ضمنی انتخاب کے نتائج پر تحفظات الیکشن کمیشن کو شفافیت کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے

تحریک انصاف کی بدترین شکست پر پارٹی میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔


عامر خان May 05, 2021
تحریک انصاف کی بدترین شکست پر پارٹی میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ فوٹو : فائل

ملک میں ضمنی الیکشن کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تواس میں یہ روایت رہی ہے کہ زیادہ تر حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے امیدوار ہی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

تاہم پاکستان تحریک انصاف کے موجودہ دور حکومت میں ضمنی الیکشن کے نتائج ماضی سے مختلف نظرآرہے ہیں۔ ڈسکہ میں شکست کے بعد حکمران جماعت تحریک انصا ف کو کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249کے ضمنی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس ناکامی کو اس لحاظ سے بدتر بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہاں سے پی ٹی آئی کے امیدوار امجد آفریدی پانچویں نمبر پر آئے ہیں۔

تمام تجزیہ کاروں کی رائے کے برعکس پیپلزپارٹی کے قادر خان مندو خیل نے یہ انتخابی معرکہ سرکرکے تمام سیاسی پنڈتوں کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔انہوں نے مسلم لیگ (ن)کے مفتاح اسماعیل کو 683ووٹوں سے شکست دی ہے۔عام انتخابات 2018 میں بھی مسلم لیگی امیدوار میاں شہباز کو تقریبا اتنے ہی ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے ان انتخابات میں بہت سے حلقوں کو سرپرائز دیا ہے اور ان کے امیدوار نذیر احمد 11125ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

پی ایس پی کے چیئرمین سید مصطفی کمال جن کی انتخابی مہم دیگر تمام امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ منظم اور بھرپور انداز میں چلائی گئی تھی توقعات کے مطابق نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے اور 9227ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہے۔ ضمنی انتخاب میں مجموعی طور پر 73471 ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا، مردوں نے 50259 اور خواتین نے 23212 ووٹ کاسٹ کیے، اس طرح ووٹنگ کا تناسب 21.64 فیصد رہا۔ 731 ووٹ مسترد کیے گئے۔ ادھر الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کی دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کا سرکاری نتیجہ روک لیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کے درمیان ضمنی انتخاب کے نتائج پر لفظی جنگ جاری ہے، مسلم لیگ (ن) نے چیف الیکشن کمشنر کو درخواست جمع کرائی ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ بیلٹ پیپرز سمیت انتخابی مواد آرمی یا رینجرز کی نگرانی میں رکھیں۔

مفتاح اسمٰعیل کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں دوبارہ گنتی کے لیے سرکاری نتائج کا اعلان روکنے کے فیصلے کا 'خیر مقدم' کیا گیا ہے۔ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ پولنگ عملہ / پریذائیڈنگ افسران میں سے زیادہ تر کا تعلق سندھ کی صوبائی حکومت سے ہے اور انہوں نے حکمران جماعت کی غیر قانونی طریقے سے حمایت کی اور اس حوالے سے ہر امیدوار / پارٹیوں نے شکایت کی ہے۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ بلدیہ ٹاؤن کے انتخابات نے ثابت کیاکہ کراچی کے عوام ہمارے ساتھ ہیں،ہم بھی ان کی توقعات پرپورا اترنے کی کوشش کریں گے، حکومت کی معاشی اورسیاسی پالیسیوں کوعوام نے مسترد کیا ہے، پیپلزپارٹی کے جیالوں نے رمضان اورکووڈ میں بھی جان لگاکرکام کیا، عوام نے ضمنی الیکشن میں تاریخی کامیابی دلائی اور بتا دیا کہ وہ حکومت کے نہیں اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔

تحریک انصاف کی بدترین شکست پر پارٹی میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں اور رہنماؤں نے قیادت کے فیصلے پر سنگین سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ رکن قومی اسمبلی اسلم خان کے بعد بلدیہ ٹاون پی ایس 116 سے منتخب رکن سندھ اسمبلی شہزاد اعوان نے وزیر اعظم ،گورنر سندھ اور چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کو خط لکھ دیا جس میں انہوں اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

شہزاد اعوان نے سب سے پہلے تحریک انصاف کے امیدوار امجد آفریدی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ یہ امیدوار بہت کمزور ہے یہ یوسی اور سندھ اسمبلی کی نشست پر ہار چکا ہے پارٹی کو نقصان ہوگا جبکہ رکن قومی اسمبلی اسلم خان نے ضمنی انتخاب میں شکست کا ذمہ دار گورنر سندھ عمران اسماعیل ، وفاقی وزیر علی زیدی اور فیصل ووڈا کو قراردیا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ این اے 249کا ضمنی الیکشن تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سبق سے مترادف ہے۔عوام کا اتنی کم تعداد میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا اس پورے نظام پر ہی سوال اٹھا رہا ہے۔

رمضان المبارک اور کورونا بھی کم ووٹنگ کی ایک وجہ ہو سکتی ہیں لیکن اس کے باوجود دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ عوام کی جانب سے اس الیکشن میں کوئی جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آیا۔تمام سیاسی جماعتوں کو ان عوامل کا جائزہ لینا ہوگا جن کی وجہ سے عوام کا اس سسٹم پر سے اعتماد ختم ہو رہا ہے۔الیکشن کمیشن کو اس ضمنی انتخابات پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے ہوں گے۔ وفاقی حکومت اور تمام پارلیمانی قیادت کو انتخابی اصلاحات کرنی ہوں گی۔ اب انتخابی نظام میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے۔

سندھ میں کورونا وبا کی تیسری لہر کے پیش نظر صوبائی حکومت کی جانب سے ایس او پیز پر مزید سخت کردیا گیا ہے اور وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے یہ ہدایت سامنے آئی ہیں کہ انٹرسٹی ٹرانسپورٹ پر مکمل پابندی کے اطلاق کو یقینی بنایا جائے۔ اگر کوئی بھی ٹرانسپورٹ کسی بھی ضلع میں داخل ہوتی ہے تو جب تک پابندی ہے تب تک اسے اپنی اصل منزل تک واپس جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ کورونا ٹاسک فورس کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ ان علاقوں میں مائیکرو یا مکمل لاک ڈان نافذ کیا گیا ہے جہاں کوویڈ 19 کیسز کی شرح 15 فیصد سے زائد ہے۔ فی الحال ، کراچی شرقی و جنوبی اور حیدرآباد میں مائیکرو لاک ڈان نافذ کیا گیا ہے۔ وزیراعلی سندھ کو بتایا گیا کہ کچھ نجی دفاتر سرکاری ہدایات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اس پر وزیراعلی سندھ نے کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ ایسے دفاتر کو بغیر کسی تاخیر کے سیل کردیں۔

کمشنر کراچی نوید شیخ نے وزیراعلی سندھ کو بتایا کہ کراچی میں 28 ویکسینیشن کے مراکز قائم کیے گئے ہیں جن میں ضلع وسطی میں پانچ ، ضلع شرقی میں چار ، ضلع کورنگی چار ، ضلع ملیر تین ، ضلع جنوبی چار اور ضلع غربی چھ شامل ہیں۔سندھ حکومت نے کورونا وائرس کی تیسری لہر میں شدت کے سبب کراچی ایکسپو سینٹر میں قائم فیلڈ آئسولیشن سینٹر بھی دوبارہ فعال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس اس وقت پوری دنیا کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔اس سے بچاؤ کا واحد ذریعہ احتیاط ہی ہے۔حکومت کی جانب سے احکامات تو جاری کیے جاتے ہیں لیکن عوام ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے نظرنہیں آتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں