صحافت    دوسرا اور آخری حصہ

کراچی سے ستمبر 1998ء میں اپنے آغاز سے ہی روزنامہ ایکسپریس نے شائقینِ اردو کے دلوں میں گھر کر لیا۔



سید جمیل الدین والا اخبار 1857ء کی بغاوت کے وقت کافی مقبول رہا۔ کوہِ نور اخبار 14 جنوری 1850ء کو لاہور سے شروع ہوا۔ اس اخبار کو منشی ہرسکھ رائے نے جاری کیا، پہلے یہ اخبار ہفتے وار تھا بعد میں ہفتے میں دوبار اور کچھ عرصے بعد ہفتے میں تین بار شایع ہونے لگا۔ پنجاب کا یہ پہلا اردو اخبار تھا، جس سے بہت سے نامور صحافی بھی وابستہ تھے۔

کوہِ نور تقریبا 55 سال تک شایع ہوتا رہا۔ اودھ اخبار 1858ء میں شایع ہوا، جسے منشی نول کشور نے شروع کیا تھا۔ یہ اخبار آغاز میں ہفتے میں دوبار شایع ہوتا تھا، لیکن 1874ء میں یہ روزنامہ میں تبدیل ہو گیا، اخبارنے زبان وادب کی نمایاں خدمت سرانجام دیں۔ اس کے لکھنے والوں میں سرشار، (فسانہ آزاد)، مولوی شوکت، عبدالحلیم شرر، مرزا غالب جیسے لوگ تھے۔ اخبار میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق کافی مضامین شایع ہوتے۔ یہ اخبار اصلاحِ معاشرہ، مغربی علوم وغیرہ پر بھی نظر رکھتا۔

بعدازاں یہ اخبار مزاحیہ صحافت کے لیے مشہور ہوا اور یوں صحافت میںاس اخبار نے مزاحیہ نوک جھوک کی داغ بیل ڈالی۔ 30 مارچ 1866ء کو سرسید نے علی گڑھ سے علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ کی شروعات کی، شروع میں یہ ہفت روزہ تھا بعد میں سہ روزہ ہو گیا۔ اس کے کالم انگریزی اور اردو دنوں میںہوتے۔ اس اخبار کو انگریز بھی پڑھتے۔ خبروں کے علاوہ سرسید ہندوستانیوں اور مسلمانوں کے مسائل اور ان کے معاملات کو اس اخبار کے ذریعے منظر عام پر لاتے تاکہ انگریز حکومت کو عوام کے حالات کا پتہ چل سکے۔ ہندوستانیوں میں سیاسی نظریات، تعلیم وتربیت کے لیے بھی اس میں مضامین چھپتے تھے۔

پیسہ اخبار 1887ء میں فیروز والا (ضلع گوجرانوالہ) سے ہفت روزہ جاری ہوا۔ اس کے مالک اور منتظم منشی محبوب علی عالم تھے۔ یہ اپنے اجراء کے چند سال بعد لاہور منتقل ہو گیا اور صدی کے آخری سالوں میں روزنامہ بن گیا۔ یہ اخبار کافی مقبول ہوا مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کرنے میںاس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اردو صحافت کی ترقی میں پیسہ اخبار سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پہلا اخبار تھا جس کی تعداد ِاشاعت گیارہ ہزار تھی۔ اس میں کافی اشتہارات بھی شایع کیے جاتے تھے لیکن جب زمیندار مولانا ظفر علی خان کی تحریروں سے مزین ہو کر صحافت کے سفر پر گامزن ہوا تو پیسہ اخبار کی مقبولیت کم ہو گئی یہ اخبار 1924ء میں بند ہو گیا۔

مولانا ظفر علی خان کے والد مولانا سراج الدین احمد نے جون 1903ء میں کرم آباد سے ہفت روزہ اخبار زمیندار جاری کیا۔ نومبر 1909ء میں ان کے انتقال کے بعد اس کی ادارت مولانا ظفر علی خان نے سنبھالی اور اس کے دفتر کو کرم آباد سے لاہور منتقل کیا اور یہ روزانہ میں تبدیل ہو گیا۔ یہ اردو کا پہلا اخبار تھا جس نے رائٹر اور ایسوسی ایٹ پریس آف انڈیاسے خبریں حاصل کرنے کا انتظام کیا۔ زمیندار مسلمانوں کی آواز بن کر ابھرا اور اپنے زمانے کا سب سے مقبول اخبار بن گیا۔ جنگ آزادی کی لوکو تیز کرنے میں زمیندار کا بڑا ہاتھ رہا۔ یہ وہ پہلا اخبار تھا جس نے عوام کے اندر خود اعتمادی، قومی بیداری کی شمع جلائی۔

ادارت سنبھالتے ہی مولانا ظفر علی خان نے اپنے قلم کو تلوار بنا کر سامراجی طاقتوں پر ٹوٹ پڑے۔ مالی دشواریوں کی بناء پر 1927ء کو یہ بند ہو گیا۔ مولانا محمد علی جوہر نے کلکتہ سے انگریزی ہفت روزہ کامریڈ شروع کیا۔ بعد میںیہ دارالحکومت دہلی منتقل ہو جانے سے اس کے دفتر کو دہلی منتقل کر لیا اور یہاں سے 23 فروری 1913ء کو اردو روزنامہ ہمدرد شروع کیا، یہ اعلی پائے کا اخبار تھا۔ مولانا نے اپنی تعلیمی لیاقت کا استعمال کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف ایسے شعلہ بیان اداریے اور مضامین تحریر کیے کہ کامریڈ اور ہمدرد دونوں اخبارات پر پابندی عائد کر دی گئی۔ انھوں نے پہلی بار روزانہ اخبار میں ٹائپ کا استعمال کیا۔

انھوں نے خبروں، اداریوں اور مضامین کے اعتبار سے بھی اپنا صحافتی معیار قائم کیا۔ پہلے ہی سال کے اندر اس کی اشاعت دس ہزار تک پہنچ گئی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے 13 جولائی 1912ء کو ہفتہ وار ''الہلال'' سے صحافت کے میدان کو منور کر دیا۔ اردو صحافت کو انقلابی جوش و جذبہ مولانا کے اخبارات الہلال اور البلاغ نے بخشا۔ مولانا نے اردو کو صحافت کے بین الاقوامی معیار سے روشناس کرایا۔ الہلال نے قوم کو جھنجھوڑ کر غلامی کی نیند سے بیدار کیا۔ اس میں مذہب و سیاست، معاشیات و نفسیات، جغرافیہ، تاریخ و عمرانیات و سوانح، ادب اور حالات حاضرہ پر اعلی قسم کے مضامین اور تبصرے شایع کیے۔

اس میں علامہ شبلی نعمانی، علامہ اقبال، مولاناحسرت موہانی اور سید سلیمان ندوی جیسے اہم اور بلند پایہ اکابر کی بھی تحریریں شایع ہوتیں۔ سیاست 1919ء میں مولانا سید حبیب نے لاہور سے جاری کیا۔ عبدالحمید انصاری کا 1938ء میں شروع کیا گیا اخبار انقلاب آج بھی بہت بڑی تعداد میں شایع ہوتا ہے۔ اس اخبار کے مقبول صحافیوں میں کلدیپ نیئر، منور مادیوان اور ایم جے اکبر کا نام لیا جاسکتا ہے۔ شاہد صدیقی کا نئی دنیا، عزیز برنی کا راشڑیہ سہارا مقبول اخبارات ہیں۔ حیدر آباد (بھارت) سے اردو زبان کی بڑی خدمت ہو رہی ہے اور وہاں صحافت کے میدان میں کافی معرکے ہو رہے ہیں۔

زاہد علی خان کی زیرادارت سیاست اور خان لطیف محمد خاںکا منصف کافی اہم اخبارات ہیں۔ منصف پورے ملک کا اردو زبان کا سب سے زیادہ شایع ہونے والا روزنامہ ہے۔ ان دونوں اخبارات کو اشتہارات بھی کافی ملتے ہیں اور مغربی نیوز ایجنسی سے حاصل شدہ خبریں دی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ 20 دسمبر 2005ء میں داراسلام گروپ کے اویسی برادران نے حیدرآباد سے ہی روزنامہ 'اعتماد' کی اشاعت کا آغاز کیا ہے۔ اس کے اداریے کافی اچھے ہوتے ہیں۔

وطنِ عزیز پاکستان میں اردو روزناموں کا ایک جال پھیلا ہوا ہے مگر کراچی سے ستمبر 1998ء میں اپنے آغاز سے ہی روزنامہ ایکسپریس نے شائقینِ اردو کے دلوں میں گھر کر لیا۔ بعدازاں کراچی سمیت گیارہ اسٹیشن لاہور، ملتان، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالہ، رحیم یار خان، سرگودھا، پشاور، سکھر، کوئٹہ سے شایع ہونے والا بلاشبہ روزنامہ ایکسپریس کمالِ مہارت سے قارئین کو درست معلومات اور اطلاعات فراہم کرنیوالا اردو کا انتہائی مقبول اور کثیرالاشاعت روزنامہ ہے اور یہی غیر جانبدارانہ اور شفاف اندازِ صحافت اس کا طرہ امتیاز ہے۔

اردو اخبارات کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں علاقائی خبریں زیادہ چھپتی ہیں جس سے لوگوں کو اپنے ملک کے بہت سے حالات معلوم ہو جاتے ہیں۔ اردو صحافت کے لیے مالی پریشانیاں تو ضرور ہیں لیکن اس کے باوجود وہ دورِ حاضرکی صحافت کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے۔ ملک کی معاشرتی اور سیاسی زندگی میں اردو صحافت نے تعمیری کردار ادا کیا ہے۔ اردو زبان کے اخبارات کافی بڑی تعداد میں برصغیر پاک وہند کے مختلف حصوں سے شایع ہو رہے ہیں۔ اردو صحافت کو ابھی ترقی کی مزید منازل طے کرناہونگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں