمع نظر اور زورہمیشہ اس نکتے پر رہا ہے کہ وہ عوامی دباؤ بڑھا کرمنتخب حکومت کو چلتا کریں۔

یوں تو چند ایک بلکہ دوچار لیڈر عوام سے دوستی کا دم بھی بھرتے ہیں اورحکومتی ایوانوں تک رسائی کے لیے ہر وقت کسی نہ کسی داؤ میں رہتے ہیں، کبھی عوام کو کوئی ایسا چکر دیتے ہیں جس کے بارے میں انھیں پتا ہوتا ہے کہ اس پر عمل کی نوبت نہیں آئے گی اور یوں عزت بچ جائے گی۔

جو پارٹی برسراقتدار ہے، اس کے ساتھ اپوزیشن کی چھیڑ چھاڑ زورو شور کے ساتھ جاری رہتی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اگرعوام کی ایک بڑی تعداد ساتھ رکھنے میں کامیاب ہو جائیں تووہ حکومت پر ٹوٹ پڑتی ہیں مگر عوام جو حکومت کی پالیسیوں اور مہنگائی سے حددرجہ تنگ اور دلبرداشتہ ہیں اور لائنوں میں لگ کر حکومت کی جانب سے فراہم کردہ راشن رعایتی نرخوں پر حاصل کر رہے ہیںلیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے اپوزیشن لیڈروں کی وہ پذیرائی نہیں کی جس کے وہ متمنی تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد تتر بتر ہو گیا ہے۔

دہشت گرد کارروائیوں اور سیاسی میدان کی گرما گرمی میںفی الحال عوام کے لیے صرف ایک یہ خوشخبری ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اصل شیطان بند ہیں لیکن پھر بھی روزہ دار مسلمان باخبر رہیں کیونکہ شیطان کی بندش کا وعدہ تو اﷲ تعالیٰ کا ہے مگر دنیاوی شیطانوں کی بندش کے لیے اس طرح کا کوئی وعدہ وعید نہیں کیا گیا اور یہ اپنی سرگرمیاں ہر وقت جاری رکھتے ہیں،اس لیے ان کو دنیاوی شیطانوں سے اپنا دامن بچا کر رکھنا ہے، یہ شیطان صف لوگ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دل کھول کر عوام کے روز مرہ استعمال کی اشیاء مہنگے داموں فروخت کر کے انھیں لوٹتے ہیں جب کہ کچھ نے سیاست کی دنیا میں پناہ لے لی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں