کیا اسرائیل خود ہی جنگ بندی کر دے گا

اسرائیل کا موقف ہے کہ حماس ہم پر راکٹ برسا رہا ہے اس لیے ہم کارروائی کر رہے ہیں۔


[email protected]

فلسطین کی صورتحال، اسرائیل کی جارحیت ،غزہ پر مظالم ، اقوام متحدہ اور او آئی سی کی بے بسی سب کے سامنے ہے۔ لیکن یہ سب کوئی نئی صورتحال نہیں جس پر کوئی زیادہ حیرانگی کا اظہار کیا جا سکے۔ اسرائیل نے ہر بار ایسا ہی کیا ہے۔ ہمیشہ دنیا اور اسلامی ممالک ایسے ہی بے بس نظر آئے ہیں۔

اس دفعہ صورتحال میں پہلے سے زیادہ تبدیلی بس اتنی ہے کہ عرب ممالک بھی خاموش ہیں۔ سعودی عرب نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن بعض عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے تسلیم کیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں بھی ان کی جانب سے یہ موقف سامنے نہیں آیا کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں مظالم بند نہ کیے تو ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کر دیں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ غزہ کی صورتحال اور ان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہم عرب ممالک سے کیا گلہ کریں ترکی کے بھی تو اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات موجود ہیں۔ بلکہ ترکی نے تو عربوں سے بہت پہلے اسرائیل کو تسلیم اور سفارتی تعلقات بھی قائم کر لیے تھے۔ آج ترکی کے صدر طیب اردگان کو مسلم ممالک کے ایک لیڈر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ خود کو مسلم امہ کا لیڈر بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ عربوں کے مقابلہ میں ترکی کی حاکمیت کے داعی ہیں۔ لیکن کیا ترکی نے غزہ کی صورتحال پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے یا کم کرنے کا کوئی اعلان کیا ہے۔

یہ درست ہے کہ طیب اردگان بار بار مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن شاید ان کے تحفظات بھی مسجد اقصیٰ کی حفاظت تک محدود ہیں۔ غزہ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے، وہ کسی حد تک قابل قبول ہے۔

پاکستان کی صورتحال بھی باقی دنیا سے کوئی خاص مختلف نہیں ہے۔ ہم بھی بیانات تک ہی خود کو محدود رکھنا چاہ رہے ہیں۔ ہماری کوشش بھی یہی ہے کہ بس باقی مسلم ممالک کے ساتھ ہی رہیں۔ کہیں ہمارا کوئی قدم ان سے آگے نہ نکل جائے۔

ہم عربوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کو تیار ہیں لیکن ہمیں احساس ہے کہ ہمارا کوئی قدم ان کے قدم سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ ہم شائد طیب اردگان جیسے جارحا نہ بیانات دینے کے موڈ میں بھی نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ترکی کے ساتھ چل کرہمیں پہلے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا بلکہ عرب ممالک ناراض ہو گئے تھے۔ بڑی مشکل سے ہم نے عربوں کو راضی کیا ہے۔ اس لیے اب فلسطین کے چکر میں ہم عربوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے ہم ترکی سے زیادہ عربوں کے قریب نظر آرہے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی دنیا یا کسی اسلامی بلاک کا اب کوئی وجود ہی نہیں رہا۔ تمام ممالک اپنے اپنے انفرادی مفادات کی روشنی میں فیصلے کرتے ہیں۔ مسلم ممالک اجتماعی فیصلہ کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلم ممالک کے اندر کوئی بہت زیادہ اختلافات ہیں ، دراصل یہ اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ وہ کوئی اجتماعی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔ دنیا کی گریٹ گیم میں مسلم ممالک اپنے اپنے انفرادی مسائل میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ ان کے پاس باہر دیکھنے کا حوصلہ ہی نہیں ہے۔

آپ دیکھ لیں عرب ممالک ، ترکی اور پا کستان اپنے اپنے مسائل کا شکار ہیں۔ پھر سب نے لیبیا اور عراق سے سبق سیکھا ہے۔ سب کو اندازہ ہے کہ اگر انھوں نے دنیا کے ساتھ مزاحمت کرنے کی کوئی کوشش کی تو ان کا حال بھی لیبیا اور عراق جیسا ہو سکتاہے۔ عرب ممالک کو بخوبی اندازہ ہے کہ ان کی بادشاہتیں بھی ختم ہو سکتی ہیں۔ ان کے ممالک میں بھی جمہوریت کی تحریکیں چل سکتی ہیں۔ پھر امریکا نے ان کی حفاظت کی جو ذمے داری اٹھائی ہوئی ہے وہ بھی ختم کی جا سکتی ہے۔ اس لیے بہت سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے مسلم ممالک بالخصوص عربوں کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔

ہماری صورتحال ان سے بھی بری ہے۔ کہنے کو تو ہم مسلم دنیا کے واحد ملک ہیں جن کے پاس ایٹم بم ہے، ہم ہتھیار بھی بناتے ہیں لیکن ہم کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ معاشی مسائل نے ہمیں باندھا ہوا ہے۔ ہم تو آئی ایم ایف کی ایک قسط کی مار ہیں۔ ویسے بھی دنیا اور بالخصوص مغرب نے ہمیں فیٹف میں بھی جکڑا ہوا ہے۔ ہم گرے لسٹ سے باہر ہی نہیں آرہے۔ دنیا جب چاہتی ہے ہم پر پابندیاں لگانے کا عندیہ دیکر ہماری راتوں کی نیندیں حرام کر دیتی ہے۔ اس لیے ہم تو آنکھ اٹھانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔

اس لیے باقی دنیا سے کیا گلہ کرنا۔ اگر ہم خود اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہماری صورتحال ان سے بھی بری ہے۔ ویسے بھی حال ہی میں یورپی یونین نے پاکستان کے خلاف قرارداد پاس کی ہے جس کے بعد ہمارے جی ایس پی پلس اسٹیٹس اور برآمدات کو خطرہ ہے۔

ہم تو مسئلہ کشمیر پر بھی اس طرح کھڑے نہیں ہو سکے جیسے ہمیں کھڑا ہونا چاہیے تھا، فلسطین پر کیا کھڑے ہونگے۔ ہم تو بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی کر رہے ہیں، ہم دنیا کو اسرائیل کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کا کیسے مشورہ دے سکتے ہیں۔ ہم نے تو کشمیر کی سنگین صورتحال میں بھی بھارت سے سفارتی تعلقات ختم نہیں کیے، ہم دنیا سے کیا مطالبہ کریں کہ غزہ کی صورتحال کے پیش نظر اسرائیل سے تعلقات ختم کر دیے جائیں۔ دنیا سے کشمیر پر ساتھ نہ دینے کا گلہ اپنی جگہ لیکن ہم نے بھی کوئی خاص اسٹینڈ نہیں لیا۔

فلسطین کا کیا ہوگا۔جب اسرائیل اپنے اہداف حاصل کر لے گا وہ خود ہی رک جائے گا۔ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ کیا پہلے کبھی اسرائیل دنیا کے خوف سے رکا ہے۔ ماضی میں بھی اس نے اہداف حاصل کرنے کے بعد خود ہی جنگ بندی کر دی ۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ جب اسرائیل جنگ بندی کردیتا ہے تو ہم سب کریڈٹ لینا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ سفارتکاری کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ اسرائیل جن بلڈنگوں کو نشانہ بنا رہا ہے اس کے مطابق ان میں حماس کے دفاتر ہیں۔

دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ رہائشی بلڈنگز ہیں۔ لیکن اسرائیل ان بلڈنگز کو تباہ کر رہا ہے۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ حماس ہم پر راکٹ برسا رہا ہے اس لیے ہم کارروائی کر رہے ہیں۔ یہ وہی صورتحال ہے جب امریکا کہہ رہا تھا کہ عراق میں بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ عراق کہہ رہا تھا کہ ایسا نہیں ہے لیکن امریکا نے حملہ کر دیا۔ اور وہ ہتھیار آج تک نہیں ملے۔ اس لیے سب اس انتظار میں ہیں کہ اسرائیل کے اہداف حاصل ہو جائیں اور وہ خود ہی جنگ بندی کر دے۔ باقی سب خیر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں