خطے کی بدلتی صورتحال اور پاکستان
پاکستان کے دونوں اطراف یعنی مشرق و مغرب میں اہم نوعیت کی تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
پاکستان کے دونوں اطراف یعنی مشرق و مغرب میں اہم نوعیت کی تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کہ ان تبدیلیوں پر گہری نظر رکھ کر ترجیحات مرتب کرے۔ انڈیا کی کچھ ریاستوں میں ریاستی اسمبلیوں کے لیے انتخابات ہوئے۔سب سے اہم ریاست مغربی بنگال تھی۔
گزشتہ عام انتخابات میں بی جے پی نے وہاں سے لوک سبھاکی کئی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی،اب ریاستی اسمبلی کو بھی اپنا بنانے کے لیے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بہت محنت کی۔ وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کے امیت شا نے خود یہاں انتخابی مہم کو کندھا دیا اور کئی جلسوں سے خطاب کے ساتھ ساتھ کورونا کی انتہائی بگڑتی صورت میں بھی الیکشن ریلیوں میں بنفسِ نفیس شرکت کی۔ جناب مودی مغربی بنگال کے انتخابات کو اپنے حق میں کرنے کو اتنا وزن دیتے رہے کہ دورے پر آئے روسی وزیرِ خارجہ سے بھی نہ مل پائے۔
اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی مودی اور بی جے پی کو مایوسی اور ناکامی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ مغربی بنگال ریاستی اسمبلی کی کل292میں سے198 نشستوں پر ممتا بینرجی کی پارٹی کامیاب ہوئی۔بی جے پی کے حصے میں دھول چاٹنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔بی جے پی کو کیرالہ اور تامل ناڈو میں بھی شکست ہوئی۔وہ صرف آسام میں اپنی حکومت بچا پائی۔مغربی بنگال میں بی جے پی کی بڑی شکست نے ممتا بینرجی کے سیاسی قد کاٹھ میں بہت اضافہ کر دیا ہے اور انڈیا کے اپوزیشن رہنماؤں میں ان کو ممتاز مقام مل گیا ہے۔
مغربی بنگال میں بی جے پی کی شکست سے مودی کے امیج کا شدید دھچکا لگا ہے اور ایک نیا ٹرینڈ سیٹ ہوا ہے جس سے اپوزیشن کو بہت حوصلہ ملے گا اور نریندر مودی اور ان کی سیاسی جماعت کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔بی جے پی اور مودی کی ان ناکامیوں سے پاکستان براہِ راست متاثر ہوگا۔ مودی کو کورونا کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے اپنی مقبولیت بچانے اور انتخابی شکست کی وجہ سے سیاسی کمزوری کا سامنا ہے۔اسی لیے شکست کے اگلے دن ہی کشمیر میں سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کر ڈالی۔ مودی اب پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا جھانسہ تو شایددیتے رہیں گے لیکن ہمیشہ کی طرح با معنی مذاکرات نہیں کریںگے۔
افغانستان کے اندر اہم پیش رفت شروع ہو گئی ہے۔ایک اطلاع کے مطابق امریکی اور یورپی افواج نے وہاں سے اپنا انخلا شروع کر دیا ہے۔ یہ انخلا ستمبر میں مکمل ہو گا لیکن مغربی افواج کی غیر موجودگی میں اشرف غنی کی حکومت کے لیے چیلنجز بہت بڑھ جائیں گے۔یاد رہے روسی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد کابل حکومت فوراً گر نہیں پڑی تھی اور چند سال گھٹنوں کے بل رینگتی رہی اور آخر کار ختم ہو گئی۔ اب بھی وہی حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔
سب سے زیادہ غیر محفوط صدر اشرف غنی ہیں جن کا اپنا کوئی سیاسی مقام نہیں۔وہ امریکی اور مغربی بیساکھیوں کے بل کھڑے ہیں۔ستمبر کے بعد ان کے لیے اپنا اقتدار بچانا بہت کٹھن ہو گا۔افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد امریکا کی یہاں دلچسپی کم ہو جائے گی اور کوشش کرے گا کہ اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر بھارت کو ایک اہم کردار دے سکے۔ایسی صورت میں پاکستان کے لیے اپنی ترجیحات کو ازسرِ نو ترتیب دینا ہو گا۔ اطلاعات ہیں کہ جو بائیڈن انتظامیہ پاکستان کی طرف ابھی تک کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔
علاقے کی سب سے اہم پیش رفت سعودی عرب کا ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہے۔ العربیہ ٹی وی نے سعودی ولی عہد جناب محمد بن سلمان کا ایک انٹرویو دکھایا جس میں انھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایران مشرقِ وسطیٰ کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنانے کی جانب مدد کرے ۔ محمد بن سلمان نے زور دے کر کہا کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا متمنی ہے۔ یاد رہے کہ علاقے کے کچھ اہم جریدوں نے یہ اطلاع دی تھی کہ پچھلے کچھ دنوں میں عراق کے اندر سعودی عرب اور ایران کے اعلیٰ عہدیداروں نے ملاقات کی ہے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی سعی کی ہے۔
یاد رہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی بھی جب بغداد کے ہوائی اڈے پر اترے اور ڈرون حملے کا نشانہ بن گئے تو وہ بھی اسی مشن پر عراق گئے تھے جہاں ان کی ملاقات سعودی حکومت کے نمایندوں کے ساتھ طے تھی۔اس وقت امریکا میں ٹرمپ کی حکومت تھی۔ ٹرمپ علاقے میں اسرائیلی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے تھے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کسی قسم کی مفاہمت اسرائیل اور امریکا کو نہیں بھاتی تھی اس لیے جنرل قاسم سلیمانی کو ختم کر کے اس مفاہمت کو وقتی طور پر روک دیا گیا۔ جو بائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد حالات میں معمولی سی تبدیلی آئی ہے۔
منگل 27اپریل کو نشر ہونے والے اپنے ٹی وی انٹرویو میں سعودی شہزادے نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ایران کے ساتھ مشکل صورتحال برقرار رہے۔ان کا کہنا تھا کہ آخر کار ایران سعودی عرب کا پڑوسی ملک ہے اس لیے وہ امید رکھتے ہیں کہ بات چیت سے اچھی ہمسائیگی کے تعلقات استوار ہو جائیں گے۔ شہزادہ محمد کے انٹرویو میں ان کا لہجہ بہت مثبت تھا، ان کے لہجے میں یہ تبدیلی ایک تو فرانسیسی صدر کی کوششوں کا نتیجہ ہے دوسرا واشنگٹن میں صدر کی تبدیلی سے متاثر ہے۔
یمن میں قیامِ امن کے لیے ایران ہی مدد کر سکتا ہے۔محمد بن سلمان نے انٹرویو کے دوران کہا کہ کوئی بھی ملک یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ مسلح اور انتہائی تربیت یافتہ دستے موجود ہوں۔شہزادہ محمد بن سلمان نے حوثی قبائل کو دعوت دی کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں اور افہام و تفہیم سے مسائل کا حل نکالیں۔
ایران نے سعودی ولی عہد کے لہجے میں تبدیلی کا خیر مقدم کیا ہے۔ایرانی وزاتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں سعودی عرب کی طرف سے مذاکرات کے عندیہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایران ہر وقت با معنی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔سعودی ولی عہد نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بھی بہتر کیا ہے۔ ہمارے سپہ سالار پہلے ہی ریاض میں موجود ہیں اور جناب عمران خاں اڑان بھرنے والے ہیں۔