غزل
وحشت کے خرابے سے الگ رکھا گیا ہے
اب دل ترے کوچے سے الگ رکھا گیا ہے
گھٹی میں تو موجود ہے منزل کی تمنا
پر آنکھ کو رستے سے الگ رکھا گیا ہے
تصویر میں ترتیب سے بیٹھے ہیں سبھی لوگ
اور ہم کو قرینے سے الگ رکھا گیا ہے
آنکھوں میں دھرا خواب اگاتا ہوا ریشم
تعبیر کے دھاگے سے الگ رکھا گیا ہے
میں درہم و دینار کی پوجا نہیں کرتا
لالچ مرے کُرتے سے الگ رکھا گیا ہے
رکھا ہے ترا غم بھی غمِ دہر میں لیکن
شورش کے علاقے سے الگ رکھا گیا ہے
وہ رنگ اگلتا ہے اجالوں کے خزینے
جس کو مرے چہرے سے الگ رکھا گیا ہے
(عبدالرحمان واصف، کہوٹہ۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
خوف کچھ پرچھائیوں سے اس قدر کھاتا ہوں میں
اپنے اندر جھانکتا ہوں اور ڈر جاتا ہوں میں
غم کی دوشیزہ سمٹ جاتی ہے اپنے آپ میں
بانہیں اس کے سامنے جب جب بھی پھیلاتا ہوں میں
دوستو دیکھو یہ دنیا ہے اُسی جانب رہو
آئینے سے جھانکتے لوگوں کو سمجھاتا ہوں میں
اس کی آنکھوں سے پرے بیٹھا ہوں سو وہ دیکھ لے
دیکھیے اب کب تلک اس کو نظر آتا ہوں میں
دل بھٹک جاتا ہے بچے کی طرح بازار میں
اس کو انگلی سے پکڑ کے گھر تلک لاتا ہوں میں
(احمد اویس۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
اے خالقِ جہان یہ کیا بن کے آگئی؟
مخلوق ہم پہ تیری، خدا بن کے آگئی
بہتر ہوئے شکستہ بدن کیا شفا کے بعد
وہ یادِ خوش جمال وبا بن کے آگئی
جلنے لگی تھی شمعِ محبت، یہ کیا ہوا
شب کیوں ہمارے بیچ ہَوا بن کے آگئی
کالا لباس سب نے ہے پہنا ہوا مگر
دیکھو وہ باقیوں سے جدا بن کے آگئی
ہم جب گھٹن سے مرنے لگے تھے تب آئی وہ
بولی کہ لو میں آب و ہوا بن کے آگئی
کچھ مصرعے پھر رہے تھے مرے دل میں دربدر
پھر اک غزل کہیں سے عطا بن کے آگئی
جس کے سبب علیل تھے مہدی، وہ ایک روز
ہاتھوں میں پھول تھامے، دوا بن کے آگئی
(شہزاد مہدی۔ اسکردو)
۔۔۔
غزل
نئے سفر میں تجسس کی نیند سوتے ہوئے
بہت قریب تھے ہم دل سے دور ہوتے ہوئے
وضو کے ساتھ محبت سے دل بھرا ہوا تھا
بوقت ِ فجر گناہوں کا میل دھوتے ہوئے
سمے کو پھاند کے دکھ کا ازالہ ہو نہ سکا
گزر گئی تھی سٹیشن سے ریل سوتے ہوئے
کھرچ رہے تھے وہ اک دوسرے کے دل کا غبار
بہت اداس تھے اک دوسرے کو کھوتے ہوئے
سنہرے گالوں پہ اشکوں کا نم جما ہوا تھا
گزر چکی تھی شب ِ اعتبار روتے ہوئے
غموں کا بار اٹھا کر بھی مسکرا رہے تھے
ہم ایک نام کی خوشبو کا لمس ہوتے ہوئے
(حنا عنبرین۔لیہ )
۔۔۔
غزل
کارِ گریز پر جو رعایت ہوئی میاں
اس سے بڑی بھی کوئی حماقت ہوئی میاں؟
ہے وصل میں گذشتہ محبت کا ذکر بھی
معصومیت یہ کس کو عنایت ہوئی میاں
آواز سن کے عمر کا اندازہ ہو گیا
اور بات کر کے ملنے کی حسرت ہوئی میاں
عاشق کا دکھ سمجھتے ہیں تب بولتے ہیں ہم
لازم نہیں ہمیں بھی محبت ہوئی میاں
بیمار کو دلاسہ دیا ہے نہ ہی دعا
تم ہی کہو یہ کیسی عیادت ہوئی میاں
(توحید زیب ۔بہاولپور)
۔۔۔
غزل
محبتوں کے اشارے نہیں سدھار سکے
ہمیں تو وقت کے دھارے نہیں سدھار سکے
یہ چاہتے ہیں زمینوں کو تر بہ تر کرنا
سمندروں کو کنارے نہیں سدھار سکے
مِرے سماج کی تاریکیوں میں پلتے لوگ
جو خود کو خوف کے مارے نہیں سدھار سکے
کریں بھی کیا کہ بدلتی نہیں کبھی فطرت
کہ ہم تو خود کو سُدھارے نہیں سدھار سکے
تمہاری یاد کی دولت لٹا رہا ہے دل
اِسے وفا کے خسارے نہیں سدھار سکے
سدھارنے کو جو آئے تھے خود سدھار گئے
ہجوم کو وہ بچارے نہیں سدھار سکے
میں کیا کروں دلِ تخریب کار کا ذیشاںؔ
اسے تو رنج بھی سارے نہیں سدھار سکے
(ذیشان ساجد۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
پھول چہرے پر وہ اشکوں کو مسلتی ہی رہی
آگ آہوں کی مگر من میں بھڑکتی ہی رہی
اک تبسم اس کی رعنائی سے کچھ کہتا رہا
اک ہنسی میرے لبوں پر بھی مہکتی ہی رہی
ریل کی سیٹی بجی اور وہ جدا ہونے لگا
چیخ اک سینے میں دب کر پھر مچلتی ہی رہی
اس کی باتوں میں نشہ تھا سن کے سب حیران تھے
دیر تک بادِ صبا گلشن میں چلتی ہی رہی
عشق کے آزار یارو کس قدر سنگین تھے
جان پر ہر لمحہ آفت کوئی بنتی ہی رہی
خامشی سے بہہ رہا ہے جس طرح آب ِرواں
زندگی اپنی شہاؔب ایسے گزرتی ہی رہی
(شہاب اللہ شہاؔب۔منڈا دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
۔۔۔
غزل
کبھی زمین کبھی آسماں بناتے ہیں
تمہارے واسطے اک سائباں بناتے ہیں
یہ نفرتوں کا نگر اور ہم سے دیوانے
محبتوں سے گندھا اک مکاں بناتے ہیں
گلاب بانٹتے ہیں اور دعائیں دیتے ہیں
ہم اپنے شہر میں روشن سماں بناتے ہیں
وہ ہر کسی سے یہاں بد گمان رہتا ہے
درود پڑھ کے اسے خوش گماں بناتے ہیں
الگ الگ سے بناتے ہیں یہ نشاں اور ہم
علم،حسین کا اپنا نشاں بناتے ہیں
ہم اپنی خواہشیں بالائے طاق رکھ کے رضاؔ
نگر میں آکے نیا اک مکاں بناتے ہوں
(سید فرخ رضا ترمذی۔ کبیروالا)
۔۔۔
غزل
مزاج ان کے مناسب ہوئے تو روئے ہم
ہماری سمت وہ راغب ہوئے تو روئے ہم
ہزار شکوے تھے اپنوں کی بے رخی پر! سو
جہاں بھی جمع اقارب ہوئے تو روئے ہم
ہمیں ملے ہیں وراثت میں غم الم ماتم
ہمیشہ رنج ہی واجب ہوئے تو روئے ہم
نجانے کتنے صحیفے رقم کیے لیکن
تمہارے نام کے کاتب ہوئے تو روئے ہم
جدا جدا تھے تو پھر بھی غموں میں ڈوبے تھے
جب ایک جان دو قالب ہوئے تو روئے ہم
سنا رہا تھا کوئی بے وفائی کے قصے
سبھی کے رخ تری جانب ہوئے تو روئے ہم
تمہاری یاد سے غافل نہیں ہوئے ہیں نورؔ
غمِ معاش جو غالب ہوئے تو روئے ہم
(نور تنہا۔ کراچی)
۔۔۔۔
غزل
کٹیا جو اک فقیر کی کم تر دکھائی دے
دیکھو تو قصرِ شاہی سے بڑھ کر دکھائی دے
اس بدنصیب سا بھی کوئی بد نصیب ہے
جس کو زمینِ عشق بھی بنجر دکھائی دے
جس کی تلاش ہو وہ دِکھائی نہ دے کہیں
جس کو نہ دیکھنا ہو وہ اکثر دکھائی دے
ممکن ہے ایک روز وہ آئے مرے بھی گھر
ممکن ہے ایک روز یہ گھر، گھر دکھائی دے
اتنی سکت نہیں ہے کہ اندر ہی جھانک لوں
روزن سے جھانکتا ہوں کہ باہر دکھائی دے
لگتا ہے یہ بھی میر کی غزلوں کا ہے اثر
مجھ کو جو چاند میں پری پیکر دکھائی دے
یارو! جمالِ یار بھی آنکھوں سے دیکھنا
آنکھوں بغیر دیکھو کہ بہتر دکھائی دے
(امتیازانجم۔ اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
آپ کے ساتھ خوبصورت ہیں
سارے لمحات خوبصورت ہیں
وہ مکمل حسین ہیں ایسے
جیسے دیہات خوبصورت ہیں
مجھ سے معدوم ریت نے پوچھا
کیا جمادات خوبصورت ہیں؟
ہونٹ آنکھیں ہیں بعد کا قصہ
آپ کے ہاتھ خوبصورت ہیں
جب سے تو زندگی میں آیا ہے
میرے دن رات خوبصورت ہیں
تو کبھی وقت پر نہیں آیا
ویسے اوقات خوبصورت ہیں
(معوذ حسن۔نارووال)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی