اسرائیل فلسطین جنگ ہم کیا کریں
اقوام متحدہ بھی برائے نام ہے بلکہ امریکی دفترخارجہ کاذیلی ادارہ بن چکاہے،اوآئی سی مذمت سے آگے بڑھ کرکچھ نہیں کرسکتی۔
فلسطین کے معاملے کو دیکھ کر لگتا ہے انسانیت ختم ہو چکی، ایک طاقتور ملک ، کمزور ملک پر چڑھائی کر رہا ہے، بچے، خواتین اور نوجوانوں کو کچلتا ہوا آگے بڑھتا جا رہا مگر کسی ریاست میں اخلاقی جرأت نہیںکہ اُسے روک سکے!
اقوام متحدہ بھی برائے نام ہے بلکہ امریکی دفتر خارجہ کا ذیلی ادارہ بن چکا ہے، او آئی سی مذمت سے آگے بڑھ کر کچھ نہیں کرسکتی۔ فلسطین میں سیکڑوں جانوں کے ضیاع پر دنیا خاموش کیوں ہے؟ کیا یہ اسلامی ملکوں کے اتحاد کی نااہلی ہے؟ حالانکہ دنیا کہ بڑی تنظیمیں جب کسی ملک یا تنظیم کے خلاف فیصلہ کرتی ہیں تو اُس کا اثر دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔
جیسے حال ہی میں یورپی یونین نے قرار داد منظور کی تو پاکستان متحرک ہوا ۔ یورپی یونین ہی نے چین کے کئی عہدیداروں پر صوبہ سنکیانگ کے ویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پابندیوں کا اعلان کیا ، چینی حکام نے فوری طور پر یورپی یونین کو اپنے موقف سے آگاہ کیا اور پابندیوں پر نرمی اختیار کرنے کے لیے کہا۔
یورپی یونین ہی نے بھارت میں ہونے والے امتیازی رویوں اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بھارتی حکومت کو انتباہ کیا، جس کے بعد نمایاں طور پر پرتشدد واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی۔
مطلب یورپی یونین کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ امریکا بھی اس تنظیم کی ناراضگی مول لینے سے ڈرتا ہے۔پھر ''دولت مشترکہ'' تنظیم کی بات کر لیں۔جس کے صرف ایک فیصلے پر کئی ملکوںمیں جمہوریتیں بحال ہوگئیں، کئی ممالک کی معیشت ٹریک پر آگئی، کئی ممالک میں انسانی اسمگلنگ، منشیات اور دیگر جرائم میں کمی واقع ہوئی۔ اس تنظیم کی طاقت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کوئی بھی ملک دولت مشترکہ سے باہر رہنا نہیں چاہتا، حتیٰ کہ چین نے بھی اس میں شمولیت کی کئی بار کوشش کی ہے۔
جی 20ممالک کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا، یہ 20امیر ترین ملکوں کا گروپ ہے جس کی معیشت کا تخمینہ دنیا کی کل معیشت کا نصف بتایا جاتا ہے، یہ ممالک کبھی 8ممالک کا گروپ (جی8)ہوا کرتا تھا، جو بڑھ کر آج جی 20ہو چکا ہے، اس کے اثرورسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس گروپ نے دنیا بھر کے ممالک کو قرضے دے رکھے ہیں اور پاکستان بھی اس کا مقروض ہے۔ کورونا کی صورتحال میں تمام ممالک جی20ممالک کے پاس جمع ہیں کہ قرضوں کو ری شیڈول کیا جائے، جب کہ یہ گروپ دوبارہ اپنی مرضی کے معاہدوں کے بعد قرضوں کی ری شیڈولنگ کر رہا ہے۔
کیا کبھی آپ نے 57اسلامی ملکوں پر مشتمل تنظیم او آئی سی کی اہمیت ، طاقت یا فیصلوں کے بارے میں سنا؟ یقینا نہیں سنا ہوگا کیوں کہ یہ عملی اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔ بہت پہلے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی ایک مؤثر اور طاقتور پلیٹ فارم ہوا کرتی تھی، جس کا اجلاس ہوتا تو دنیا کے طاقتور ممالک کو کسی بڑے ردعمل کی فکر ہو جاتی۔
تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی کارگر ہوتی اور مغرب اپنی معاندانہ سوچ ، اپنی اوچھی حرکتوں اورخاص طور پر اسرائیل کی حمایت سے کسی حد تک ہاتھ کھینچ لیتا تھا، مگر رفتہ رفتہ سب نے دیکھا کہ او آئی سی ایک بے جان تنظیم بن گئی۔ اس کا ثبوت اس کے حالیہ اجلاسوں سے بھی مل جاتاہے۔ جن میں کشمیر، فلسطین جیسے دیگر متنازعہ علاقوں کے بارے میں صرف رسمی بات چیت کی گئی۔
اب بھی نازک حالات میں ''سنجیدگی کی انتہا'' دیکھ لیں کہ عملی اقدامات کے بجائے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیلی مظالم کے خلاف صرف قرارداد منظور کی گئی ہے۔ اس اجلاس میں نہ تو اقتصادی بائیکاٹ کی بات کی گئی، نہ کسی اور ایکشن کا مطالبہ کیا بلکہ فلسطین پر اسرائیلی بمباری اور وحشیانہ حملوں کو ایک روایتی قرار داد منظور کرکے نمٹادیا، جب کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل اور دیگر ممالک نے اس مذمت کے بعد اپنا موقف پیش کرنا تو دور کی بات اس کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ او آئی سی کے مسلمان ممالک اسرائیل اور بھارت کے آگے کیوں بے بس ہیں؟جواب بہت آسان ہے۔ اسرائیل مصر، اردن، بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان، مراکش اور ترکی سمیت متعدد مسلمان ممالک سے سفارتی تعلقات رکھتا ہے۔
ایسے میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک جو او آئی سی سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل یا بھارت کے خلاف فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر ایکشن لے، انھیں خود غور کرنا ہوگا کہ ان کا یہ مطالبہ کس حد تک حق بجانب ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ مسلم ریاستوں کو اس وقت کیا کرنا چاہیے؟ میرے خیال میں سب سے پہلے اس تنظیم کو مکمل فعال کرنا ہوگا، اس کے سربراہان پر مشتمل کانفرنس منعقد کرنا ہوگی، پاکستان، ترکی اور ملائشیا بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
کیوں کہ اگر 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل ، کرنل قذافی اور یاسر عرفات پورے یورپ کا تیل بند کر کے انھیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے تھے، تو اب ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے یہ اعلان ہونا چاہیے کہ تمام اسلامی ممالک غیر معینہ مدت تک اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، اور جو ملک اس فیصلے کا ساتھ نہیں دیتا اُسے او آئی سی سے نکال باہر کرنا ہوگا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر امریکا، اقوام متحدہ ، یورپی یونین، دولت مشترکہ جیسی تنظیمیں دوسرے ملکوں پر اقتصادی پابندیاں لگا سکتی ہیں تو او آئی سی کیوں نہیں لگا سکتی، حالانکہ دنیا کی کل معیشت کا 25فیصد اسلامی ملکوں کے پاس ہے۔
عرب لیگ بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے اگر مذکورہ بالا اقدامات کرنے بھی مشکل ہوں تو فی الوقت پاکستان کے عمران خان، ترکی کے طیب اردوان اور ایران کے آیت اللہ خامنائی و حسن روحانی اتنا ہی کر دیں کہ وہ دنیا کو اسرائیل کے توسیع پسندانہ خونی عزائم اور اسرائیلی قیادت کی نازی ذہنیت سے آگاہ کریں۔ اور اس کام میں یقینا کوئی محنت بھی درکار نہیں ہوگی!