سالگرہ مبارک بابا
وہ زمانے اب گزر گئے ہیں جب رکھ رکھاؤ اور انسانی رشتوں کی اہمیت تھی، اب انسانی رشتوں کا بازار اور تجارت کا زمانہ ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس اور برکتوں والے مہینے کا آخری عشرہ مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت اور فضیلت رکھتا ہے۔ آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرنے کا حکم ہے اور جس خوش قسمت کو شب قدر مل گئی گویا اس کو دنیا جہاں کی نعمتوں کے ساتھ ابدی زندگی کی نعمتیں بھی میسر آ گئیں۔
رات کے دو پہر گزر چکے ہیں، تیسرا پہر شروع ہے ہر طرف خاموشی ہے اور میں اﷲ کا گناہ گار بندہ اس وقت یہ سطریں لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ لکھنا کچھ اور تھا لیکن لکھ کچھ اور رہا ہوں ۔ میری زندگی کا یہ پہلا ماہ رمضان ہے جس میں والد کا ساتھ نہیں ہے۔ وہ آج سے پانچ ماہ پہلے اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو چکے ہیں لیکن ان کی خوشبو سے گھر آج بھی اسی طرح مہکتا ہے جس طرح ان کی زندگی میں خوشبوؤںکا بسیرا ہوتا تھا ۔ والدین اﷲ کا وہ انعام ہیں جن کی گھر میں موجودگی برکتوں اور رحمتوں کا باعث ہوتی ہے ۔
چند چیزیں جو اﷲ نے اپنے ذمے لے رکھی ہیں، ان میں عزت وبے عزتی، زندگی و موت کے علاوہ ایک روزی بھی ہے۔ تلاش رزق انسان کی ذمے داری، اسے جتنا اجر ملنا ہے، یہ اﷲ کے پاس ہے، غربت و امارت انسانوں کے اعمال اور محنت کا نتیجہ ہے، اگر وہ اپنے لیے غلط نظام زندگی قبول کر لیتے ہیں تو اس میں ان کا اپنا قصور ہوتا ہے۔
اپنے اندر معاشی ناہمواری والا نظام انسان خود پیدا کرتے ہیں ۔ روزی روٹی کا وعدہ تو اﷲٰ نے خود کیا ہے اور یہ روکھی سوکھی ملتی ہی رہتی ہے۔ میرے والد بھی کوہستان نمک کے ایک دور دراز علاقے سے پچاس کی دہائی میں روزگار کی تلاش میں لاہور پہنچے تھے اور ان کے بقول ان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ لاہور نے انھیں قبول بھی کر لیا ۔ لاہور کے متعلق مشہور ہے کہ یہ ہر کسی کو قبول نہیں کرتا لیکن پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب اسی لاہور کی صحافتی دنیا میں عبدالقادرحسن کے کالموں نے دھوم مچا دی ۔ یہ ان کے بزرگوں کی دعائیں اور ان کا فیض تھا کہ ان کے قلم کی کاٹ اتنی شانداراور موثر تھی کہ ان کے کالموں کو ہر طبقہ فکر میں پذیرائی مل گئی۔
وقت گزر جاتا ہے، اچھا بھی اور برا بھی اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ انسان پلک جھپکتے ماضی کی کہانیوں کو اپنے اردگرد منڈلاتے دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ ہم جیسے درمیانے طبقے کے سفید پوش لوگوں کی ہر خواہش ہر دعا اولاد سے شروع ہو کر اولاد پر ہی ختم ہوتی ہے لیکن کم ہی والد ہوں گے جو یہ احساس اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں دلا سکے ہوں۔
اولاد کے لیے بہت کچھ کر کے بھی کچھ نہ کرسکنے کی ایک خلش آخری وقت تک ایک باپ کو بے چین کیے رکھتی ہے اور ہم اولادہوتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ باپ کا پیار کرنا چھونا یہ تو بچپن کی باتیں ہیں۔ لیکن یہ علم بہت بعد میں اس وقت ہوتا ہے جب ہم خود صاحب اولاد ہوتے ہیں کہ باپ بن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور اولاد کو پیار کرنے کے لیے ہونٹ تڑپتے ہیں ۔
کبھی کبھار ہم اپنے باپ کا موازنہ بھی شروع کر دیتے ہیں کہ اگر ہمارے باپ نے بھی کچھ کیا ہوتا،کچھ بنایا ہوتا تو آج ہم بھی فلاں کی طرح عالیشان گھر اور گاڑیوں میں گھوم رہے ہوتے ۔ بچپنے میںایسا ہی ذکر ایک دفعہ میں نے بھی کردیا تو کہنے لگے کہ جن کو تم کامیاب دیکھ رہے ہو، میں ان کی نسبت اپنے آپ کو کامیاب سمجھتا ہوں کہ صحافت میں جو مشن لے کر چلا تھا اس پر ثابت قدم رہا مگر میرے ساتھی اس راہ سے بھٹک گئے۔
والد صاحب نے اپنے پیشے کے محدود وسائل کے باوجود ہمیں ایک باعزت زندگی گزرانے کا گر سکھایا۔ہمیشہ خوبصورت اور اجلا لباس پہنا، جوتوں کے معاملے میں ان کی پسندبہت عمدہ رہی۔کہتے تھے کہ سامنے والے کی نظر سب سے پہلے جوتوں پر پڑتی ہے، اس لیے جوتے نہایت چمکدار اور نفیس ہونے چاہئیں۔ محدود وسائل کے باوجود اچھی گاڑیوں کے شوقین تھے۔ عمر بھرمرسیڈیز کارمیں محو سفر رہے، ان کی شہرہ آفاق مرسیڈیز سے ان کے قارئین اچھی طرح آشنا ہیں ۔ یہ مرسیڈیز کار آج بھی ہمارے آبائی گاؤں کی حویلی میں کھڑی ان کی یاد دلاتی ہے ۔
وہ زمانے اب گزر گئے ہیں جب رکھ رکھاؤ اور انسانی رشتوں کی اہمیت تھی، اب انسانی رشتوں کا بازار اور تجارت کا زمانہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور مارکیٹ اکانومی کے اس خود غرض اور مطلبی دور نے انسانی رشتوں کی ڈورکو کمزور کر دیا ہے لیکن ہم جنھوںنے کچھ پرانے زمانے میں ہوش و حواس سنبھالا، رشتوں کی روایت کو زندہ دیکھا ہے، اب تک ان رشتوں اور روایات سے جڑے ہوئے ہیںگو کہ اب جدیدیت نے دیہات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ان جدید سہولیات نے جہاں دیہی روایات اور ثقافت کومتاثر کیا ہے وہیں تمام تر اچھائیوںکے ساتھ ساتھ برائیوں کو بھی جنم دیا ہے جن کو ہم بھگت رہے ہیں۔
پرانے وقتوں میں اگر کسی بزرگ سے اس کی عمر پوچھی جاتی تھی تو جواب ملتا تھا کہ والدہ بتاتی تھیں کہ فلاں واقعہ ہوا تھا یاکوئی جنگ وغیرہ لگی تھی تو اس وقت تم پیدا ہوئے تھے، اس حساب سے عمرکا اندازہ لگا یا جاتا تھا، اس لیے دیہات کے رہنے والے سالگرہ منانا تو دور کی بات اس دن کے متعلق علم بھی نہیں رکھتے تھے ۔ میرے مرحوم والد اپنے شناختی کارڈ پر درج تاریخ پیدائش کے متعلق کہتے تھے کہ سرکارکے کاغذات میں یہی درج ہے۔
آج بارہ مئی ان کی سالگرہ کا دن ہے، وہ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کیک کاٹ کر انتہائی خوش ہوتے تھے ۔ ان کے پوتے نے ان کا پسندیدہ کیک منگو ارکھا ہے۔ پوتیوں نے میز سجارکھی ہے اور بچوںکی خواہش کے مطابق پھلجھڑیاں بھی روشنیاں بکھیرنے کو تیار ہیں مگر ہم سب کی روشنی ہم سے دور چلی گئی ہے۔ ہم بارہ مئی کو کیک کاٹنے کا اہتمام ہمیشہ کرتے رہیں گے لیکن کیک کاٹنے والے بابا نہیں ہوں گے۔ بچوں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنے اور ان کو تحائف دینے والے دادا اپنے رب حقیقی کے حضور پیش ہو چکے ہیں۔ ہم ان کی مغفرت کے لیے دعا گو ہیں۔سالگرہ مبارک بابا!۔