صرف ایک پیزا یا کباب

ہم پاکستانی اللہ کی راہ میں خرچ تو بے حد و حساب کرتے ہیں لیکن حق دار تک پہنچانے کا تردد نہیں کرتے


صرف ایک پیزا یا کباب کی رقم ہی اپنے اردگرد موجود کسی مستحق خاندان تک پہنچا دیں۔ (فوٹو: فائل)

ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے ہم نے جیسے ہی کباب کا آرڈر کینسل کیا، اسی لمحے میری نظر اس بچے پر پڑی جو ویٹر سے گرم انڈہ خریدنے کی درخواست کررہا تھا۔ میں نے کباب سے بچنے والی رقم اس بچے سے انڈے خرید کر اسی کو ہدیہ کردی۔ اور بچے کو گویا ہفت اقلیم کی دولت مل گئی۔

ایسے کتنے ہی معصوم محنت کش بچے ہمارے اردگرد محنت و مشقت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 38 لاکھ معصوم بچے جنہیں اسکول میں ہونا چاہیے تھا، غربت کے باعث کام کاج کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر ہم اپنی روزمرہ عیاشی میں سے تھوڑی سی کٹوتی کرلیں تو کتنے ہی گھروں کا چولہا جلتا رہے گا۔ مثال کے طور پر آپ اگر پیزا کھانے کے شوقین ہیں تو ضرور کھائیے، لیکن ماہانہ صرف ایک پیزا کی رقم اپنے گلی، محلے، علاقے میں موجود کسی سفید پوش کو دے دیں تو ان کی سفید پوشی کا بھرم رہ سکتا ہے۔ کیونکہ ایک بڑے پیزا کی قیمت میں 40 کلو آٹا خریدا جاسکتا ہے جو 6 افراد کےخاندان کےلیے 30 دن تک کافی ہوگا۔ اسی طرح آپ کی ایک ہوٹلنگ، سیاحتی مقام کا ایک دورہ یا پھر ایک عمرہ کسی خاندان کےلیے سال بھر کی روٹیاں مہیا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

اور ہمیں اب یہ سب کرنا ہوگا، کیونکہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ساڑھے 5 کروڑ یعنی 29.5 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وطن عزیز میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی بدولت 10 فیصد لوگ مجموعی آمدنی کے 27.6 فیصد حصے پر قابض ہیں۔ غربت، بھوک، افلاس ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے اور اس میں کمی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔

عالمی بینک کے مطابق 2019 تک پاکستان میں مجموعی ورک فورس ساڑھے سات کروڑ افراد پر مشتمل تھی، جنھیں ماہانہ آٹھ ارب ڈالر کے لگ بھگ تنخواہوں کی مد میں ادا کیا جاتا تھا۔ اور اب یہ کہا جارہا ہے کہ ایک کروڑ سے زائد افراد بیروزگار ہوچکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے وہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی سے ماہانہ محروم ہیں۔ یاد رہے یہ تخمینہ تنخواہ کی کم سے کم سطح پر رکھا گیا ہے۔

اس سلسلے میں حکومت وقت کیا اقدامات کررہی ہے، وہ ہمارے سامنے ہے کہ خان صاحب فرما رہے ہیں میں شریف خاندان کو نہیں چھوڑوں گا۔ یہی کام خان صاحب گزشتہ تین سال سے کررہے ہیں۔ لیکن ابھی تک یہ مشن مکمل نہیں ہوا۔ اگر انہوں نے باقی دو سال بھی اسی کام میں گزار دیے تو عین ممکن ہے کہ پانچ سال بعد شریف خاندان تو بچ جائے لیکن عوام شاید نہ بچ سکیں۔ اس لیے ہم سب کو میدان عمل میں نکلنا ہوگا۔ حکومتوں سے امید لگانا چھوڑ دیجئے۔

ہم میں سے ہر ایک اپنے گردوپیش کا ذمے دار بن جائے، اور اس سلسلے میں کوئی تنظیم، جماعت یا گروہ بنانے کی ضروت نہیں، بلکہ دامے درمے سخنے جو ہوسکے، کر گزریے۔ آپ اگر زکوٰۃ، صدقات ادا کرتے ہیں تو کوشش کیجئے کہ وہ حق دار تک پہنچ جائے۔ اور اگر یہ سب نہیں کرتے تو صرف ایک پیزا یا کباب کی رقم ہی اپنے اردگرد موجود کسی مستحق خاندان تک پہنچا دیں۔ ہم پاکستانی اللہ کی راہ میں خرچ تو بے حد و حساب کرتے ہیں لیکن حق دار تک پہنچانے کا تردد نہیں کرتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خیرات کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہونے کے باوجود ہماری غربت ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔ آئیے ہم عہد کریں اس عید پر اور عید کے بعد اپنے آس پاس موجود سفید پوشوں کا خیال رکھیں گے۔ آپ سب کو عید مبارک۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں