ایک ہوتی ہوئی دنیا…
کائنات کی اس طویل داستان میں، کنکر پھینکا تھا آئن اسٹائن نے۔ جیسے ستارے توڑ کے لایا، چاند چرا کے لایا ہو۔
حلقہ بام ٹھہری ہے ساری دنیا، ساری کائنات جیسے امڈ آئی ہے، نئی باتیں ہیں، نئے راز کھلتے جاتے ہیں ، نئے زاویے ، نئی سی منزلیں ہیں۔ یہ سفر ڈارون سے شروع ہوا، کوئی بڑا تفصیلی تھیسز نہیں تھا بلکہ ڈارون کے چند مضامین تھے، پرانی باتیں چیلنج کر بیٹھا تھا۔
ڈارون سے کارل مارکس اتنے متاثر ہوئے کہ اپنی کتاب''داس کیپیٹال'' میںاس کی تحقیق کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس کے نام کر بیٹھے۔ ارتقاء در ارتقاء کی مسافتیں تھیں ۔ ہر عہد میں ہر عہد سے الجھنے کی باتیں تھیںجو الجھارہا ، سر مقتل چلا گیا، جو اس کے وارث تھے فصل ان کو نصیب ہوئی۔ وہ خود ''اسٹیٹس کو'' بن گئے۔ پہیوں کو روک تو نہ سکے مگرسست رفتار ضرور کیا۔ ہاں مگر ارتقاء کی مسافتیں تھیں کہ تھمتی نہ تھیں۔ ہر سخن ور نے اپنے عہد کو گایا اور آگے کی نسلوں نے ان تحریروں پر اپنا سفر شروع کیا۔
اب دیواریں اور دریچے ہیں اور ہم کہ دریچوں میں رہتے انسان ہیں۔ ہم جو کہ Homo Sapiens کی سے ہیں، جس نے پوری دنیا کو کالونائیز کردیا۔ باقی تمام Species کو جیسے دست قابو کرلیا، محکوم کیا۔ دو ٹانگوں پے چلتا Homo Sapiens کو دو ہاتھ نصیب ہوئے جوکسی اورجانور کو نہ ہوئے۔ اس کو ذہن بھی قدرتا بہتر ملا جو کہ کسی اور جاندار میں نہ تھا۔ یہ سارے کہ سارے انسان ، سب Homo Sapiens کی نسل سے ہیں ۔
کائنات کی اس طویل داستان میں، کنکر پھینکا تھا آئن اسٹائن نے۔ جیسے ستارے توڑ کے لایا، چاند چرا کے لایا ہو ، ہم دھرتی سے کائنات کی طرف اپنے موضوع سخن کر بیٹھے۔ ان گول دائروں میں گھومتے گولوں کی ساخت کو سمجھنا چاہتے تھے اور ہماری زبان صرف ایک تھی جو کائنات کے ہر کونے میں ہر سمت، ہر جگہ موجود تھی، وہ تھی ریاضیات ۔ منطق کتنا ہی محدود تھی مگر اس کے سب جواب آفاقی تھے۔ اس کو رد بھی اس منطق سے کیا جاسکتا تھا۔ بلاخر انسان مارس پر ایک بھرپور انداز میں اپنا تحقیقی مشن پہنچانے میں کامیاب گیا، وہاں ہیلی کاپٹر بھی اڑایا گیا۔ اتنی واضح مارس کی تصاویر اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی گئیں۔
سورج کے گرد جو سیارے گھومتے ہیں ، ان میں کچھ مضبوط ساخت کے ہیں، دھرتی کی طرح اور جو بڑے بڑے سیارے ہیں، وہ مختلف گیسز کا مجموعہ ہیں۔ یہ کیسے بنے، کیا ہوا ایک طویل داستان ہیں، جو بات غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب دریافتیںHomo Sapiens کی کوکھ سے نکلیں۔ یہ کسی اور Species کی بس کی بات نہ تھی۔ ان میں کئی ایسی بھی Species یا جانور ہیں جن کی موت کاتصور بھی نہیں۔ مگر ہم سب میں ڈر و خوف کی کیفیات یکساں ہیں۔ انسان نے اس ڈر کو بھی تجسس دیا ، معنیٰ دی، الجھایا اور ہمارے اقبال کو تمام وسعتیں پتہ تھیں جب وہ یہ سب اپنی شاعری کے پیرائے میں رقم کررہے تھے۔
ــستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اب Homo Sapiens کی یہ نسل یعنی بنی نوع انساں خود اپنے ہی بنے جالوں میں الجھ گئی ہے۔ وہ فطرت کے موجودات میں گھس گئی کہ دنیا کا موحولیاتی نظام درہم برہم ہوگیا ۔ جنگلات تباہ کردیے ، اپنی جدید تحقیقات اور تجربات میں ozone layer کے لیے خطرات پیدا کردیے ہیں ، گلیشیئرپگھل رہے ہیں ، درجہ حرارت بڑ ھ رہا ہے۔ سمندر کی سطح بلند ہورہی ہے۔
اس پر یہ کہ ہماری جیسی ریاستیں بھی ہیں جو اسی کلاسیکل ماڈل پر چل رہی ہیں۔ وہ ہی پرانے گھسے پٹے نظرئیے اور وہ ہی بیانیہ۔ وہ غدار وطن و محب وطن کی اپنی بنائی تشریح۔ ہم سمجھے ہم ہندوستان سے پیچھے ہیں۔ پتہ یہ چلا کہ اتنی تیزی سے بڑ ھتی ہوئی معاشی بہتری والے ہندوستان کا مودی جہا لت میں ہم سے بھی دو قدم آگے نکلا، ہندوستان پرجیسے خودکش حملہ ہوا ہو ۔ لگ بھگ ایک کروڑ لوگ اس وباء کا شکار ہوںگے، بیس سے تیس لاکھ تک لوگ تو اب تک مارے گئے ہیں ۔ پوری دنیا میں کورونا سے اموات ایک طرف اور ہندوستان میں اموات ایک طرف۔ مودی ہندوستان کو سیکیولراز م سے خارج کر کے ہندو ریاست بنانا چاہتا ہے۔
مودی یہ عیاشی کر سکتا ہے مگر ہم نہیں کرسکتے،کیونکہ ہماری معیشت بالکل بیٹھ چکی ہے۔ جو بیانیے ہم نے خود بنائے ، اپنی تاریخ مسخ کی۔ جو جنگی جنون بیچا، غداری کی تہمتیں لگائیں ، وفاقیت کو کمزور کیا۔ آئین کو چلنے نہیں دیا ، ہم دو لخت بھی ہوگئے۔ ہمارے لیے مشکلات میں صرف اضافہ ہی ہوا۔ یہ تو خدا کا شکر کہ کورونا نے ہم پر رحم کیا، ہم نے مودی سے بہتر اقدام اٹھائے۔ مگر ہمارے سیاسی ادارے ، سیاسی قیادت ۔ الیکشن کمیشن ،اقتدار کی پر امن منتقلی ہونہیں سکتی۔ ایک اشرافیہ کا ہجوم ہے اور یہ ہجوم عبدالقادر مندوخیل کی طرح گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا ہے۔
یورپ بھی دیکھیں کیسے کورونا نے ان پر وار کیے ہیں اورکس طرح سے انھوں نے کامیاب اور مکمل لاک ڈائون کے ذریعے اس کامقابلہ کیا ، ویکسین بنائی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی ان کے پاس ہے،وہ آسمان کی حدوں کو چھو رہے ہیں ۔ ان کے پاس آئین کی بالادستی ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ ہے، وہاں غربت کی لکیروں کی حدیں نہیں۔ ہاں مگر ان کی ترقی رفتار نے fossil fuel کا بے ذریع استعمال کیا۔ ماحولیاتی تباہی میں ان کا کلیدی کردار ہے ۔ انھوں نے ہمیں کالونائیز کیا ، وہ چلے گئے مگر ہم اب بھی غلام ہیں ۔ اس نظام کے جس کو ہندوستان میں مودی نے یرغمال کیا اور یہاں ان لوگوں نے جو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں۔
جو بات میں کہنا چاہتا ہوں ، انسان نے ارتقا کی مسافتوں میں جو منزل پائیں، جو جدیدسائنس پائی ، کائنات کی دہلیز تک دستک دینے کی جراٌت پائی، اس کی بنیادیں کیپٹل ازم یا یوں کہییے کہ سرمایہ داری نظام سے پیدا ہوئیں۔ جس کی بنیاد تھی ''لالچ'' جس نے انسان سے انسانی قدریں چھینی ، انسانیت چھینی اور اب ماحولیاتی تباہی ایک بڑے بحران کی طرف اس پوری دنیا کو لے کرجارہی ہے۔
2030کی آخر تک جو گاڑیاں ہم آتی دیکھ رہے ہیں، ان میں آدھی گاڑیاں الیکٹرک ہوں گی۔ بجلی پیدا کرنے والے پاور ہائوس آدھی نہیں تو اس سے کچھ کم renewable energy پر بجلی پیدا کر رہے ہوں گے۔ اب ریاستیں اور کمزور ہوں گی اور دنیا میں انٹرنیشنل قوانین زیادہ اہمیت اختیار کر جائیں گے ۔ کئی ادارے ایف اے ٹی ایف جیسے وجود میں آئیں گے، ایک سرد جنگ برپا ہو چکی ہے ۔امریکا اور چین کے درمیان۔ مگر آیندہ بیس سالوں میں مجموعی طور پر تمام دنیا کی ریاستوں کو یکسانیت کے ساتھ چلنا ہوگا۔ ریاست اور مذہب الگ الگ ہوجائیں گے، ریاستوں کا کام انسانی معیار کو بہتر کرنا ہوگا۔
کیپٹل ازم کی شکست ہوگی ۔ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح کا رل مارکس کے نظرئیے کی پھر سے بات ہوگی۔ دنیا میں رابطے کی سب سے بڑی زبان انگریزی ہوگی، آج کا سوشل میڈیا بہت سی ارتقا ئی منازل پار کرتاہوا، بہت آگے نکل چکا ہوگا۔ یہ Homo Sapiens کی نسل والا انسان آج اس دہانے پر کھڑا ہے جہاں اس کو اپنی ایجادات کے وجود سے خطرہ ہے۔ دنیا ماحولیاتی تباہی کی طرف بڑ ھ رہی ہے۔ وبائیں اور بھی آنے کو ہیں اور اس پر دنیا ایک جیسا نظام چاہتی ہے۔