بلدیاتی امور ضمنی انتخابات کا ایجنڈا
عام انتخابات میں ابھی 2سال سے زیادہ کا وقت ہے۔ سندھ میں بلدیاتی امور زبوں حالی کا شکار ہیں۔
کراچی، قومی اسمبلی حلقہ 249 میں ہونے والا ضمنی انتخاب پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے مختلف تھا۔کراچی کے ضمنی انتخاب میں بلدیاتی مسائل اہم موضوع تھے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں وزیر اعظم عمران خان کا شریف خاندان کو کرپٹ قرار دینے اور مسلم لیگ ن کا پارلیمنٹ کی تمام اداروں پر بالادستی کا بیانیہ زیر بحث تھا۔
کراچی کے اس انتخاب میں ووٹروں کی دلچسپی انتہائی کم رہی۔ ووٹوں کا تناسب 21 فیصد کے قریب رہا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل ایڈووکیٹ چند سو ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ ن کے مفتاح اسماعیل دوسر ے نمبر پر رہے اورکالعدم تحریک لبیک کے امیدوار مفتی نذیر احمد تیسرے نمبر پر رہے۔
تحریک انصاف کے امیدوار امجد آفریدی چھٹے نمبر پر رہے۔ الیکشن کمیشن نے اعتراضات کے بعد الیکشن کے حتمی نتائج کو روک دیا ہے۔ ایم کیو ایم کے امیدوار محمد مرسلین اور پی ایس پی کے سربراہ مصطفے کمال دعوؤں کی گھن گرج کے باوجود پیچھے رہ گئے۔
کراچی کا یہ حلقہ متوسط اور نچلے طبقے کی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ ان آبادیوں میں کچھ آبادیاں تعمیر شدہ ہیں اورکچھ کچی آبادی میں شمار ہوتی ہیں۔ اس حلقے میں سائٹ سے متصل پٹھان کالونی بھی ہے جو 70کی دہائی میں کمیونسٹ ٹریڈ یونینوں کا گڑھ ہوتی تھی اور پھر یہ علاقہ عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام کا مضبوط گڑھ بنا اورمذہبی انتہاپسندوں کے نرغے میں آگیا۔
یوں اورنگی ٹاؤن کا ایک حصہ مومن آباد بھی ہے جہاں ایم کیو ایم مضبوط سمجھی جاتی رہی ہے۔ اس حلقے میں خواندگی کا تناسب بہت کم ہے۔ زیادہ تر لوگ چھوٹی ملازمتیں کرتے ہیں اور مختلف نوعیت کے چھوٹے کاروبار سے منسلک ہیں۔
اس حلقے کے کچھ علاقوں میں اب بھی عورتوں کوووٹ دینے کا حق استعمال پر قدغن لگتی ہے اور پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے ہوتے رہتے ہیں ، مگر اس حلقے کے بنیادی مسائل پانی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر ، سیورج لائنوں کا فعال ہونا ، سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی ، ضروری سہولیات کی نایابی ، سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی عدم موجودگی، ادویات کی عدم فراہمی اور ایکسرے اور ٹیسٹوں کی سہولتوں کا نا ہونا ہے۔ اس حلقے کی بستیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سال کے بارہ مہینے جاری رہتی ہے۔ سردیوں میں لوڈ شیڈنگ کے واقعات میں کچھ کمی ہوتی ہے اورگرمیوں میں وقتا فوقتا لوڈ شیڈنگ ایک معمول ہوتا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نچلی سطح تک کے اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم ہوا تھا اور نعمت اﷲ خان پہلے ناظم منتخب ہوئے تھے تو اس دور میں بنیادی بلدیاتی کام ہوئے تھے۔ جب مصطفے کمال ناظم بنے تو پانی، سیورج اور سڑکوں کی تعمیرکے کئی منصوبے مکمل ہوئے۔
اس حلقہ کے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ نعمت اﷲخان کے دور میں پانی کی بڑی پائپ لائن کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا مگر اس کام کی تکمیل مصطفی کمال کے دور میں ہوئی۔ بااثر افراد نے اس لائن سے ہائیڈرنٹ کے لیے پانی لینا شروع کیا ، یوں بقول ایک صحافی 25 کے قریب ہائیڈرنٹ کو اس بڑی پائپ لائن سے منسلک کیا گیا، یوں پانی فروخت ہونے کا کاروبار تیز ہوا اور پانی کی لائن تنگ ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ایک اور پانی کی پائپ لائن ڈالی گئی جو ابھی تک فعال نہیں ہے۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مصطفی کمال کے دور میں سینے کے امراض کے ایک اسپتال کی تعمیر مکمل ہوئی مگر یہ ابھی تک فعال نہیں ہوسکا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر اور پھر پیپلز پارٹی کے دور میں اس حلقہ کے تمام ترقیاتی منصوبے التواء کا شکار رہے۔
2018سے کچھ عرصہ قبل فیصل واوڈا یہاں سرگرم ہوئے۔ انھوں نے کچھ علاقوں میں سڑکیں تعمیر کرائیں، پانی کی فراہمی کے مسئلہ پر توجہ دی اور انتخابات کے دوران تقاریر میں بار بار یہ وعدے کیے کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی تو اس علاقے میں تمام بنیادی سہولتیں فراہم کردی جائیں گی، بجلی اور گیس کے کنکشن گھر گھر مہیا ہوں گے اور لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، جب فیصل واوڈا تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر بن گئے تو وہ اپنے پرانے وعدے بھول گئے اور اس علاقے کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی رہی۔
جب اس حلقہ سے 1997میں عمران خان نے بھی قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تھا تو وہ چند ہزار ووٹ حاصل کر پائے تھے۔ 2018کے انتخابات میں میاں شہباز شریف اس حلقے میں سب سے مضبوط امیدوار تھے۔ فیصل واوڈا تقریبا گمنام رہنما تھے مگر شہباز شریف کو چند سو ووٹوں سے شکست ہوئی ۔ اس وقت اس حلقے کے انتخاب میں پولنگ ایجنٹوں کو گنتی کے وقت پولنگ اسٹیشن سے نکالنے کی بہت سی شکایات اخبارات میں شایع ہوئی تھیں۔ بہرحال جب فیصل واوڈا نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا اور ضمنی انتخاب کی مہم کا آغاز ہوا تو مذہبی بیانیہ اور سیاسی کرپشن کے بیانیہ کے بجائے بلدیاتی مسائل انتخابی مہم کا سب سے بڑا ایجنڈا بن گئے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ 15 دن میں اس حلقہ میں پانی کی فراہمی اور سڑکوں کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی۔ سندھ حکومت کا یہ اقدام انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تھا۔ بہرحال ہر امیدوار نے اس حلقہ میں پانی کی فراہمی کے وعدے شروع کیے۔ مفتاح اسماعیل نے اپنے اشتہار میں یہ الفاظ درج کیے کہ وہ حلقہ میں پانی لاسکتے ہیں۔
مصطفے کمال نے دعوی کیا کہ صرف وہ جانتے ہیں کہ اس حلقہ کی آبادیوں کو پانی کیسے فراہم کیا جاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل بار بار یہ کہتے تھے کہ سندھ کی حکومت ہی پانی کی فراہمی کے لیے اقدامات کر رہی ہے، یوں قومی اسمبلی کا انتخاب قومی مسائل کے بجائی بلدیاتی مسائل تک محدود ہوگیا۔ سیاسی جماعتوں کی ماضی کی کارکردگی سے مایوسی کی بناء پر ووٹرز کی بھاری اکثریت نے ووٹ ڈالنے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے صورتحال کو مینیج کیا اور قادر خان مندوخیل معمولی ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوئے۔
سندھ حکومت کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ اس کامیابی میں بڑا کردار ایک پولیس افسر کا ہے۔ یہ کامیابی پیپلز پارٹی کی کوئی کامیابی نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بارہ سالہ دور میں بلدیاتی امور کو اس طرح نظر اندازکیا گیا کہ یہ امور قومی سیاست کا حصہ بن گئے۔
عام انتخابات میں ابھی 2سال سے زیادہ کا وقت ہے۔ سندھ میں بلدیاتی امور زبوں حالی کا شکار ہیں۔کراچی کے باقی علاقے، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ اور میرپور خاص وغیرہ کی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے نچلی سطح تک کے بلدیاتی نظام کے نفاذ پر توجہ نہ دی اور بلدیاتی مسائل حل نہ ہوئے تو پھر اگلے انتخابات میں یہ مسائل قومی مسائل پر حاوی ہوںگے اور اس ساری صورتحال کا فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس معمولی سی کامیابی پر جشن نہ منائے بلکہ مستقبل کے بارے میں سوچے۔