غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کیلیے سالانہ 10ارب ڈالر درکار

جون تک 3.8ارب ڈالرواپس کرنے ہونگے،خزانہ اور اقتصادی امور کی وزارتوں کا اجلاس


Shahbaz Rana May 05, 2021
قرضوں کی صورتحال کا جائزہ، عالمی مالیاتی اداروں کو اپنے حق میں رکھنے کی تجویز فوٹو:فائل

پاکستان کو غیرملکی قرضے چکانے کیلیے 10ارب ڈالر سالانہ سے زائد کی ضرورت ہوگی۔

ذرائع نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ وفاقی وزیر اقتصادی امور عمر ایوب اور وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے گزشتہ روز یہاں اپنی اپنی وزارتوں کے وفود کے ساتھ آپس میں ملاقات کی اور قرضوں کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

وزارت اقتصادی امور نے وزارت خزانہ کوبتایا کہ سالانہ 10ارب ڈالر یو اے ای اور چین سے ڈیپازٹس کی شکل میں لئے گئے قرصوں سے ہٹ کر دیگر غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے درکار ہونگے۔

واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 2 ارب ڈالر اور چین نے 4ارب ڈالر دے رکھے ہیں اور ان کی ادائیگی موخر ہونے کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق دونوں وزارتوں کے اجلاس میں تجویز دی گئی کہ حکومت کو آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو اپنے حق میں رکھنا ہوگا۔ رواں مالی سال کے دوران 14.4 ارب ڈالر کے قرضوں کے مقابلے میں ادائیگیاں تقریباً12 ارب ڈالر کی ہونگی۔ اڑھائی ارب ڈالر کے شارٹ فال کا سامنا ہے۔ بجلی قیمتوں میں اضافے سمیت بعض شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے عالمی بینک سے 1.5ارب ڈالر قرضے کا حصول مشکل ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے وزیر خزانہ شوکت ترین نے عالمی بینک کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ برآمدات اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کم ہونے کی وجہ سے مزید قرضے لینے کے سوا مسئلے کا کوئی فوری حل موجود نہیں ہے۔ حکومت نے رواں مال سال میں جولائی سے مارچ تک کے عرصے میں10.4 ارب ڈالر کے قرضے لئے ہیں اس میں 2.5ارب ڈالر کے یورو بانڈز بھی شامل ہیں۔

عالمی بینک سے متوقع 2.3ارب ڈالر سالانہ کے برعکس صرف938ملین ڈالر ملے ہیں۔ رواں مالی سال کی آخری سہ ماہی (اپریل تا جون) میں پاکستان کو 3.8ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے اور اس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ آئیگا۔

ذرائع کے مطابق خصوصی اقتصادی زونز کی شکل میں چینی سرمایہ کاری بھی ابھی تک نہیں آسکی کیونکہ حکومت ابھی تک مراعاتی پیکج کو حتمی شکل نہیں دے سکی۔ چین انڈسٹریل فریم ورک ایگریمنٹ پر دستخط کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں