سبط حسن فکرکا دیا
میں آج بھی سبط حسن کی انجمن ترقی پسند مصنفین کو ادیبوں کا مضبوط پلیٹ فارم سمجھتا ہوں۔
BEIJING:
دیس کی گلیاں ، چوبارے ، بازار ویران تھے ، حکمرانوں کے غیر آئینی اقدامات کے نتیجے میں عوام کے جمہوری حقوق مارشل لا کی صلیب پر چڑھا کر جبر اور خوف کے ماحول کا ڈنکا بجایا جا رہا تھا ، عوام کی جمہوری آزادی اور ان کے اظہار کے حق کو بندوق کی نال سے دبائے جانے کا چلن عام کر دیا گیا تھا۔
گھٹن اور مارشل لائی بساند سے تازہ ذہنوں کی سوچ کو زبردستی مذہب کے کپڑے پہنائے جا رہے تھے، ایوبی مارشل لا نے حسن ناصر اور ضیاالحق کے مارشل لا نے نذیر عباسی کو شعور کے چراغ روشن کرنے کی پاداش میں لاہور قلعے کے بندی خانے میں تشدد سے موت کے گھاٹ اتار چکے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی سے پابندی اٹھائے جانے کے باوجود اسے عوام میں سیاسی کام کرنے کی اجازت نہ تھی ، ضیائی جبر ہر سوکمیونسٹوں کی سرگرمی کو سونگھتا پھر رہا تھا۔
بس یہی وہ وقت تھا جب نظریاتی شعورکی پختگی کے آہن ذہنوں نے شعورکی جوت جگانے کی ٹھانی، کمیونسٹوں نے منڈلی بنائی ، سر جوڑے اور سماج کی کوکھ کو بنجر ہونے سے بچانے کی راہ ڈھونڈی۔ اس شعورکی جوت کو جگانے میں اس کے سالار مانند '' سبط حسن'' متحرک تھے ، اپنے کمیونسٹ فلسفے کی سچائی کے ساتھ جبرکی آنکھ میں آنکھ ڈالنے کے لیے ملک کے اہل دانش کو جوڑنے سنگت بنانے اور سماج کے ساکت پن میں ہلچل پیدا کرنے کے خاطر کمربستہ ہوئے تو انجمن ترقی پسند مصنفین کی وہ منڈلی سجائی جس نے خطے کی سوچ اور عمل میں روشن خیالی کی شمع جلا کر خطے اور دنیا کو ذہنی جِلا کا ترقی پسند نظریہ دیا۔ تحریر و تقریر کو اس کے فطری میلان سے جوڑنے کا کام کیا ، انسانی آدرشوں کو تحریر ذریعے ایسا روشن خیال سماج تشکیل دینے کی راہ دکھائی جس میں جبر سے ٹکرانے کی قوت کے ساتھ سماجی نا برابری کے خلاف کام کرنے والی قوتوں کو للکارا۔
یہ للکار جب سبط حسن کی عملی جدوجہد میں ڈھلی تو انجمن ترقی پسند مصنفین نظریے کے صحافی ادیب شاعر اور دانشور ایک ہوئے اور انجمن کی گولڈن جوبلی کا انعقاد ہوا ، یہ نوجوان امنگوں کا وہ دور تھا جب سبط حسن کی نظریاتی کتاب'' موسی سے مارکس تک'' اور ''نوید فکر'' ہر نوجوان کے بستے یا بغل میں دبی رہتی تھی، سبط حسن کی ان کتابوں نے نہ صرف خطے کے نوجوانوں میں سماجی جبر کے خلاف سینہ سپر ہونے کی جوت جگائی بلکہ یہ کتابیں عالمی سیاست ، تاریخ اور نظریے کی سچائی کا وہ مرکزہ ثابت ہوئیں کہ جن کے ذریعے نوجوان ذہن نہ صرف تاریخ بلکہ نظریاتی کشمکش کے ان پہلوؤں سے بھی آگاہ ہوئے جو اب تک سینہ بہ سینہ چل رہے تھے۔
علی گڑھ میں جنم لینے والے اور علی گڑھ یونیورسٹی کے زمانے میں بطورکمیونسٹ متحرک رہنے والے سبط حسن نے کمیونسٹ نظریے کو پھیلانے میں ملکی سماج کی ان غیر مرئی قوتوں کے نقاب اتارے جنہوں نے مختلف بہانوں اور شعبدے بازیوں سے عوام کو اصل حقائق سے دور رکھا۔ اس تناظر میں سبط حسن نے اپنی کتاب '' نوید فکر'' میں لکھا کہ'' تھیوکریسی ظلمت پرستوں کا وہ حربہ ہے ، جو خدا کی حاکمیت کی آڑ میں ملاؤں کا راج قائم کرنا چاہتے ہیں ، فیوڈل قدروں کو دوبارہ زندہ رکھنا چاہتے ہیں جب کہ عوام کو ان کے پیدائشی حق سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔''
جہاں سبط صاحب نے تاریخ اور سیاست کو سائنسی انداز سے چھاپا وہیں وہ صحافت اور ادب میں در آنے والے قرون وسطی کے خیالات پر بھی متفکر رہتے تھے اور شاید اسی واسطے کمیونسٹ پارٹی کے پہلے سیکریٹری اور نظریاتی ساتھی سجاد ظہیر (بنے بھائی) کے لگائے گئے پودے انجمن ترقی پسند مصنفین کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ لندن اور یورپ کے علاوہ ہندوستان تک گئے اور ادیبوں میں دوبارہ ترقی پسند نظریے کو طاقتورکیا۔
اسی کوشش میں انجمن کی دہلی میں گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت ان کی زندگی کی آخری تقریب ثابت ہوئی جو اپنے وطن کی مٹی میں کراچی کے سخی حسن قبرستان میں جا کرخاکستر ہوئی۔مگر سلام ہے ان کی اکلوتی بیٹی نوشابہ زبیری پر کہ انھوں نے اپنے باپ سبط صاحب کے مشن کو جاری رکھنے میں کوئی کسر روا نہ رکھی ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کو جوڑنے کی سبط صاحب کی تنظیمی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی مسلسل کوششیں جاری تھیں کہ اسی اثنا اطلاع ملی کہ انجمن کی ازسر نو تنظیم کاری کے سلسلے میں ایک اجلاس سبط حسن کے گھر واقع گلشن اقبال میں طلب کیا گیا اور اس طرح انجمن ترقی پسند مصفین کو ازسر نو جوڑنے میں مجھ سمیت شوکت صدیقی ،رفیق چوہدری ، پروفیسر عتیق ، قمر ساحری ،خالد علیگ ، جون ایلیا ، زاہدہ حنا ، ندیم اختر ، اظہر عباس ، مظہر حیدر ،تاج بلوچ ، فقیر لاشاری، ن۔م دانش ، اسرار شاکی، نعیم آروی ، نسیم ستھرکی ، مصدق سانول ، توقیر چغتائی اور زیب اذکارکا بھی حصہ رہا۔
انجمن کے تنظیمی کام اور نشستوں کی جگہ کا جب مسئلہ آیا تو اس دم توانا جذبے کے ساتھ سبط حسن کی بیٹی نوشابہ آگے بڑھیں اور انھوں نے سبط حسن کی انیکسی اور لائیبریری کی جگہ انجمن ترقی پسند مصنفین کو دے دی ، یوں سبط حسن کے گھر سے دوبارہ سجاد ظہیر،مخدوم،ساحر،کیفی،فیض اور حمید اختر کی انجمن کا نیا سفر شروع ہوا جسے نئے آدرش کے ساتھ جاری رہنا چاہیے مگردکھ یہ ہے کہ جس انجمن کی سیوا کے لیے مجھ سمیت میرے تمام زبانوں کے دوستوں نے سبط حسن اور امام علی نازش کی اس کوشش کو ایک معتبر ادارہ بنایا تھا ، وہ انجمن ترقی پسند مصنفین آج پھر انھی نا عاقبت اندیش راحت و مسلم کے مفادات کی بھینٹ چڑھ کر دریدہ ہو رہی ہے۔
میں آج بھی سبط حسن کی انجمن ترقی پسند مصنفین کو ادیبوں کا مضبوط پلیٹ فارم سمجھتا ہوں کہ جہاں ہر زبان کے ادیبوں کی منڈلی ہو ترقی پسند آدرش کے سوتے پھوٹیں اور ہم دوبارہ قلم ذریعے عوامی احساس کے وہ ترجمان بنیں جس میں اظہارکی آزادی سمیت عوام کی روشن خیال قدریں اور حقوق ایسے نتھی ہو جائیں کہ جس کے بعد قہر اور جبرکی تھیوکریٹ قوتیں عوام کے جمہوری حق پر ڈاکا ڈالنے کی جرات نہ کرسکیں۔