امریکی فوجوں کی رخصت
افغانستان صدیوں سے انقلابات زمانہ سے گزرا ہے اور عورت کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں رہی ہے۔
KARACHI:
اس سے زیادہ پر مسرت کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ 20 برس کے امریکی قبضے کے بعد آخر وہ دن آیا کہ امریکی فوجیں وہاں سے رخصت ہورہی ہیں لیکن افغانستان کے شہروں اور دیہاتوں میں اس وقت عورتوں کے دل جس طرح ڈوب رہے ہیں، اس کا اندازہ ہم یہاں بیٹھ کر نہیں کرسکتے۔
برٹ اسٹیفنز اورکئی دوسرے اہم تجزیہ نگار واضح الفاظ میں لکھ رہے ہیں کہ ہمیں افغان عورتوں اور ان مردوں کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ جنہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر افغانستان کو ایک اعتدال پسند اور دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح جمہوری اصولوں پر عمل کرنے والا ملک بنانے میں مددکی ہے۔
یہ درست ہے کہ نائن الیون کے بعد ہم افغان عورتوں کو تعلیم اور جمہوری اصولوں پر اپنی زندگی کی تعمیرکا موقع دینے نہیں گئے تھے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ امریکی اور یورپی فوجوں کے آنے سے افغان مردوں اور عورتوں کی زندگی میں بڑی تبدیلی آئی۔ یہ تبدیلی چشم زدن میں ختم ہوجائے گی اور ان تمام عورتوں اور مردوں کے لیے ایک طویل سیاہ رات کا آغاز ہوگا جو طالبان کی کٹر پنتھی حکومت کے زیر سایہ زندگی گزاریں گے ۔ شاید ان میں سے بہت سے اپنی زندگیاں ہار جائیں۔
افغانستان صدیوں سے انقلابات زمانہ سے گزرا ہے اور عورت کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں رہی ہے۔ سولہویں صدی میں خواتین شاعرات اور ادیبوں کے بارے میں ایک اہم کتاب '' جواہر عجائب '' لکھی گئی۔ اس میں ایران اور وسطی ایشیا کی بہت سی عورتوں کے نام ہمیں ملتے ہیں ، لیکن جب ہم افغان عورتوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں افغانستان کے ایک شہر ہرات کی صوفی خاتون بیجا مناجمہ کا ذکر ملتا ہے جو فریدہ شہید کی کتاب '' نقشِ دوام'' کے مطابق خود کو تصوف اور ادب کے حوالے سے معروف صوفی عبدالرحمان جامی کے ہم پلہ سمجھتی تھیں اور جنہوں نے علمی مسائل کے حوالے سے ملا جامی کو تمام عمر پریشان رکھا۔
اس کتاب میں ایک خاتون کے سوا ہمیں کسی افغان خاتون کا ذکر نہیں ملتا۔ ایسا تو نہیں ہے کہ افغانستان کی سرزمین ذہین اور تخلیقی صلاحیت رکھنے والی عورتوں کے حوالے سے بانجھ تھی ، اصل معاملہ مواقع کا تھا جو انھیں نہیں ملے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ ان سے بہ جبر چھین لیے گئے۔
آزادی کی ساتویں سالگرہ پر شاہ امان اللہ کی ملکہ ثریا نے عوامی جلسے سے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''آزادی ہم سب کے لیے ہے ، اسی لیے ہم اس کی خوشی منا رہے ہیں لیکن آپ کے خیال میں کیا صرف مردوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ آزادی کے لیے کام کریں؟ عورتوں کو بھی اس کے لیے کام کرنا چاہیے جس طرح انھوں نے ملک اور اسلام کے لیے خدمات انجام دیں تھیں۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اسلامی تاریخ کی ابتدا کی طرح ملک و قوم کی خدمت کرسکیں۔''
شاہ امان اللہ کے دور اقتدار میں افغانستان کے اندر جو تبدیلیاں ہورہی تھیں ، وہ مغربی دنیا کے لیے خوش آیند تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ افغانستان بھی اگر ایک جدید ملک کے طور پر ابھرے تو یہ عالمی برادری کے لیے ایک بہتر بات ہوگی۔ برطانیہ ان سے جنگ لڑچکا تھا اور اسے اندازہ تھا کہ یہ قبائل اگر کسی طرح جدید دھارے میں شامل ہوجائیں تو یہ بہتر ہوگا۔
اسی لیے افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کا خیر مقدم کیا گیا۔ 1927 اور 1928 کے دوران شاہ امان اللہ نے ملکہ ثریا کے ساتھ جب یورپ کا دورہ کیا تو بہت گرم جوشی سے ان کا استقبال ہوا اور 1928میں شاہ اور ملکہ کو آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔
شاہ نے ملک میں کم عمری کی شادی، کئی شادیوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں کو غیر قانونی قرار دیا لیکن یہ علماء اور قبائل کے سرداروں کو گوارا نہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ ان کے اختیارات کو سلب کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ لویہ جرگہ بلایا گیا اور شاہ امان اللہ کو تخت سے دستبردار ہونا پڑا۔ شاہ امان اللہ اور ملکہ ثریا کا زمانہ ایک طلسماتی کہانی ہوا جو مائیں اپنی بیٹیوں کو سناتی تھیں اور قید با مشقت کاٹتی تھیں۔
شاہ امان اللہ کے دور سے آج تک 80 برس کے زمانے میں افغانیوں پر کیا کیا آفتیں نہ ٹوٹیں۔ انھوں نے بادشاہوں کے اور صدور کے زمانے دیکھے۔ سابقہ سوویت یونین کے ٹینک ان کی آنکھوں کے سامنے کابل، ہرات اور قندھار میں داخل ہوئے۔ انھوں نے کبھی اسلام ، کبھی نیشنل ازم اور سوشل ازم کے نام پر اپنے نوخیز جوانوں کو قتل ہوتے اور قتل کرتے دیکھا۔ پھر یہ بھی وہی تھے جنہوں نے روسی طاقت کی پسپائی دیکھی۔ ڈاکٹر نجیب کو دار پرکھینچاگیا اور وہ شخص جو سیاستدان کے ساتھ ہی دانشور بھی تھا ، جسے پشتو، دری اور اردو شاعری ازبر تھی ، اس کے بے جان ہونٹوں میں ڈالر ٹھونسے گئے۔ یہ کام کرنے والوں کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ وہ امریکا مخالف تھا اور افغان قوم پرست تھا۔
افغانیوں نے گزشتہ صدیوں میں کیسے کیسے ستم نہ سہے۔ ایک افغان رکن پارلیمنٹ ریحانہ آزاد نے چند دنوں پہلے کہا ہے کہ '' افغان عورتیں مردوں کی جنگوں کا شکار رہی ہیں لیکن اب وہ امن کا بھی شکار ہوں گی۔''
گزشتہ بیس برسوں میں بہت سے افغان لڑکیاں اور عورتیں تعلیم یافتہ ہوچکی ہیں۔ ان میں کچھ ڈاکٹر ، قانون دان ، پروفیسر ، پارلیمنٹ کی رکن اور صحافی ہیں لیکن کل جب موجودہ افغان حکومت اور انتہا پسندوں کے درمیان اقتدار کی بندر بانٹ ہوگی تو ان عورتوں کے لیے جو کچھ بھی ہوگا وہ کچھ اچھا نہ ہوگا۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آنے والا ہے۔ ریحانہ آزاد کا کہنا ہے کہ جب ہمارے ملک میں 1996 سے 2001 تک طالبان کی حکومت رہی تو انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی اور وہ درحقیقت اپنے گھروں کی چار دیواری میں قید کردی گئیں۔ ریحانہ کا کہنا ہے کہ 11 ستمبر 2001 سے پہلے ہی جب امریکی اور نیٹو افواج نے افغان سر زمین پر قدم بھی نہیں رکھا تھا، اس وقت بھی بہت سی باہمت اور نڈر عورتیں تھیں جو صرف نئی لڑکیوں کو خواندہ نہیں بنا رہی تھیں بلکہ اپنے علم میں اضافے کے لیے بھی جٹی ہوئی تھیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں امریکا نے 780 ملین ڈالرکی خطیر رقم عورتوں کی تعلیم اور ان کے حقوق کی آگہی پھیلانے پر خرچ کی ہے۔ اس کے بہت اچھے نتائج نکلے ہیں۔ افغان لڑکیاں پولیس اور فوج میں گئی ہیں۔ کھیلوں کے میدان میں انھوں نے بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔
قندھار میں رہنے والی شاہدہ حسین کا کہنا ہے کہ انتہا پسند سب سے پہلے ہمارے علاقے میں اٹھے تھے اور آج بھی ایک بڑے علاقے پر ان کا قبضہ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب امریکی قندھار میں داخل ہوئے تو انھوں نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ وہ ہمیں انتہا پسندوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے، جنگ ختم ہوجائے گی اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ، لیکن اب وہ جارہے ہیں اور ہماری سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ وہ سب محض دلاسے کی باتیں تھیں۔
گزشتہ بیس برسوں میں افغانستان کے طول و عرض میں سیکڑوں اسکول کھل گئے ہیں اور وہ اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ جو نیا نظم و نسق ہوگا اس میں ان اسکولوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ فریاب یونیورسٹی کے چانسلر فیروز ازبک کریمی کا کہنا ہے کہ ان کی یونیورسٹی میں 6 ہزار طلبا ہیں۔ جن میں سے نصف تعداد لڑکیوں کی ہے۔ ان میں سے بہت سی انتہا پسندوں کے علاقے سے آتی ہیں۔ انھیں مسلسل دھمکیاں ملتی رہتی ہیں لیکن وہ اور ان کے خاندان تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، اس لیے وہ کسی نہ کسی طرح آتی رہتی ہیں لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ نئے سیاسی دروبست میں ہماری یونیورسٹی کا اور ان لڑکیوں کا مستقبل کیا ہوگا۔
ہم اپنے یہاں گھریلو تشدد کو روتے ہیں تو اگر 87 فیصد افغان عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں تو ہمیں اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ ایک خاتون جس کی بہن کو اس کے سخت گیر اور متشدد شوہر نے اتنا زدوکوب کیا کہ وہ ہلاک ہوگئی۔ بہن نے پولیس کو قتل کا پرچا کٹوایا لیکن پولیس کسی تحقیق کے لیے تیار نہیں۔ پولیس اہل کاروں کا کہنا ہے کہ تمہاری بہن تو مٹی میں مل گئی اب اس کے شوہر کی جان چھوڑ دو۔ اب انصاف کا نام نہ لو۔ اسی طرح بہت سی لڑکیوں اور عورتوں نے دوسری عورتوں کو زدوکوب ہوتے دیکھا ہے اور وہ ان کے لیے کچھ نہیں کرسکی ہیں۔
ایسے بہت سے داغ ان کے دل پر ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اپنی سرزمین سے غیر ملکی فوجوں کے نکل جانے پر خوشیاں منائیں یا اپنے اور اپنی بہنوں، بیٹیوں کے مستقبل کے لیے دعائیں کریں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں بہت خوش تھی کہ ہمارے اچھے دن آرہے ہیں لیکن اب میں نے تمام خوابوں کو گہری قبروں میں سلادیا ہے۔