من ازحسن روزافزوں…
جب بولنے والے کو اس پر سچ ہونے کایقین ہوتواسے کون جھوٹ ثابت کرسکتاہے۔
حافظ شیرازی بڑے دل پھینک بزرگ تھے۔ کسی ترک کے خال ہندوش (یعنی کالے تل) پر سمرقندوبخارا واردیتے تھے کیوں کہ اس سخاوت اوردیالوپن میں ان کاجاتاکیا تھاجیسا کہ علامہ بریانی دودوچار چارروپے میں لوگوں کو جنت بانٹتے ہیں ، یعنی کسی اورکامال بانٹنے میں اس کااپنا کیاجاتاہے،اگریہ اتنے ہی دیالو ہیں تو ذراکسی کو اپنی زمین سے ایک مرلہ بخش کردکھادے یا سڑتے ہوئے بے پناہ مال میں سے کسی کو مٹھی بھر عطا کر دے۔خیروہ ایک کالے تل پر سمرقندوبخارابانٹنے والے بزرگ جانیں یا لنگڑاتیمور، ہمیں تو حافظ کے ایک اور شعر نے ڈرایااورچکرایاہواہے۔
من ازآں حسن روزافزوں کہ یوسف داشت دانستم
کہ عشق ازپردہ عصمت بروں آردزلیخارا
(''یوسف''کے روزافزوںبڑھتے ہوئے ''حسن'' کو دیکھ کر جانتاتھا کہ ایک دن یہ حسن زلیخا کو پردہ عصمت سے باہر کرکے چھوڑے گا)۔لیکن ہمارے ساتھ معاملہ روزبروزبڑھتے ہوئے حسن کا نہیں ہے کیوں کہ ''حسن'' تو اب کو ئی خاص چیزہے ہی نہیں کہ یہ پیدا نہیں ہوتابلکہ بنایاجانے لگاہے یعنی دوسری بہت ساری چیزوں کی طرح جن کاہم ''نام''لینا نہیں چاہتے کہ ابھی ہمارا سر اپنے کاندھوں پر بھاری نہیں ہوا،ویسے بھی آپ سب جانتے ہیں کہ ''حسن'' کی طرح کیا کیا کمرشلائز،انڈسٹریلائز اورمینوفکچرڈ ہونے لگا ہے۔
اس دن ہم نے ایک ریڑھے پرخربوزے دیکھے تو ریڑھے والے سے پوچھا،کس کارخانے کے بنے ہوئے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ہمیں کچھ انسانوں پربھی شبہ ہونے لگتا ہے کہ وہ پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ بنائے ہوئے ہیں یعنی پیدائشی نہیں نمائشی ہیں، توایسے میں حسن وغیرہ کی تو بات ہی ختم ہوگئی،ایسے کتنے ہوتے ہیں جو کوے ہوکر سرخاب اوڑھے ہوئے پھرتے ہیں،اس لیے ہم یہاں ''حسن روزافزوں'' کے بجائے ''دروغ روزافزوں''کی بات کرناچاہتے ہیں۔ آپ چاہیں تو قواعد کے خلاف اسے ''جھوٹ روزافزوں'' بھی کہہ سکتے ہیں جو اتنا بڑھ چکاہے کہ ہمیں مرشد کی بات یادآرہی ہے۔
یونہی گرروتارہاغالب تو اے اہل جہاں
دیکھناان بستیوں کوتم کہ ویراں ہوگئیں
ہمیں ڈرہے کہ جھوٹ بولنے، سننے ، لکھنے، تراشنے اور مینوفیکچرکرنے کا یہی عالم رہا تو ایک دن ''رانجھا رانجھاکردی نی میں آپے رانجھا ہوئی''۔یعنی ساری دنیاجھوٹ ہی جھوٹ نہ ہوجائے۔
دراصل جھوٹ کے معاملے میں ماہرجھوٹیات، قہرخداوندی چشم گل چشم عرف کوئڈنائیٹین کاکہناہے کہ کچھ لوگ تو جھوٹ بولتے ہیں اوریہ سمجھ کر جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں اورسننے والے بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بولاجارہاہے جیساکہ آپ اخباروں اشتہاروں چینلوں اورخصوصیوں میں دیکھ رہے ہیں لیکن ایک مرحلہ کسی ''جرمن'' کے مطابق جب جھوٹ تسلسل سے ستراکہترسال تک بولاجائے تو وہ ''سچ''بن جاتاہے جیسی کہ ہماری جمہوریت ہے بلکہ ''خاندانی جمہوریت'' ہے۔
خاندانی جمہوریت سے یادآیاکہ افغانی پناہ گزینوںکے ساتھ اچانک ہمارے ہاں ''خاندانی حکیم '' کے بورڈدکھائی دینے لگے جو اکثر سردار جی ہوتے تھے۔ ہم سمجھے کہیہ آئیورویدک یاکسی اورہندی طریق علاج کے حکیم ہوں گے۔ ایک دن ایک ایسے خاندانی حکیم کے مطب پرپہنچ گئے۔ایک سردارجی پتھر کے ایک برتن میں کچھ پیس رہے تھے۔ وہ ہمیں دیکھ کر بولے ،گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ کامرض پیچیدہ ہے لیکن لاعلاج نہیں۔ عرض کیا ہم علاج کرانے نہیں آئے اورنہ ہی ہمیں کوئی مرض لاحق ہے۔بولے، یہی تو اس مرض کی نشانی ہے کہ مریض اپنے آپ کو مریض نہیں سمجھتا لیکن فکرنہ کریں میرے علاج سے آپ کو اپنے مرض کااحساس ہوجائے گا۔
ہم نے ذرا زور سے گزارش کی جناب سردارجی! علاج کی بات بعد میں کریں گے، فی الحال یہ بتائیے آپ کونساعلاج کرتے ہیں،آئیورویدک ،یونانی، ہومیو پیتھک یاکوئی اور۔بولاجی نہیں ہم کوئی پیتھک وغیرہ نہیں کرتے، ہم خاندانی حکیم ہیں۔ اس کے بعد ہم نے ہرہراینگل سے پہلوبدل بدل کرمعلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ کونساعلاج کرتے ہیں لیکن سردار جی کاایک ہی جواب تھا،ہم خاندانی حکیم ہیں۔ لگ بھگ ایک گھنٹے کی مغزماری کے باوجود صرف یہی جواب ملتارہا کہ ہم خاندانی حکیم ہیں بلکہ جو جو نام ہم نے لیے وہ ان سے نام کی حد تک بھی واقف نہیںتھا کیوں کہ وہ خاندانی حکیم تھا اورخاندانی حکیم کے علاوہ اورکچھ نہیں تھا اوریہ خاندانی حکمت اس کے خاندان میں کسی نامعلوم زمانے سے چلی آرہی تھی۔
یوں ہم پر خاندانی جمہوریت کے معنی بھی کھل گئے۔ایسی اوربھی کئی چیزوں کے معانی جو خاندانی تھیں اورہیں۔ ان میں خاندانی جھوٹے بھی شامل کرلیجئے جو آج کچھ اورکل کوئی اورتخلص کرتے ہیں۔ جھوٹ کے بارے میں قہرخداوندی کامطالعہ اور مشاہدہ بے پناہ ہے کیوں کہ وہ خود بھی اس میدان کے نمبرون کھلاڑی ہے اورپھر علامہ بریانی سے صحبت بھی رکھتاہے چنانچہ جھوٹ کے بارے میں اس کا تازہ ترین نظریہ یافلسفہ اس ''جرمن'' سے بھی دوقدم آگے ہے جس نے کہا تھا کہ اگر سترپچھترسال تک جھوٹ تسلسل سے بولاجائے تووہ سچ ہوجاتا ہے لیکن قہرخداوندی نے اس سے آگے بڑھ کر انکشاف کیاہے کہ مسلسل جھوٹ بولنے والا خود بھی اپنے جھوٹ کو سچ سمجھ لیتاہے اوربولتے ہوئے اسے یقین ہوجاتاہے کہ میں سچ بول رہاہوں، قہرخداوندی نے جھوٹ کے اس اعلیٰ مقام کو جس میں مجنوںکو اپنا آپ لیلیٰ دکھائی دینے لگتا ہے ''دروغ خصوصی'' کانام دیا ہے اوریہ دروغ خصوصی ہماشماکاکام نہیں صرف خصوصی لوگ ہی بول سکتے ہیں اوربول رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کو اپنے جھوٹ پر سچ کااتنایقین ہوتاہے،
ملامت می کند خلقے ومن بردارمی رقصم
لوگ لاکھ کہیں چیخیں چلائیں کہ جھوٹ ہے لیکن جب بولنے والے کو اس پر سچ ہونے کایقین ہوتواسے کون جھوٹ ثابت کرسکتاہے،چشم گل چشم عرف کوئڈ نائینٹین کے اس انکشاف سے ہمارابھی ایک بڑاتحقیقی پروجیکٹ مکمل ہوگیاکیوں کہ ہم اکثرسوچتے ہیں کہ کچھ شخصیات اتنے تسلسل اوراتنے تیقن سے روزانہ جھوٹ کیوں اورکیسے بول لیتے ہیں تویہی بات تھی کہ وہ اسے جھوٹ سمجھیں تو شرم آئے۔