بیت المقدس کی ایک شام
پچھلے دنوں مسجداقصیٰ میں نمازیوں پرجو ظالمانہ کارروائی کی گئی ہے،اس نظم میں اس کے ابتدائی آثاربخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس عنوان سے یہ نظم نویّ کی دہائی میں لکھی گئی تھی جب یہ معاملہ 1918 کے بالفور ڈیکلریشن سے نکل کر 1948 میں اسرائیل کے قیام اور پھر 1967 میں جنگِ حزیران کے حوالے سے فلسطینیوں کے قتلِ عام، ملک بدری اورعلاقے کی تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرنے کے بعد 1972 کی نیم کامیاب مزاحمت، الفتح اور یاسر عرفات کے عروج اور امریکی مداخلت کے بعد صلح ناموں کے ایک دور سے بھی گزر چکا تھا۔
اس سارے دورانیے میں 1955 میں جنگ سویز سمیت اسرائیل کے پھیلاؤ اور فلسطین کے مقامی باشندوں کے سکڑاؤ کا عمل کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا مگر 1967 کے بعد اسرائیل کے حوصلے اتنے مضبوط اور انداز اس قدر جارحانہ ہوگیا کہ انھیں کسی بھی عالمی قانون کی پرواہ نہیں رہی جس کی بنیادی وجہ یہودی قوم کا دنیا کے معاشی نظام اور میڈیا پر وہ کنٹرول تھا جس کے سامنے طاقتور عالمی طاقتیں خاموش اور باقی دنیا مجبور تھی کہ ہر ایک کو اپنی جان ا ور مفادات عزیز تھے۔
اسرائیل کے ایک مخصوص شدت پسند گروہ کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے ہٹلر کے دور میں کیے جانے والے ایک نام نہاد یہودی قتلِ عام کے ذکر کو ہی کئی مغربی ممالک میں قابلِ تعزیر جرم کی حیثیت دلوادی تھی جب کہ 1967 سے لے کر گزشتہ رمضان کی پچیسویں شب کو مسجد اقصیٰ میں ہونے و الی ہر ظالمانہ اور قاتلانہ کارروائی پر یو این او سمیت تمام عالمی ادارے اور بڑی طاقتوں کے حکمران ''دونوں'' اطراف کو تحمل کے پیغامات دے رہے ہیں اور اسرائیلی میڈیا نمایندے پوری ڈھٹائی سے اپنی حکومت کے اس بہیمانہ اقدام کا دفاع یہ کہہ کر کرر ہے ہیں کہ ا سرائیل نے یہ کارروائی جوابی طور پر کی ہے۔
اس جواب کی منطق بھی وہی ہے جو امریکا نے عراق پر حملے کے وقت استعمال کی تھی اور جس کا اعلان اُن کی طرف سے وقتاً فوقتاً ہر حکومت کرتی ہے کہ امریکا کو کسی بھی امکانی حملے یا سازش کے مقابلے میں فوجی کارروائی کا حق حاصل ہے، چاہے اُن کا شبہ سو فی صد ہی بے بنیاد کیوں نہ ہو۔جنگِ حزیراں یعنی 1967 کی جنگ میں جہاں فلسطینیوں کے مختلف گروہوں میں شدیدردّعمل کے نتیجے میں پی ایل او نے ایک بہتر اور عملی شکل اختیار کی وہاں عرب شاعروں نے جن میں زیادہ تعداد فلسطینی مہاجر شاعروں کی تھی ایسی کمال کی، مزاحمتی شاعری اور نوحہ گری کی کہ جو اپنی مثال آپ ہے۔
میں نے ان میں سے چھ شعرا عبدالوہاب ابسیانی، نزارقبانی، محمود درویش ، فدویٰ طوقان، سمیعالقاسم اور نازک الملائکہ کی گیارہ لفظوں کے منظوم تراجم ''عکس'' کی صورت میں کیے جن کی وجہ سے ہمارے ادب میں اس مسئلے پر نہ صرف توجہ بڑھی بلکہ منو بھائی سمیت بہت سے شعرا نے مزید نظموں کے ترجمے بھی کیے جن کے مطالعے سے اسرائیلی مظالم کی تفصیل ا ور فلسطینی عوام کی مزاحمتی جدوجہد اور اس سے متعلقہ مسائل کو بہتر انداز میں سمجھا جاسکتا ہے۔
سترّ کی دہائی میں لاہور میں ہونے والی اسلامی ملکوں کی سربراہ کانفرنس اور یاسر عرفات کی آمد سے بھی پاکستان کی حد تک فلسطینی بھائیوں سے محبت اور اُن کی حقوق کی حمائت میں ہر سطح پر بہت کچھ لکھا گیا۔
فیض صاحب نے اپنے بیروت میں قیام کے دوران ''لوٹس''(رُوس کی مدد سے چھیننے والاایفروایشیائی میگزین)کے کچھ شمارے مجھے بھجوائے جن میں سے ہر ایک میں تیسری اور اسلامی دنیا کی طرف سے اسرائیل کے اس ظلم اور کچھ عالمی قوتوں کی اس کی حمائت کے خلاف نثر و نظم میں کچھ نہ کچھ شامل ہوتا تھا۔انھی دنوں میں بیت المقدس پر اسرائیل کنٹرول کی کارروائیوں کے حوالے سے بہت سی خبریں گردش میں تھیں جن سے متاثر ہوکر میں نے یہ نظم ''بیت المقدس کی ایک شام'' لکھی جس کا انگریزی ترجمہ مشہور موسیقار خواجہ خورشید انور کے بھتیجے اور داماد خواجہ وقاص نے کیا تھا جو اب امریکا میں انگریزی پڑھا اورلکھارہے ہیں۔ پچھلے دنوں مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر جو ظالمانہ کارروائی کی گئی ہے، اس نظم میں اس کے ابتدائی آثار بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔
بہت سال گزرے
اسی شہرِ اقدس میں اک شام ایسی بھی روش ہوئی تھی
کہ جس کے جلومیں ستاروں کااک کارواں بھی رواں تھا
اور اس کا سفر آنے والی کئی
چاند آباد صدیوں پہ سایا کناں تھا
پھر ایسا ہوا روشنی کم ہوئی اور آہستہ آہستہ
ظلمت کی چادر نے ا س شہرِ اقدس پہ پردہ کیا
اور آنکھوں کے سب طاق ویراں ہوئے
اوربجھتے ہوئے آنسوؤں کی نمی نذرِ جاں کر گئے
اور چاروں طرف اک دھواں کرگئے!
وہ دیوارِ گریہ
جو ظلمت فروشوں کا نقشِ فغاں تھی
ہمارے الم کا نشاں بن گئی
بے بسی اور ہزیمت ہمارے سفر کی زباں بن گئی
وہ حزیران کا موسمِ بے نمو
عزم کی کھیتیاں ساتھ لیتا گیا
ایک سیلِ بلا کتنی ہی بستیاں ساتھ لیتا گیا
میں اُ س شہرِ اقدس کے باہر کھڑا ہوں
کہ جس کی فصیلوں میں میرے لہو کے دیے جل رہے ہیں
ہوا تیز چلنے لگی ہے
سپاہی نے دروازے پر قفل ڈالا ہے
بندوق لہرا کے مجھ سے کہا ہے
''چلو شام ہونے لگی ہے ، چلو اپنی بستی کو جاؤ
کہ یہ شہرِ اقدس تمہارے لیے شہر ممنوع ہے''
اورمیں سوچتا ہوں
درِ شہرِ اقدس کے باہر کھڑا میں یہی سوچتا ہوں
کہاں تک یہ ذلّت کی اور غم کی آتش
مرے دل ہی دل میںسلگتی رہے گی!
گھنی شام کی یہ گھنیری اُداسی
کہاں تک مرے ساتھ چلتی رہے گی!!