سوشلسٹ منڈلی کے ساتھی
ہماری منڈلیاں ہماری بیٹھکیں ہمارے چوبارے کیوں دوستوں کے قہقہوں اور آپسی دکھ سمیٹنے سے دور کر دیے گئے ہیں۔
اتفاقات کی دنیا کے بھی عجب رنگ ڈھنگ اور انداز ہوتے ہیں،کبھی یہ خوشی میں مست ہوتے ہیں تو کبھی غم والم کے پہاڑ اپنے سنگ لیے پھرتے ہیں اور بسا اوقات یہ زندگی میں امید اور حوصلے کی ایسی جوت جگانے کا باعث ہوتے ہیں کہ جس سے نہ کہ صرف زندگی کے نئے مفاہیم جنم لیتے ہیں بلکہ یہ اتفاقات زندگی کو روشن خیال قدروں کی وہ شکل مہیا کرجاتے ہیں جو سماج میں نظریئے اور اس کی اسقامت کو مضبوط کرکے انسانی رشتوں اور ان کی بقا کی اہمیت کو صیقل کر دیتے ہیں،نظریات کی راہ میں خوبصورت اتفاقات ایسے افراد اور روشن خیال اذہان کی منڈلی بنانے کا سبب بن جاتے ہیں،جو زندگی کی قدروں کی شاہراہِ امید بن جاتی ہے۔
میرے ایکسپریس کے گذشتہ کالم میں احفاظ الرحمن اور آئی اے رحمن کو ''بارہ اپریل'' کے عنوان سے یاد کیا گیا تھا،جس میں ہمارے ہی قبیل کی ایک محترمہ کی ایک گفتگو کا حوالہ دے کر اس کی تصحیح کی گئی تھی، میں نے کہا تھا کہ ''آئی اے رحمن کا کوئی نکتہ نظر نہیں تھا،وہ ایک مہان انسان دوست تھے''۔ اس کالم کی بازگشت جب ہماری ایک اور ادبی تحریکی ساتھی عطیہ دائود تک پہنچی تو انھوں نے بھی مجھ سے اس کالم پر گویا خفگی کا اظہار کیا،جو شاید ایک دوستی کے ناتے کسی قدر درست بھی ہوسکتا تھا،مگر دوسرے ہی لمحے جب میں نے انھیں ایک اخباری رپورٹ اور اسی اخبار میں چھپا ایک کالم روانہ کیا تو عطیہ کی۔
اس دریا دلی نے مجھے ان کا ممنون کردیا کہ شاید میرے اس عمل پر ان کی تشفی ہوگئی اور چند ساعتوں بعد فیس بک کی وہ پوسٹ نکال دی گئی،اس پورے عمل میں خوبصورت اتفاق اس لمحے ہوا جب میرے موبائل کی بیل بجی اور دو مرتبہ بات نہ ہونے کے بعد آخر کار دوسری جانب سے حسن جاوید نامی دوست نے میری خیریت دریافت کی اور میرے ''بارہ اپریل'' کے کالم اور اس پر عطیہ دائود کی شکایت اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا،پہلے تو میں اس بارے میں پریشان رہا کہ یہ کونسے حسن جاوید ہیں کیونکہ کراچی کی طلبہ سیاست میں تین حسن جاوید بہت متحرک اور نظریاتی رہے تھے،میں ذاتی طور سے ڈی ایس ایف کے حسن جاوید اور صحافی و ادیب حسن جاوید قیصر سے واقف تھا،سو میں نے فوری پوچھا کہ کون سے حسن جاوید بات کرہے ہیں۔
دوسری طرف سے اپنائیت بھرا قہقہہ لگا اور انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں ڈاکٹر حسن جاوید لندن والا بات کر رہا ہوں،جنھوں نے این ایس ایف اور طلبہ تحریک کی تاریخ کو''ستاروں کی کمند'' کے نام سے ترتیب دیا ہے،میں اس لمحے عطیہ دائود کا مشکور ہوا کہ نا وہ اپنی غلط فہمی کا اظہار فیس بک پر کرتیں اور نہ میری گفتگو ڈاکٹر حسن جاوید سے ہوتی،بس پھر کیا تھا ہم دونوں احباب نے کافی موضوعات اور سیاسی صورت حال پر گفتگو کی اور اسی دوران ڈاکٹر حسن جاوید نے بتایا کہ''ستاروں کی کمند'' کا دوسرا اور تیسرا حصہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے جو جلد دوستوں کے سامنے لایا جائے گا،اسی اثنا میرے کالم اور عطیہ کی شکایت یا غلط فہمی دور ہوچکی تھی۔
میں اس لمحے سوچ رہا تھا کہ عطیہ،حسن جاوید سمیت ہم لوگوں کی سماجی سیاسی اور ادبی تربیت کرنے والے واقعی وہ عظیم اساتذہ تھے جنھوں نے ہمیں بتایا کہ کسی بھی ابہام اور غلط فہمی کا موثر ذریعہ آپسی رابطہ اور گفتگو ہی ہوتا ہے،ایک دوسرے سے میل جول ہی سماجی رشتوں کو مستحکم کرتا ہے،در گذر اور نظر اندازی نظریئے اور تربیت کا وہ آئینہ ہوتا ہے جو ہم اپنے آپسی میل جول سے شفاف رکھنا چاہیے،حسن جاوید عطیہ کے شکوے پر متفکر اور بیقرار تھا،اور میں عطیہ کی غلط فہمی کو جلد از جلد دور کرنے پر کمر بستہ تھا،یہ مہان رشتے یہ تعلق اب کہاں اور کیوں رخصت ہوتے چلے جارہے ہیں اس سماج سے،کیوں ہمیں انسانی احساس کی لڑی سے نکال کر سرمایہ دارانہ بھیڑ چال کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
ہماری منڈلیاں ہماری بیٹھکیں ہمارے چوبارے کیوں دوستوں کے قہقہوں اور آپسی دکھ سمیٹنے سے دور کر دیے گئے ہیں،ہم ایک شہر اور ایک بستی میں رہنے کے باوجود رشتوں اور احباب سے کیوں بے اعتنائی برتنے کے عادی کر دیے گئے ہیں،گو سرمایہ دارانہ کج رویوں نے کہیں نہ کہیں ہمارے سماج کو تتر بتر کیا ہے مگر اس سے زیادہ حوصلہ مند بات یہ ہے کہ ہم سب دنیا میں سوشلسٹ فکر نظریئے کی ایک ایسی مظبوط منڈلی ضرور بنا چکے ہیں جس میں ہم سب میلوں دور رہ کر بھی ترقی پسند نظریئے کی فراخدلی اور آپسی رشتوں کو جوڑ پانے میں کامیاب رہے ہیں،جنھیں مزید مضبوط کیے جانے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے کہ یہ سماج اب در گذر اور راہ و رسم کے سیاسی،ادبی،سماجی رشتوں سے بانجھ ہوتا جا رہا ہے۔
رشتوں کے گوندھنے اور اسے مزید وسیع کرنے کی کوشش میں حسن جاوید اور محسن ذوالفقار کی کاوش''ستاروں پہ کمند'' کے تین حصے ایک ایسی سنجیدہ کوشش نظر آتی ہے جو ڈاکٹر رشید حسن خان سے لے کر علی مختار رضوی اور ترقی پسند سوشلسٹ و کمیونسٹ خیالات کے مربیوں کی اس سماج کے لیے کوششوں کو نئے نسل کے سامنے ضرور آشکار کرے گی۔
ستاروں پہ کمند کی تین جلدوں کے چودہ حصوں میں ایک سو بارہ ابواب پر مشتمل یہ سنجیدہ کوشش ضرور ہماری ترقی پسند سوچ کی منڈلی بنانے میں ایک معاون ثابت ہوگی،اس سمے میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم سب حسن جاوید اور محسن کی اس کوشش کو ضرور اپنی نسل تک پہنچائیں کہ آج کے یکم مئی کو سمجھنے کی یہ بہت اہم کوشش ہے۔