افغانستان کا ماضی حال اور مستقبل
افغانستان تو ترقی کے ہر شعبے میں 200 سال پیچھے چلا گیاہے جب کہ پاکستان میں بھی ترقی کا پہہ رک چکا ہے۔
افغانستان میں 1926 میں شاہ نصر اللہ خان کو اقتدار سے ہٹا کر شاہ امان اللہ خان اقتدار میں آئے، وہ 1926 تا 1929 تک اقتدار میں تھے۔ بعد میں سامراجی آلہ کار عنایت اللہ مراجی نے سازش سے امان اللہ خان کو اقتدار سے بے دخل کیا۔ امان اللہ خان نے اقتدار میں آنے کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کا اسکول قائم کیا ، دنیا بھر میں تجارتی تعلقات بہتر کیے، علم و ہنر اور ثقافت کو عروج دیا۔
ان کی بیوی ثریا ایک ترقی پسند خاتون تھیں، ان سے امان اللہ بہت متاثر تھے۔ اس لیے بھی کہ افغان معاشرے کو جدید بنانے اور تعلیم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ بعدازاں اقتدار میں ظاہر شاہ اور پھر داؤد شاہ آئے۔ 1978 میں خلق پارٹی کے چیئرمین استاد اکبر کو قتل کردیا گیا۔ استاد اکبر افغانستان کے انتہائی انقلابی تھے ، اسی وجہ سے انھیں استاد کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے قتل کے خلاف کابل میں 30 ہزار لوگوں کا ایک عوامی سیلاب احتجاج کرنے نکل آیا۔
جس سے حکمرانوں کے محلوں میں زلزلے آگئے۔ خلق پارٹی کے رہنما حفیظ اللہ امین کا فوج میں اچھے خاصے نظریاتی کام تھے۔اس لیے فوج نے افغانستان کے حکمران سردار داؤد کا تختہ الٹ دیا اور دوسرے دن افغانستان کی بنیاد پر ایک انقلابی کونسل تشکیل پائی پھر فوج نے اقتدار اس کونسل کے حوالے کردیا۔ اس کے بعد حکومت سازی ہوئی جس کے صدر نور محمد ترکئی اور وزیر خارجہ حفیظ اللہ امین بنے۔ اقتدار میں ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ بھی تھے۔ انھوں نے اقتدار میں آکر جاگیرداری کا خاتمہ کردیا اور زمین کسانوں میں بانٹ دی، ولور (بردہ فروشی)کے نظام کو ختم کردیا۔
یہ ایسا نظام تھا کہ لڑکی کے والدین لڑکے والوں سے شادی کے وقت رقم وصول کرتے تھے۔ سود کے نظام کا خاتمہ کیا۔ ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ جس نے نجی سود خور سے قرض لیا ہے وہ واپس کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ سود ادا کرنا ہوگا۔ پوست کی کاشت پر پابندی لگا دی گئی، سامراجی معاہدات کا خاتمہ کردیا گیا، خواتین پر مسلط جبری لباس کا خاتمہ کردیا گیا۔
لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی گئی، تعلیم بالغان شروع کردیا گیا۔ ان مثبت راست عوام دوست اور سامراج مخالف اقدامات سے سامراجی بوکھلا گئے۔ اس انقلاب کو ثور انقلاب کہا جاتا ہے۔ افغانستان میں ان کے اپنے کیلنڈر کے حساب سے ثور کا مہینہ اپریل میں ہوتا ہے۔ اس لیے 1978 ، 28 اپریل (ثور) کو برپا ہونے والے انقلاب کو ثور انقلاب کہتے ہیں۔
نور محمد ترکئی کے چچا کی ممبئی میں پھلوں کی دکان تھی، وہاں وہ مزدوری کرتے تھے۔ ترکئی نے انقلاب، سماج اور اشتراکیت پرکئی کتابیں بھی لکھی ہیں جو پشتو اور فارسی میں شایع ہوئی ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کا کابل میں اب بھی باقاعدہ دفتر ہے اور پارٹی کا ہفت روزہ رسالہ ''خلق'' کے نام سے شایع ہوتا ہے۔
سامراجی سازشوں کی وجہ سے نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب اللہ سمیت ہزاروں انقلابیوں کو قتل کیا گیا۔ ان کے علاوہ دانشوروں، مصوروں، گلوکاروں، فن کاروں، ادیبوں، سائنس دانوں اور شاعروں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ افغانستان کا دورہ کرنے والے ان صحافیوں اور رپورٹروں کی بہت ہی کم تعداد ایسی تھی جو تعصب اور پروپیگنڈے سے اجتناب کرتی یا پھر انقلابی رہنماؤں کا نقطہ نظر غیر جانبداری کے ساتھ باقی دنیا تک پہنچاتی۔ جیسے کہ اپنی تصنیف "Afghanistan Revolutionary" میں آسٹریلوی صحافی بیورلے اس بات کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ کرتی ہیں۔ '' روایتی طور پر افغانستان کی شناخت یہاں سے رپورٹنگ کرنے یا یہاں کے متعلق معلومات اکٹھی کرنے کے حوالے سے ایک مشکل ملک کے طور پر کی جاتی ہے۔
تاہم یہ مسئلہ 1978 کے انقلاب کے بعد یہاں کا دورہ کرنے والے ان صحافیوں کی وجہ سے اور پیچیدہ ہو گیا جو یہاں ان خیالات کی ایسی پیش بینی کے ساتھ پہنچے تھے کہ جن کا انھوں نے خود کبھی جائزہ نہیں لیا تھا،وہ جنھوں نے صدر ترکئی یا ان کے وزیر خارجہ حفیظ اللہ امین کے انٹرویو کیے تھے۔
شاذ و نادر ہی ان انٹرویو کی تفصیل جاری کرتے تھے۔ صحافیوں نے کابل میں قدم رکھنے سے بہت پہلے ہی طے کرلیا تھا کہ انھیں کیا لکھنا ہے۔ 1972 میں امریکا میں ایک ادارہ بنایا گیا جس کے زیر اہتمام افغانستان میں روسی مداخلت اور خانہ جنگی کے دوران افغانستان اور پاکستان میں افغان مہاجرین کے لیے تقریباً 1300تعلیمی مراکز قائم کیے اور افغان مہاجرین کو تعلیمی خدمات اور درسی کتب فراہم کی گئیں، ان سرگرمیوں کی فنڈنگ ہوتی تھی اور نگرانی رجعت پسند دانشور، سیاست دان وغیرہ کرتے تھے۔
اگر افغانستان میں نورمحمد ترکئی کی حکومت کے خلاف انتہاپسند لیڈر شپ اور جنگجو گروپوں کی سرپرستی نہ کی جاتی تو آج افغانستان ایک خوشحال، امن پسند اور خواندہ ملک ہوتا اور پاکستان بھی دہشت گردی اور انتہا پسند سے پاک ایک جدید جمہوری ملک ہوتا۔ اب افغانستان تو ترقی کے ہر شعبے میں 200 سال پیچھے چلا گیاہے جب کہ پاکستان میں بھی ترقی کا پہہ رک چکا ہے۔ بہرحال اب بھی موقعہ ہے کہ ہم امن کی راہ اپنائیں اور معاشرے میں طبقاتی تفاوت کم کرکے طبقاتی اور انسانی برابری کا معاشرہ قائم کریں۔