معاشی گرداب
تین سال کے مختصر سے عرصے میں چار چار وزراء خزانہ بنائے جانے کی یہ ہمارے ملک میں پہلی مثال ہے۔
موجودہ حکومت کے دور میں تبدیل کیے گئے چار وزراء خزانہ میں سے شوکت ترین کے بارے میں یہ تاثر قائم ہورہاہے کہ اُن سب میں سے وہ ایک بہتر، حقیقت پسند اور دوراندیش مشیرخزانہ ہیں، جنھیں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اُس کے نتیجے میں عوام کے اندرپیدا ہونے والی بے چینی اورغم غصہ کا بھر پور ادراک اور احساس بھی ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ اِس ملک کے عوام کیاسوچ رہے ہیں۔ ہوسکتاہے وزیراعظم صاحب کے ارد گرد موجود افراد انھیں حقیقی صورتحال سے متنبہ اور آگاہ نہیں کرتے ہوں اور سب ٹھیک ہے کاراگ الاپ رہے ہوں لیکن شوکت ترین نے اب تک جو کھل کرباتیں کی ہیں اُس سے تو کم ازکم یہی اندازہ ہوتاہے کہ چونکہ اُن کی کسی پارٹی سے کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے اوروہ کسی لگی لپٹی کے بغیر اپنانقطہ نظرضرور بیان کردیتے ہیں۔انھیں احساس ہے کہ قوم اورملک اس وقت کن مصائب سے دوچار ہیںاور کیا وجہ ہے کہ حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک ملک کو مالی مشکلوں سے باہر نہیں نکال پائی ہے۔
ایک نیوٹرل اورغیر جانبدار شخص ہونے کی وجہ سے انھیں زمینی حقائق بتانے میں کسی کا ڈر اور خوف بھی لاحق نہیں ہے۔انھوں نے اب تک جو باتیں بھی کی ہیں وہ تمام کی تمام حقائق پرمبنی ہیں۔ حکومت کی معاشی پالیسی پر بھی انھوں نے وزارت سنبھالنے سے پہلے کھل کر تنقید کی تھی اورببانگ دہل بتا دیا تھا کہ انھیں اگر وزیرخزانہ بنایا گیا تو وہ اپنے کام میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔
وہ وزارت کو اپنے طور پر اپنی مرضی سے چلائیںگے۔وہ ایک آزاد اور خود مختار وزیرخزانہ بن کر اِس ملک کو موجودہ گرداب سے باہرنکال سکتے ہیں اگر اُن کے کام میں کوئی مداخلت نہیں گی گئی۔یہ وہ وقت تھاجب کوئی بھی ماہر معاشیات و اقتصادیات اتنی اہم ذمے داری قبول کرنے کوتیار نہیں تھا۔شاید اِسی وجہ سے وزیراعظم نے بھی انھیں یہ ذمے داری دینا قبول فرمالی۔
شوکت ترین کاشمار دنیاکے بہت ہی اچھے اکنامسٹ اور ماہر اقتصادی امور میں ہوتاہے، وہ اِس سے پہلے بھی سابقہ حکومتوں کے دور میں وزیرخزانہ رہ چکے ہیں۔اُن کی باتوں سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ مختصر عرصہ میں ملک کوموجودہ کیفیت سے باہر نکال کر ایک مثبت راستے پر ڈالنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں۔
وہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کے حق میں ہیں۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو یہی کہا کرتے تھے کہ بیرون دنیاسے بھاری بھرکم قرضہ لینا اورعوام پر مہنگائی کابوجھ ڈالنا تو بہت آسان ہے ،لیکن میں یہ ہرگز نہیں کروں گا، مگر جب وہ برسراقتدار آگئے تو قوم نے دیکھاکہ وہی حل جسے وہ بہت ہی آسان حل قرار دیتے تھے اپنانے میں ذرا سے بھی دیر نہ کی۔
شروع شروع میں یہ کہاگیاکہ IMF سے بچنے کے لیے دوست ممالک سے قرضے لیے جارہے ہیں لیکن بعد ازاں پھرIMF کے پاس بھی چلے گئے۔آئی ایم ایف سے حاصل کردہ چھوٹی سی رقم کے عوض عوام پر ٹیکسوں کے انبار بھی ڈالے گئے اورمہنگائی کے پہاڑ بھی توڑے گئے۔یہی وہ آسان سا حل تھاجس سے انکار ماضی میں کیا جاتا رہا۔بلکہ دیکھایہ گیاکہ قرضے لینے کو ایک بہت بڑی کامیابی اوراعزاز سمجھاجانے لگا۔
عوام کو صبر کرنے اورنہ گھبرانے کی تلقین کی جانے لگی۔ہر نئے سال پر اچھے دنوں کی امید دلائی جانے لگی۔پے درپے وزیرخزانہ تبدیل کیے جاتے رہے۔ اپنی ٹیم میںسب سے قابل سمجھے جانے والے ماہر اقتصادی امور اسد عمر کو چھ مہینوں میں ہی فارغ کردیا گیا۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی قابلیت اوراہلیت کے گن گائے جانے لگے لیکن پھر اچانک تمام نظریات اور خیالات یکسر بدل گئے ۔ اُن کے سینیٹ کے الیکشن میں ناکامی کے ساتھ ہی وہ ہیروسے زیرو قرار دیے جانے لگے اوراُن کی جگہ ماہر معاشیات و اقتصادیات حماد اظہر کو وزیرخزانہ بنادیاگیا۔ پھرپتا نہیں کیاہواوہ دو ہفتہ بھی نہ چل پائے اور اُن کی جگہ اب شوکت ترین نے لے لی ہے۔
تین سال کے مختصر سے عرصے میں چار چار وزراء خزانہ بنائے جانے کی یہ ہمارے ملک میں پہلی مثال ہے۔ہر وزیر کو یہ منصب دینے سے پہلے اُس کی بہت تعریفیں بھی کی جاتی رہیں لیکن پھر ہٹانے پر قوم کو اس کی وجوہات بھی نہیں بتائی گئیں۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوتو حفیظ شیخ یاد آجاتے ہیں اورکام نکل جانے پر منٹوں میںفارغ بھی کر دیے جاتے ہیں۔ خداکرے کہ شوکت ترین مستقل طور پر ایک کامیاب مشیر خزانہ یا وزیرخزانہ ثابت ہوں اورموجودہ حکومت کے باقی دوسالوں کے پورے ہونے تک اپنے عہدے پرقائم رہیں۔
شوکت ترین کے اب تک کے ریکارڈ کودیکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ضرور اداکرینگے۔ وہ ایک دور اندیش حقیقت پسندماہر اقتصادیات ہیں۔ اُن کی باتوں سے خیالی پلاؤ یا غیر منطقی یقین دہانیوں کااحساس نہیں ہوتا۔ وہ قوم کوخوش فہمی یاخام خیالی میں بھی رکھنا نہیں چاہتے۔ وہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کوبھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بجلی اورگیس کے ہوشربا نرخوں کے خلاف بھی وہ اپنا ایک واضح نکتہ نظر پیش کرتے رہے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ ملک کی معیشت سیاسی استحکام سے وابستہ ہے۔ یہ کرپشن کرپشن کاراگ الاپتے رہنے سے ملک کی معاشی حالت تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ غیر یقینی صورتحال سے قوم کوباہر نکالنا ہوگا۔ اپوزیشن سے بلاوجہ کی محاذ آرائی سے معیشت کبھی بھی سدھر نہیں سکتی ۔ہمیں اب جان لینا چاہیے کہ جب تک ملک میں عدم استحکام رہے گا یہ ملک کبھی بھی اپنے پیروں پرکھڑا نہیں ہوپائے گا۔
دنیا کے بہت سے ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ چین ملائیشیا ،کئی اورترقی یافتہ ممالک جہاں کرپشن ہم سے کچھ کم بھی نہیں ہے لیکن کیاوجہ ہے کہ وہ پھر بھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوگئے۔بس ایک ہی وجہ ہے کہ وہاں سیاسی استحکام موجود ہے۔
یہی بات ہم اب بنگلہ دیش میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہاں جب سے سیاسی استحکام قائم ہواہے وہ ترقی وخوشحالی میں ہم سے آگے نکل چکاہے۔ہمیں بھی اپنے ملک میں سیاسی استحکام پیداکرناہوگا۔سرمایہ داروں کااعتماد بحال کرناہوگا۔ زراعت اورصنعت کے شعبہ میں حوصلہ افزاء اقدامات کرنے ہونگے۔تبھی جاکے ہم موجودہ مشکل صورتحال سے باہر نکل پائیں گے۔ یہی بات شوکت ترین شروع دن سے ہمیں سمجھاتو رہے ہیں ،لیکن اب یہ موجودہ حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ اُن کی اِس بات کو لائق اعتناء سمجھتے ہوئے کتنی اہمیت دیتے ہیں۔