اپنے آپ سے جھوٹ نہ بولیں
حالات مستحکم لگ رہے ہوتے ہیں اچانک سب کچھ مٹی کے ڈھیر میں بدل جاتی ہیں۔
عظیم روسی ادیب فیو دور دوستوسکی کہتا ہے '' سب سے پہلے تو اپنے آپ سے جھوٹ نہ بولیں جو شخص اپنے آپ سے جھوٹ بولتا ہے اور اپنے جھوٹ کی سنتا ہے وہ ایسے مقام پر آجاتا ہے جہاں وہ نہ تو اپنے اندر سچ کی تمیزکر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے ارد گرد۔
اس طرح وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے تمام تر عزت کھو دیتا ہے اور کیونکہ عزت نہیں رہتی تو وہ محبت کرنا ترک کر دیتا ہے'' یونانی المیہ نگاری کے فن کو تین لو گوں نے عالمی شہرت بخشی نا قابل فرامو ش ، بے مثال اور قابل تقلید بنایا۔ یہ تین بڑے نام اسکائی لیس، سوفیکلیز، اور یوری پیڈیز ہیں۔ ان تین عظیم لکھاریوں نے دنیا کو ششدر اور حیران کردیا۔ فلسفے کی ایسی گرہیں لگائیں کہ آج بھی انھیں کھولتے کھولتے نقادوں کی انگلیاں تھک جاتی ہیں۔
آئیں ! پہلے سو فیکلے کا ڈرامہ Oedipus at Colonus جو ایڈی پس کے بادشاہ کی دربدری کا المیہ ڈرامہ ہے جو اب در بدر دھکے کھاتا پھرتا ہے ،کا اقتباس پڑھتے ہیں۔ '' بھوکے پیاسے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی پاؤں میں آبلے لیے وہ چل رہے تھے کئی گھنٹوں سے مسلسل چلے جا رہے تھے۔ منزل کا پتہ تھا نہ ٹھکانے کا۔ وقت نے انھیں آگے کیا دکھانا تھا معلوم نہیں تھا ذلت کا احساس انھیں کھائے جا رہا تھا انھیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنی دور نکل آئے تھے اب تو حالت یہ ہوچکی تھی کہ ان کا ایک ایک پاؤں من من بھاری ہوگیا تھا۔
آگے بڑھنا محال تھا گرتے پڑتے باریش پیرانہ سال شخص کے منہ سے نکلا '' بیٹی مجھ سے آگے چلا نہیں جا رہا کیوں نہ کہیں سستا لیا جائے'' بیٹی نے اس کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا کر اپنے بازو سے پکڑ کر ایک مناسب جگہ پر بٹھا دیا اس نے اسے غور سے دیکھا اس کی آنکھوں کی جگہ گڑھے تھے چہرہ خون سے تر تھا لباس بوسیدہ اور پھٹا ہوا تھا وہ بھکاری لگ رہا تھا اسے دیکھ کر اس کے سینے سے ہوک اٹھی اور رونے لگی۔
انسان کہنے کو تو اشرف المخلوقات ہے، اپنی طرف سے بہترین منصوبہ بندی کرتا ہے بھر پور کوشش سے اپنے وسائل بھرپور طریقے سے استعمال میں لاتا ہے۔ تمام تر تدابیر کے باوجود کامیابی اور ناکامی کا دارومدار قدرت پر ہے کبھی بالکل غیر متوقع طور پر ہما سر پر آبیٹھتا ہے اور تخت دلا دیتا ہے کبھی سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا ہوتا ہے۔ حالات مستحکم لگ رہے ہوتے ہیں اچانک سب کچھ مٹی کے ڈھیر میں بدل جاتی ہیں۔ یہ مسافر جو در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا تھا ، مفلوک الحال تھا اور بھکاری لگ رہا تھا اور کوئی نہیں بلکہ تھیبز کا بادشاہ ایڈپس اور شہزادی اینٹی گنی تھی جسے ان کے اپنوں نے ان کے حق سے محروم کردیا تھا ۔''
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج ملک کے اصل مالکوں کی حالت تھیبز کے بادشاہ ایڈپس جیسی نہیں ہوچکی ہے ۔ کیا آج ہم سب مالک بھکاری نہیں بن چکے ہیں۔ کیا ہم سب مارے مارے نہیں پھررہے ہیں۔ کیا ذلت کا احساس ہمیں کھائے نہیں جارہا ہے۔ ذرا غور سے اپنے آپ کو دیکھو ، کیا تمہاری آنکھوں کی جگہ گڑھے نہیں پڑگئے ہیں ، کیا تمہارا چہرہ خون سے تر نہیں ہے ، کیا تمہارا لباس بوسیدہ اور پھٹا ہوا نہیں ہے ، کیا تمہاری زندگی فاقوں میں نہیں گذر رہی ہے ، کیا تم سب ٹکڑوں میں نہیں جی رہے ہو اور ٹکڑوں میں مر نہیں رہے ہو۔
کیا تم سب ادھوری زندگی گذار کر ادھورے ہی مر نہیں جاتے ہو ، اگر یہ سب سچ ہے تو پھر اپنے آپ سے جھوٹ کیوں بولتے ہو اپنا جھوٹ کیوں سنتے ہو، اگر تم یہ تسلیم کرچکے ہو کہ تم مالک کے بجائے بھکاری ہو تو پھر اس سچ کو مان کیوں نہیں لیتے ہو۔
اگر تم نے اپنے نصیب میں لکھ دی گئی ذلت کو مان لیا ہے تو پھر خوشحالی ، کامیابی اور ترقی کے خواب دیکھنا ترک کیوں نہیں کردیتے ہو۔ اگر غربت و افلاس ہی تمہارا مقدر ہے تو پھر امیروں کو للچائی ہوئی نگاہوں سے کیوں تکتے ہو ، اگر فاقے اور تڑپنا و سسکنا ہی تمہاری زندگی ہے تو پھر روٹی کی روز کیوں خواہشیں کرتے ہو کیوں جھونپڑے کے بجائے محلوں کے سپنے دیکھتے ہو، اپنی آنکھیں پھوڑ کیوں نہیں دیتے ہو۔ اگر یہ جھوٹ ہے تو پھر سچ کیا ہے اور اگر یہ سچ ہے تو پھر جھوٹ کیا ہے ۔
یاد رکھو! تمہارے نصیب اور مقدر بدلنے کیوں نہیں آنے والا ہے ماضی بعید میں فرانس ، روس ، ویت نام ، چلی ، جرمنی اور امریکا کے لوگوں کی حالت بھی تمہاری ہی جیسی تھی لیکن وہاں بھی کوئی بھی ان کی مدد کرنے نہیں آیا تھا۔ وہ خود اپنے لیے اٹھے اپنے لیے لڑے اور کامیاب ہوگئے پھر ان کو ان حالتوں پر پہنچانے والے اپنی جانیں بچانے بھاگ کھڑے ہوئے۔
عظیم ادیب کا ر لائل کی کتاب کا ایک اقتباس آپ کو پڑھنا بہت ضروری ہے وہ لکھتا ہے '' محنت و مشقت کر نے والے عوام کی حالت تو مسلسل ابتر تھی بدقسمت لوگ جن کی تعداد دو سے اڑھائی کروڑ کے درمیان تھی ہم ان سب کو ایک دھندلی اکائی یا انسانوں کا ایک ڈھیر سمجھتے ہیں۔ اتنا بڑا ہجوم مگر کمزور لوگوں کا ہجوم۔ کم ذات اور اچھے الفاظ میں انھیں عوام کہہ لو بظاہر عوام نام کی ایک اکائی سارے فرانس میں اپنے مٹی کے گھروندوں اور چھپروں میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہر گھر کے اپنے دکھ تھے اپنے مسائل تھے ان گھروں میں پائی جانے والی مخلوق اپنی ہڈیوں پر محض کھال اوڑھے ہوئے تھی ۔ کھال بھی خستہ حال کہ چٹکی بھرو تو اس میں سے خون رسنے لگے۔ ''
بعد میں انھوں نے ہی اپنی جدوجہد کے ذریعے بادشاہ کا سر قلم کردیا اور انقلاب فرانس کے ایک اہم لیڈر '' ڈانٹون'' نے ایک فرانسیسی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یورپ کے تمام بادشاہوں کو للکارا۔ اس نے چلا کر کہا تھا ''یورپ کے بادشاہ اب ہم پر دانت نکوسیں گے '' لیکن ہم بادشاہ کا سر ان کے منہ پر دے ماریں گے'' یاد رکھو! تم پاکستان کے اصل مالک ہو اور تمہیں تمہارے حق سے جبراً محروم کر دیا گیا ہے اگر تم نے اس سچ کو تسلیم کر لیا ہے اور تم اپنے حق سے دستبردار ہوگئے ہو تو پھر ٹھیک ہے لیکن اگر نہیں تو پھر فرانسیسی لیڈر''ڈانٹون'' بن جاؤ اور قابضین کو چیلنج کر دو ، اٹھو اپنے حق کے لیے لڑو ، اپنے حق کے لیے۔