کورونا وبا دنیا میں بھوک کا شکار لوگوں میں اضافہ

میلینم گولز لکھنے والوں نے دیکھا ہوگا کہ ابھی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگ کا آغاز ہوگیا۔



1974 میں دنیا بھر کے وزرائے خوراک و زراعت کا اجلاس منیلا میں جاری تھا ، جس میں امیر صنعتی ممالک کے نمایندوں کی جانب سے دنیا بھر میں غربت اور بھوک کے خاتمے کے لیے بڑھ چڑھ کر پرجوش تقاریر جاری تھیں کہ غریب ممالک کے اربوں فاقہ کش غریب عوام کی بھوک کا ازالہ کیا جائے۔

اچھا خاصا بحث و مباحثہ ، تقاریر ، تجاویز ، وعدوں کے بعد فاقہ کش عوام کو یہ مژدہ سنا دیا گیا کہ اگلے دس برسوں میں کوئی بچہ بھوکا نہیں سوئے گا ، اس کے بعد دنیا کوکئی بحرانوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بعض اوقات امیر ممالک ان وعدوں کو بھولے بھی رہے یہاں تک کہ صدی کا خاتمہ ہوا ہی تھا کہ اقوام متحدہ نے انگڑائی لی اور ملینیم گولز کے تحت یہ اعلان پھر سے امریکا اور صنعتی ملکوں کے سربراہان کی طرف سے گونجنے لگا کہ غربت اور بھوک کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا گیا ہے اور 2015 تک ہدف کا 50 فیصد حاصل کرلیا جائے گا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غربت اور بھوک کے خلاف شد و مد کے ساتھ جنگ کا آغاز کر دیا جاتا ، لیکن میلینم گولز لکھنے والوں نے دیکھا ہوگا کہ ابھی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگ کا آغاز ہو گیا۔

نائن الیون کے فوری بعد افغانستان پھرعراق اس کے بعد لبنان پھر لیبیا اور شام کچھ عرصے کے بعد کشمیریوں پر گولیوں کی برسات اور اب فلسطین پر آتش و آہن کی بارش کی گونج میں وہ اہداف تو حاصل نہ ہوسکے لہٰذا اب یہ کہا جا رہا ہے کہ 2030 تک اگر اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کو پانا ہے غربت اور بھوک کا خاتمہ کرنا ہے تو مختلف اقدامات فوری اٹھانا ہوں گے جب کہیں جا کر غربت اور بھوک کے خلاف جنگ کامیاب ہوکر رہے گی۔

اب آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے باعث دنیا میں بھوک کا شکار لوگ بڑھ کر ساڑھے پندرہ کروڑ ہوگئے۔ نئی صدی کے آغاز کے ساتھ امیر صنعتی ممالک یا امیر ترقی یافتہ ممالک نے جو وعدہ کیا تھا کہ وہ غریب ممالک کی مدد کرتے ہوئے 2015 تک دنیا سے غربت بھوک کے خاتمے کے لیے کم ازکم 50 فیصد اہداف حاصل کرلیں گے۔

ایک طرف ان 15 سالوں میں غربت بھوک میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی دنیا میں ایسے سیاسی حالات پیدا کر دیے گئے کہ آدھی دنیا کو غربت کے خلاف نہیں بلکہ ایک وحشت ناک خوفناک جنگ میں دھکیل دیا گیا جو اب بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اب 2030 کا جو ہدف دیا گیا معلوم نہیں 2015 کے ہدف کی طرح 2030 کا ہدف دنیا کو کس طرف لے کر جائے گا۔

البتہ اگلے چند برس غریب ممالک کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ترقی پذیر ممالک کے پاس کووڈ 19 سے پید اہونے والے بحران سے نمٹنے کی صلاحیتیں ہیں ہی نہیں۔ امیر ممالک کو ان کے لیے گرانٹس اور رعایتی قرضے وہ بھی اس قسم کے ہوں کہ اگلے 5 برس تک کوئی قسط نہ لی جائے کیونکہ کووڈ 19 نے بھوک کے خلاف جنگ کو انتہائی کمزور کردیا ہے بلکہ غربت و افلاس بے روزگاری وغیرہ میں شدید اضافہ ہوکر رہ گیا ہے۔

مختلف معتبر تحقیقاتی ادارے 2020-21 کے لیے یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ دنیا میں خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مثلاً ایک رپورٹ جوکہ چند دن قبل ہی شایع ہوئی اس کے مطابق دنیا میں تقریباً 2020-21 کے لیے پونے تین ارب ٹن گندم کی پیداوار کی پیش گوئی کی جا رہی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ 2019 کی نسبت 2 فیصد زائد پیداوار ہے۔

روس جوکہ گندم کا اہم پیداواری ملک ہے اس کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت اور یورپی یونین میں گندم کی پیداوار میں اضافے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے چائنا میں بھی گندم کی پیداوار میں اضافے کے امکانات ہیں، شام میں خشک سالی کے باعث پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔

بہرحال جائزوں سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ دنیا میں اس وقت گندم کی کمی کا مسئلہ نہیں ہے اور دیگر خوراکی اشیا کی پیداوار بھی کم نہیں ہوئی۔ بات ہے عالمی منڈی کے ساہوکاروں کی جوکہ قیمت کو کم ہونے نہیں دے رہے۔ حالانکہ کورونا وبا کے باعث عالمی خوراک کی منڈی میں ہر غلے کی قیمت میں کمی لانے کی ضرورت تھی جب کہ پیداوار میں اضافے کے باوجود رسد میں اضافے کے باوجود طلب میں کمی کے باوجود قیمت میں کمی نہ ہونے دینا یہ ایک المیہ ہے۔

غریب ترقی پذیر ممالک اس کورونا زدہ دور میں مہنگی خوراک خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان کی مدد کے لیے آئی ایم ایف کو اپنا پروگرام واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ترقی یافتہ ممالک بھی دنیا بھر کے غریب عوام کے بھوک غربت افلاس بے روزگاری کے خاتمے کے لیے امداد کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر کریں۔

آئی ایم ایف نمایندے کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ممبر ممالک کی فنانسنگ کے لیے رقم بڑھا کر 650 ارب ڈالر کردی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کی طرف سے کم آمدنی والے ملکوں کے لیے یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے ریونیو بڑھانے کے لیے اقدامات کریں ساتھ ساتھ کاروبار کے لیے ماحول کو بہتر بنانا ہوگا، ترقی پذیر ملکوں کو اپنے ہاں اس بات کی طرف توجہ دینا ہوگی کہ وہاں پر کاروباری سرگرمیوں کو اس کورونا زدہ دور میں کس طرح سے بحال فعال اور فروغ دیا جاسکتا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک اپنے ہاں سے خود بھی غربت بھوک افلاس بے روزگاری کا خاتمہ کرسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں