عصائے کلیمی اور فلسطین
دن کے بارہ بج چکے ہوں گے یا پھر بجنے والے ہوں گے۔
LONDON:
دن کے بارہ بج چکے ہوں گے یا پھر بجنے والے ہوں گے۔ دھوپ تھی تو سہی مگر ایسی نہیں تھی جس کی شدت پریشان کرے بلکہ اس میں نرمی، نگھ اور خنکی کا ایسا رچاؤ تھا جس کا امتزاج شاید جنت کے لیے خاص ہے۔
یہی دھوپ تھی جس کی کرنوں سے وہ سنہری اور نیلے گنبد یوں روشن تھے کہ نگاہیں خیرہ ہوتی تھیں اور میں ان گلیوں میں بکھری ایک الگ سی لیکن مانوس خوش بو کی لپیٹ میں تھا۔ یہ خوش بو مجھے یہاں وہاں لیے جاتے تھی، کہیں تنگ گلیاں، کہیں کھلی، گہری سرمئی محرابی، کسی تنگ راستے سے آگے بڑھتے بڑھتے گم ہونے والی یا تنگی سے اچانک کھلے میدان میں جا نکلنے والی جہاں سے نگاہ ایسا زاویہ بناتی کہ منظر گنبد الصخرہ سے بھر جاتا۔
شاعر قلب بینا اقبال عظیم نے شہر دل یعنی مدینۃ النبیﷺ کے لیے کس جذبے کے ساتھ کہا تھا:
مدینے میں تنہا نکل جائیں گے اور گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے
شہر دل کے بارے میں کسی کے دل میں ایسے جذبات جوت نہ جگائیں تو اس کا ایمان خام لیکن اس شہر کی تاثیر مختلف تھی، ادب سے آنکھیں اس شہر میں بھی نہیں اٹھتیں اور قدم زمیں پر پڑتے ہوئے لرزتے ہیں کہ مبادا شہنشاہ جن و انس حضرت سلیمانؑ کا گزر کہیں یہی سے نہ ہوا ہو یا عراق سے رخت سفر باندھ کر حضرت ابراہیم ؑنے جب یہاں قدم رنجہ فرمایا ہوگا تو ممکن ہے، شہر میں داخلے کے لیے انھوں نے اسی گلی کا انتخاب کیا ہو۔
حضرت عیسیٰؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت لوطؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سموئیل ؑاور ایسے ایسے اولوالعزم پیغمبر جن کے نام تاریخ میں محفوظ ہیں یا محفوظ نہیں ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہی کوئی قدم آگے بڑھا، کوئی موڑ ہم مڑے، کسی دیوار سے مس ہوئے، کسی بوڑھے درخت کی جڑ سے ٹکرائے، اس کے رگ و ریشے سے ارواح مقدسہ سے رشتوں کے لمس کی خوش بو پھوٹے گی اور آپ اس میں ڈوب کر کسی ایسے جانے پہچانے یاان جانے سفر پر جا نکلیں گے جس میں واپسی کی تمنا شاید ہی ہو کہ وہ براق سوار پاکیزہ روح؛ اللہ نے محض ایک ہی تخلیق فرمائی تھی جسے یہ طاقت عطا فرمائی گئی کہ وہ اس سرزمین سے اڑان بھر کر سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے اور اسے چھو کر واپس بھی لوٹ آئے تاکہ ہم گنہ گاروں کی قسمت کا ستارہ چمک سکے۔
یہ مسافر ابھی بیت اللحم کے ہزارہا برس قدیمی متبرک تہہ خانے کے دروازے تک ہی پہنچا ہو گا کہ ایک آواز نے چونکا دیا:
'ایشخ فی انتظارک، یا فاروق! '۔
شیخ محمد الصیام، امام مسجد اقصیٰ و بیت المقدس اور ریکٹر غزہ یونیورسٹی میرے منتظر تھے۔سفید نورانی چہرے میں چٹکی بھر سرخی، براق ڈاڑھی، ویسا ہی لبادہ۔ شیخ کمرے کے وسط میں ایک کشادہ صوفے پر تشریف فرما تھے، کھلی بانھوں سے انھوں نے خیر مقدم کیا، سینے سے لگایا اور بڑے حلم کے ساتھ میری طرف جھک کر کہا:
'ما ہو سؤالک؟'۔
شیخ نے یہ کہا تو عقیدت سے میں کچھ اور مؤدب ہو گیا۔ مترجم مسکرائے اور کہا کہ شیخ فرماتے ہیں، آپ کا سوال کیا ہے؟ میں تھوڑا سا محجوب تو ہوا لیکن اتنے طویل سفر سے یکا یک واپسی پر اتنی بوکھلاہٹ تو بنتی تھی۔
شیخ محمد الصیام دو روز سے پاکستان میں تھے، ان سے ملنے والوں کی تعداد بے شمار اور انٹرویو کرنے کی طویل قطار۔ کچھ دیر پہلے بھی ان کا انٹرویو جاری تھا، اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر میں اس بزرگ کے دیس اور اس دیس کے گلی کوچوں کی خاک چومتا پھرا۔ یہ ان زمانوں کی بات ہے جب فلسطینی فدائین نے جارح اسرائیلی فوجیوں کے خلاف خود کش حملوں کا آغاز کیا تھا۔
طاقت کے نشے میں چور دشمن کے خلاف کوئی اور بس نہ چلا تو غلیل سے انتفاضہ کر کے دنیا کو چونکا دینے والے فلسطینیوں نے اپنی جانوں کو ہتھیار بنا لیا۔ یوں یہ بحث چھڑ گئی کہ جنگ میں اپنی جان کو فنا کر دینے کے اس طریقے کی گنجائش اسلام میں نہیں کیوں کہ یہ دین دوسروں کی جان کے ساتھ ساتھ اپنی جان کو محفوظ رکھنے پر بھی زور دیتا ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں کی طرح پاکستانی اہل علم میں بھی یہ بحث زوروں پر تھی۔ رسمی سوالات کے بعد یہی سوال میں نے شیخ کی خدمت میں پیش کیا۔
شیخ کا سرخ و سپید چہرہ جس پر محبت اور شفقت کے نور کے علاوہ قدرتی مسکراہٹ ہمہ وقت ضو فشاں رہتی تھی جو یقین دلاتی کہ مخاطب ان کی محبت کے سائے میں محفوظ ہے لیکن یہ سوال سنتے ہی ان کی کیفیت بدل گئی، کہا جاسکتا ہے کہ وہ، جیسے بزرگ بیٹھا کرتے ہیں، اپنی عمر اور بے تکلفی کے باعث کسی قدر نیم دراز تھے، فوراً سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور کہا کہ دین قانون کی کسی کتاب کی طرح کوئی لگا بندھا ضابطہ بیان نہیں کرتا، بنیادی اصول فراہم کرتا ہے۔ انسان کی ذمے داری یہ ہے وہ دست یاب حالات میں راستہ تلاش کرے۔ ہمارے طریقہ مزاحمت کی مذمت کرنے والے ننگی جارحیت سے نمٹنے کا کوئی دوسرا طریقہ بتا دیں، ہم وہ اختیار کر لیں گے۔
'ویسے یاصدیق! 'انھوں نے لحظہ توقف کیا اور کہامیں آپ کو بتا دوں کہ جتنی محبت ہمیں اپنے لخت ہائے جگر سے ہے، کم کسی اور کو ہوگی۔ یہ نکتہ رسی دراصل دشمن کے زرخیر سے نکل کر ہم تک پہنچی ہے۔ اتنا کہہ کر انھوں نے میرے تاثرات کا جائزہ لیا پھر کہا کہ اچھا مجھے بتاؤ کہ کیا دشمن کے طریقہ ٔجنگ میں حملہ آور اپنی جان کی ضمانت دے سکتا ہے؟گفتگو اختتام کو پہنچ رہی تھی، شیخ نے ایک آخری بات کہی:
'برس ہا برس کی جارحیت اور اس کے خلاف مزاحمت سے ایک بات ہم نے سیکھ لی ہے'۔
شیخ صیام نے پہلو بدل کر کہا:
'النجاح لیس لمن یستسلم'۔
یعنی، کامیابی جھکنے والوں کے لیے نہیں ہوتی۔ مترجم نے فوراً ہی ترجمہ کر کے میری مشکل آسان کی تو مجھے سردار عبد القیوم خان کی یاد آئی۔ جنیوا مذاکرات کے دوران میں انھوں نے افغان مجاہدین کو مشورہ دیا تھا کہ مذاکرات میں کامیابی کا راز شرائط تسلیم کرنے میں نہیں دباؤ بڑھانے میں ہے۔
شیخ صیام کے فرمودات ہوں یا سردار قیوم کا تجربہ، دونوں سے ثابت ہو گیا کہ مسئلہ فلسطین کاحل ادیان ابراہیمی کے نام نہاد اتحاد کے خوش نما تصورات یا چاروں شانے چت ہو کر امن کی بھیک مانگنے میں نہیں۔ آج فلسطین کے گلی کوچوں اور مسجد اقصیٰ کے مقدس در و دیوار سے اٹھنے والے شعلوں نے اس نظریے کو ایک بار پھر باطل ثابت کر دیا ہے۔ انٹرویو ختم ہو چکا تھا۔ کامیابی جھکنے والوں کے لیے نہیں، جیسے قول فیصل نے میری یادوں کے دیے بھی روشن کردیے تھے، شیخ کی خدمت میں؛ میں نے ایک مصرع پیش کیا:
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
ترجمے کی ضرورت نہیں پڑی، اجازت لے کر میں اٹھ کھڑا ہوا تو شیخ بھی اٹھے اور میرا ماتھا چوم کر فرمایا، اقبالؒ، اقبال لاہوری ؒپھر فرمایا:
'ہذا ہو سر النجاح'۔
کام یابی کی کلید بس یہی ہے۔