سونے کی مرغی قیدی اور سٹی کورٹ الاپ

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کوٹ لکھپت جیل میں خواتین قیدیوں کے کھانے سے چھپکلی...


قادر خان January 16, 2014

ISLAMABAD: چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کوٹ لکھپت جیل میں خواتین قیدیوں کے کھانے سے چھپکلی کی برآمدگی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ''قیدی بھی انسان ہیں، ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے''۔

سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری بھی قیدیوں کی زبوں حالی پر مختلف سیمیناروں میں وقتاً فوقتاً اسی طرح کے خیالات و ہمدردی کا اظہار کرتے رہے تھے، لیکن 48 روپے فی قیدی کے اخراجات دینے والی حکومتیں، قیدیوں کو کتنے حقوق دیتی ہیں۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار میں سب سے زیادہ خراب صورت حال کورٹ پولیس اور کورٹ لاک اپ میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والا انسانیت سوز سلوک ہے۔

سٹی کورٹ کراچی کے لاک اپ میں شہر کی مختلف جیلوں سے قیدی نہیں بلکہ ''سونے کی مرغی '' لائے جاتے ہیں۔ یہاں حیرانی کی ضرورت نہیں کیونکہ قیدی سونے کے انڈے دینے والی مرغی نہیں ہے، کیونکہ انڈا دینے اور لینے کے لیے انتظار ضروری ہے۔ اس لیے کورٹ پولیس مرغی کو چاک کرکے سارے انڈے یکمشت نکال لینے کی عادی و ماہر ہے۔ ساتھ میں مہارت و چابکدستی سے مرغی (قیدی) کی کھال اضافی اتار لیتی ہے۔بلکہ آنے والے سونے کی مرغی (قیدی) کی کھال اتارنے کے انسانیت سوز وہ تمام حربے استعمال کر جاتی ہے کہ الامان الحفیظ۔ یہاں لاک اپ سٹی کورٹ کراچی پولیس کا ایک مختصراً اجمالی خاکہ پیش کر رہا ہوں۔

جیلوں سے آنے والے قیدیوں کو جب لاک اپ میں پھینکا جاتا ہے تو ان کے وارنٹ پروڈکشن آرڈر لاک اپ منشی لیتا ہے۔ قیدیوں کو زنجیر نما ہتھکڑیوں میں ڈسٹرکٹ کی مناسبت سے باندھا جاتا ہے۔ یہیں سے جوڑ توڑ کے عظیم مظاہرے شروع ہوجاتے ہیں، پرانے قیدی ان تمام ہتھکنڈوں کو سمجھتے ہیں لیکن نئے قیدی آنے سے ان کی چاندنی ہوجاتی ہے۔ جو قیدی رشوت نہیں دے پاتے تو ان کے ہاتھوں میں مضبوطی سے زنجیر گھما گھما کر جکڑ دی جاتی ہے اور دو دو تالوں کے ساتھ مزید سخت کرکے قیدی کی کلائی میں ہڈی تک اتار دی جاتی ہے۔ عموماً قیدی کی مالی استطاعت کے مطابق، جوڑ توڑ کرتے ہوئے 100 روپے سے لے کر 500 روپے لیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ دوسرا مرحلہ زنجیروں میں باندھے گروپ میں قیدیوں کی تعداد ہے۔ جس میں منشی لاک اپ کو خرچہ ملنے کی صورت میں 10,8,6,4 کے گروپ میں اس طریقے سے باندھا جاتا ہے کہ اگر درمیان کا قیدی تھوڑا آہستہ چلے تو اگلے قیدی کے تیز قدموں و زور کی وجہ سے اس کی کلائی ٹوٹنے لگتی ہے اور اگر پچھلا قیدی سست ہوجائے تو بھی قیدیوں کی چین کی کلائیاں چٹخنے لگتی ہیں۔

اگر لاک اپ منشی کو خرچہ مناسب مل جاتا ہے تو ان قیدیوں کو ''چین'' کے حساب سے یا کم قیدی باندھی جیسی ''آسائش'' دے کر روانہ کردیا جاتا ہے۔مجموعی طور پر کم قیدیوں کے ساتھ کسی قیدی کو باندھنے کی رشوت 500 روپے سے لے کر 2000 روپے تک وصول کی جاتی ہے۔ قانونی طور پر اکیلے قیدی کو ہی یا زیادہ سے زیادہ دو قیدی ایک ساتھ باندھنا چاہئیں۔ اکثر قیدیوں کی یہ سب سے بڑی مجبوری ہوتی ہے کیونکہ کورٹ میں دوران پیشی ان کے گھریلو خواتین بھی آتی ہیں۔ جہاں ان کے ساتھ ملنے بیٹھنے، کھانے پینے یا مقدمے کے حوالے سے گفتگو کے لیے پرائیویسی نہیں ملتی، اور جرائم پیشہ قیدیوں کی تند و تیز چبھتی نظروں اور بے باکیوں کی بنا پر انھیں مجبوراً رشوت دینی پڑتی ہے۔

کورٹ لاک اپ سے اگلا مرحلہ کورٹ روانگی کے لیے رجسٹر میں انٹری کرنے والے منشی کا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں منشی ظہور جوکہ کانسٹیبل ہے فائز ہے جو کورٹ روانگی کے لیے قیدیوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک و بدتمیزی کرتا ہے۔ جب تک اسے من پسند رشوت نہ دی جائے وہ قیدیوں کی روانگی کے لیے ''پرچی'' نہیں بناتا۔ روانگی کے لیے پرچی جسے عرف عام میں گیٹ پاس کہہ لیں، منشی کے سفاکانہ رویے کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔ لاک اپ منشی کے ساتھ اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ اس کا رویہ انتہائی جارحانہ ہوتا ہے، جس میں مغلظات اور گالی گلوچ میں وہ قیدیوں کے ساتھ جانے والے پولیس اہلکاروں کو بھی کوئی خاطر نہیں لاتا اور پولیس اہلکار بھی خوفزدہ رہتے ہیں۔

منشی کی جیب فی قیدی دو سو روپے سے ایک ہزار روپے تک جب تک گرم نہ کی جائے وہ قیدیوں کو فوری لاک اپ سے باہر جانے میں رکاوٹ پیدا کرتا رہتا ہے۔ اگر کوئی قیدی غلطی سے بھی مزاحمت یا احتجاج یا درخواست کرے تو اسے دوبارہ لاک اپ میں بند کروا دیتا ہے اور اس قیدی کی تاریخ، کورٹ لاک اپ میں ہی ضایع ہوجاتی ہے اور وہ کورٹ پیش نہیں ہو پاتا۔ اور سارا دن کورٹ پولیس کے اس فرعون کے پنجے میں پھنسا رہتا ہے۔رشوت دے کر قیدیوں کا ٹولہ جب دوسرے رجسٹر میں انٹری کرنے والے دوسرے منشی کے پاس پہنچتا ہے تو واپسی میں پیسے (رشوت) دینے کے وعدے پر کسٹڈی انچارج کا معاون لاک اپ کے آخری مرحلے سے گزرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ عموماً اس مرحلے پر قیدیوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن فی قیدی کم ازکم 100 روپے رشوت، قیدی کو واپسی پر لازمی دینی پڑتی ہے۔

کورٹ لاک اپ میں سب سے احسن مرحلہ، لاک اپ انچارج کے کمرے میں قیدیوں کی درخواست پر مہر لگانے والے عملے کا ہوتا ہے جو نہ تو قیدیوں سے رشوت طلب کرتا ہے اور نہ ہی ان کی درخواستوں پر مہر تصدیق لگانے میں کوئی قابل یا بے جا اعتراضات کرتا ہے۔ ان کے رویے کو دیکھ کر خواہش ابھرتی ہے کہ کاش لاک اپ کے تمام عملے کا رویہ بھی ایسا ہی ہوجائے۔

گیٹ پر زنجیروں پر لگے تالے اور زنجیر نما ہتھکڑی کی مضبوطی جانچنے والے پولیس اہلکار سے چیکنگ کرانے کے بعد قیدی اپنے حفاظتی پولیس اہلکاروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ فی قیدی کم از کم دو سو روپے رشوت دینے پر انھیں جلد از جلد عدالتوں میں لے جاتا ہے۔ پیش کار کے سامنے پیش کرنے کے لیے مزید رشوت، گھر والوں سے ملنے کے لیے مزید رشوت اور کھانا کھانے کے لیے فائیو اسٹار ہوٹل جتنا بل ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔تاہم ان حفاظتی پولیس اہلکاروں کا رویہ نرم خو ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کی نرمی کی وجہ صرف اور صرف رشوت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہوتا ہے۔ بصورت دیگر اگر یہ سختی پر آئیں، جو رشوت نہ ملنے پر آتے ہیں تو سانس لینے پر بھی پابندی عاید کردیتے ہیں۔عدالتی عملہ اپنے حساب کتاب کے مطابق ہی قیدیوں کے کیس شنوائی کے مراحل سے گزارتا ہے۔ طوالت کے سبب، اس حوالے سے کسی دوسرے کالم میں تذکرہ انشا اللہ کروں گا۔

قیدیوں کو لاک اپ واپسی کے بعد ایک بار پھر رشوت کے تندور میں گرنا پڑتا ہے۔ آنے والے قیدیوں کی تلاشی میں، گیٹ کیپر اہلکار فی قیدی کم از کم سو روپے نکال لیتا ہے۔ اگر اس قیدی کے ساتھ منشیات ہو تو اس کے ریٹ منشیات کی مقدار کے مطابق ہوتے ہیں۔ بعدازاں کسٹڈی انچارج، لاک اپ جانے سے پہلے ان قیدیوں سے وصولی مہم کرتا ہے۔ لاک اپ کمرے میں داخلے کے وقت گیٹ پر کھڑے اہلکار کو فی قیدی کم ازکم 50 روپے دیتا ہے۔ لاک اپ میں داخلے سے قبل زنجیر کھولنے والے پولیس اہلکار کو کم ازکم 50 روپے فی قیدی رشوت دینی پڑتی ہے۔ بصورت دیگر وہ زنجیر میں جکڑا اور اس کی جھڑکیاں سنتا رہتا ہے۔ہتھکڑی کھولنے کے بعد لاک اپ میں جانے سے پہلے ایک اہلکار دوبارہ تلاشی لیتا ہے، جس میں اس کی توجہ رقم (رشوت) کا حصول ہوتی ہے جس میں منشیات لانے والوں سے انھیں فی کس قیدی سو روپے سے زیادہ ملتے ہیں۔لاک اپ میں جانے کے بعد جیل جانے کے لیے الگ سے ہتھکڑی لگانے والے کو کم ازکم سو روپے رشوت دینا پڑتی ہے۔ ورنہ اسے گاڑی میں بیٹھنے کے بجائے بدبودار، غلیظ لاک اپ میں گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے۔ جیل گاڑی میں بٹھانے کے لیے منشی لاک اپ ایک بار پھر کم ازکم سو روپے رشوت لیتا ہے۔ ورنہ ایسے قیدیوں کا نمبر آخری میں آتا ہے جو کم رشوت دیں تو انھیں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس کر بھرا جاتا ہے۔ ارباب اختیار قیدیوں کو حقوق دلانے کے بلند و بانگ دعوے نہ جانے کب پورے کریں گے، لیکن سٹی کورٹ کراچی کے لاک اپ میں لوٹ مار کے اس بازار کو ختم کرنے کے لیے انسان نما پولیس اہلکاروں کو تو تعینات کیا جاسکتا ہے۔ جہاں انسان نما پولیس اہلکار قیدیوں کو سونے کی مرغی سمجھنے کے بجائے اور رشوت کے حصول کے لیے انسانیت سوز مظالم کرنے سے باز آسکیں۔ کاش انھیں اس کا احساس ہو جب خود ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں