بکاؤ اراکین کے اعتماد پر اعتماد نہیں

جنہوں نے کپتان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، ووٹ بیچے، راستے بدلے، نوٹ گنے وہ با اعتماد نہیں۔



سوچتا ہوں کہ کن باتوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں ہم لوگ ! وزیر ، وزیرکا دشمن بنا پھر رہا ہے، محکمے بدل جاتے ہیں مگر حلف پرانے ہی رہتے ہیں ، دلوں میں کدورتیں اور عداوتوں سے بھرے پُرے یہ ناتجربہ کار صرف اچھل کود سے کھیت کا نقصان کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں، بات کرنے کا سلیقہ ہے نہ امیدوں کو پنپنے کا ڈھنگ ، آہستہ آہستہ ہم سب کچھ ہارتے جا رہے ہیں، امید ، یقین ، بھروسا، اعتماد یہاں تک کہ اپنی نشستیں... نشست جیت کر نشست لگانا، نشست کی حفاظت کی شرط ہوتی ہے مگر یہاں تو ہم چند ووٹوں کی اکثریت سے جیت کر متکبرانہ اندازمیں نشست چھوڑ کر ہواؤں کا رخ ہی موڑ دیتے ہیں۔

میں نہیں جانتا کہ فیصلوں سے پہلے مشورے کہاں ہوتے ہیں؟ '' وشاور ھم فی الامر'' کا حکم قرآن میں سنا ہے لیکن یہاں مشورے دینے والے جب نص قرآنی سے ہی نا بَلَد ہوں تو بلدِقریںمیں بلندی کے بجائے، پستیاں راستہ خود بنا لیتی ہیں... ووٹ بیچنے والے عزتوں کے امین قراردیے جاچکے اور تلخ بولنے والے جماعت کے شر پسند...

''خلافت مدینہ'' (ریاست نہیں) میں یوں ہوا کہ غداروں کے ٹولے نے '' منکرین زکوۃ''کی شکل میں سر اٹھایا اور اعلانیہ کہہ دیا ہم زکوۃ نہیں دیں گے، عین اُسی وقت مسیلمہ کذاب نے مزید طاقت پکڑ لی اور حنفیہ قبیلے کے مزیدکئی افراد کو ارتداد کا راستہ دکھا کر انھیں اسلام سے پھیر دیا، خلیفۃ المسلمین سیدنا ابوبکر صدیق رضی للہ تعالی عنہ نے فیصلہ کیا کہ ختم نبوت کی بھرپور حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کریں گے...

بعضوں نے یارِ غار سے عرض کیا ''اگر آپ فیصلہ کر ہی چکے ہیں کہ جھوٹ سے ٹکرانے کے لیے تیار ہیں تو ہمیں بھی پیچھے نہ پائیں گے لیکن اگر ہم منکرین زکوۃ پر فی الحال سختی کرنے کے بجائے انھیں بھی اپنا ساتھی مان کر جنگ میں حصے دار بنالیں اور مل کر لڑیں تو ہم مسیلمہ کو خاک چٹانے میں کامیاب ہوجائیں گے'' عرضداشت سن کر تاریخ کے اوراق نے پہلی بار پیکر صداقت کے جلال کو کچھ اس طرح الفاظ کے سانچوں میں سمیٹا کہ '' غداروں سے مل کر نبوت کی حفاظت کروں؟ یہ شیوہ میرا نہیں، جس نے زکوۃ سے انکار کیا اس نے بھی میرے آقا کا انکار کیا،قسم اس پیدا کرنے والے کی کہ جب تک ابوبکر میں جان ہے جب تک یہ زکوۃ دینے پر راضی نہیں ہوجاتے میری تلوار نیام میں نہیں جائے گی۔

مسیلمہ سے لڑنے کے لیے مجھے غداروں کا نہیں نبی کے جاں نثاروں کا ساتھ چاہیے'' اور پھر لکھنے والوں نے لکھا، دیکھنے والوں نے دیکھا اور سمجھنے والوں نے سمجھ لیا کہ ''منافقین، مخالفین اور معاندین سے تو بات ہو سکتی ہے لیکن غداروں سے نہیں'' چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دھوکے باز، چلتر اور بدعت خیزوں سے کوئی بات نہیں کی بلکہ ارتداد اور انکار والوں، دونوں ہی سے جنگ کی، وہ ''حکومت'' بچانے والے حکمرانوں میں سے نہیں تھے بلکہ ختم نبوت کی حفاظت کرنے والے غلاموں میں سے تھے۔

انھوں نے منکروں سے مل کر خلافت بچائی نہ مسیلمہ سے لڑنے میں احتراز برتا بلکہ صادق وقت شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑااورنظام مصطفی کا انکار کرنے والے نام نہادمسلمانوںکوراہِ حق پرلے کر آئے''اگر آپ اس''خلافت مدینہ''کو ''ریاست مدینہ''کہتے ہیں تو معاف کیجیے گا ریاست مدینہ میں ایسا نہیں ہوتا ہے کہ رات کی تاریکی میں ووٹ فروخت کرنے والے '' آپریشن '' کے ہیرو بن جائیں، جنہوں نے کپتان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، ووٹ بیچے، راستے بدلے، نوٹ گنے وہ با اعتماد نہیں ...

سیدنا ابوبکر صدیق نے ایسے لوگوں کے ساتھ مل کر مرتدوں سے جنگ نہیں لڑی مگر ہم نے اعتماد کے ووٹ میں انھیں ہمراہ رکھا، تضادات کے مجموعے، فیصلوں کے بے ربط گچھے اور غدار ریاست مدینہ کی طرز پر نعت نہیں پڑھ سکتے تو ہاتھ کیسے بڑھائیں گے؟ یہ بھک منگے نوٹ بنانے آئے تھے بنا رہے ہیں، یہ لٹیرے آلٹو سے اتر کر لینڈ کروزر میں بیٹھنا چاہتے تھے بیٹھ گئے، آئیے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لیجیے اور '' مائنس چور '' کے فارمولے کے تحت لیجیے، میرا ووٹ کل بھی آپ کے لیے تھا آج بھی آپ کے لیے ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں