ارکان وفاقی کابینہ اور وزرا ناخوش وزیراعظم کارکردگی کی بنیاد پر قلمدان بدلنے کا پنڈورا باکس نہ کھول سکے

اتحادی جماعتوں اوربعض لیگی وزرااپنے محکموں میں جانے کی زحمت ہی گوارانہیں کرتے،کابینہ کےاجلاسوں میں بھی تشریف نہیں لاتے


فیاض ولانہ January 17, 2014
اتحادی جماعتوں اوربعض لیگی وزرااپنے محکموں میں جانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے ،کابینہ کے اجلاسوں میں بھی تشریف نہیں لاتے. فوٹو: فائل

وزیر اعظم نواز شریف اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس میں کیے گئے عہدکے مطابق کارکردگی کی بنیادپر وزراکے محکموں میں ردوبدل اور ترقیاں و تنزلیاں چاہتے تھے مگروزیر اعظم یہ پنڈوراباکس جمعرات کووفاقی کابینہ میں توسیع کے موقع پرنہ کھول سکے۔

تفصیلات کے مطابق حکومتی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ اورفاٹاارکان کی جانب سے وزیر نوازشریف اوران کی حکومت پرکابینہ میں شمولیت کے مطالبات کی صورت میں مسلسل دبائوڈالاجا رہاتھا،جے یو آئی(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے قومی کشمیرکمیٹی کی چیئرمین شپ حاصل کرنے کے باوجوددبائو کی حکمت عملی کے تحت اسے عملی طور پرفعال کرنے کے کام کاآغاز نہ کیا، جمعرات کوہونے والی کابینہ میں توسیع سے قبل وزیر اعظم نے کابینہ ارکان کی کارکردگی کے بارے میں رپورٹ منگوائی کہ غیرتسلی بخش کارکردگی کے حامل وزراکے قلمدان تبدیل کردیے جائیں توانھیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اگرحکومت بعض وزراکی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو وفاقی کابینہ میں موجودارکان کی ایک بڑی تعداداپنی وزارت سے ہی خوش نہیں،وہ پہلے دن سے ہی کسی اوروزارت کے خواب دیکھ رہے تھے اوران کی ذمے داریاں سنبھالنا چاہتے تھے مگران کی بالواسطہ اوربلاواسطہ پیش کی گئی زبانی عرضداشتوں کونظر انداز کر دیا گیا۔

ایک وزیر توکابینہ کے اجلاس میں شرکت کوہی ضروری نہیں سمجھتے جبکہ2ارکان کابینہ ایسے ہیں جوکئی ماہ گزر جانے کے باوجوداب تک بمشکل دو دوبار اپنی وزارت تشریف لے گئے،اپنی وزارتوں سے ناخوش وزرامیں وزیر مملکت برائے مذہبی امورپیر امین الحسنات نے وزیراعظم نواز شریف کوانتہائی دھیمے انداز میں یہ باورکرایاکہ میرے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں اس وزارت کی ذمے داری سے تو بہترہے کہ مجھے کسی قومی ادارے کاچیئرمین یا ڈی جی لگادیاجائے۔وفاقی وزیر برائے ریاستیں وسرحدی امور عبدالقادر بلوچ بھی اپنے دوستوں کی محفلوں میں کئی بار اپنی ناراضی کابرملا اظہارکرچکے ہیں،کابینہ تشکیل پانے سے پہلے وہ داخلہ اوردفاع کی وزارتوں پرنظریں جمائے بیٹھے تھے۔مسلم لیگ فنکشنل سے تعلق رکھنے والے پیر صدر الدین راشدی وزارت اوورسیز پاکستانیز اورہیومن ریسورس کے بجائے پورٹس اینڈشپنگ کی وزارت چاہتے تھے اورمرضی کی وزارت نہ ملنے پروہ وزارت کے دفاترجاناہی پسند نہیں کرتے،اسلام آبادمیں موجودہوتے ہوئے بھی وہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جاناپسند نہیں کرتے۔

 photo 7_zps953a17fe.jpg

نیشنل پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پرانتخاب جیتنے کے بعد اپنی پارٹی کومسلم لیگ (ن) میں ضم کرنے والے وفاقی وزیرصنعت و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی بھی ناخوش ہیں اورخودکوبے بس محسوس کرتے ہیں۔سابق نگران وزیر اعظم غلام مرتضیٰ جتوئی کے صاحبزادے اپنے سیاسی کیریئرمیں نہیں(No) کا لفظ سننے کے عادی نہیں مگراپنے ماتحت ادارے یوٹیلٹی اسٹورزکارپوریشن میں اپنی منشاکے مطابق ادارے کاسربراہ مقرر یاہٹانے کی خواہش پوری نہ ہونے پروہ مایوس ہیں۔وزیر مملکت برائے ریلوے عبدالحکیم بلوچ کراچی سے منتخب ہونے والے مسلم لیگ(ن)کے واحدرکن قومی اسمبلی ہیں۔وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعدرفیق ایسے متحرک اوردبنگ وزیر کی موجودگی میں وہ خودکوغیر ضروری حکومتی پرزہ سمجھتے ہیں اسی لیے وہ کئی ماہ گزرجانے کے بعدبھی بمشکل چندبار ہی اپنے آفس تشریف لے گئے،وزیر مملکت برائے کیڈ سائرہ افضل تارڑاپنی وزارت کے دائرہ کار سے مطمئن نہیں اوروہ وزیر اعظم کی توجہ اورہدایت سے اپنی وزارت کے دائرہ کارکاازسرنو تعین چاہتی ہیں۔

وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان چاہتی ہیں کہ انھیں وفاقی وزیر قانون بنایاجائے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو انھیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہی وفاقی وزیر بنا دیاجائے البتہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثاراور وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹر پرویز رشیدایسے وزراہیں جن کے بارے میں وزیر اعظم نوازشریف کومختلف اطراف سے ان کے غیردوستانہ رویے اورسخت لب و لہجے کی شکایات موصول ہوئیں مگروزیر اعظم نے وہ تمام مسترد کردیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثارکے بارے میں امریکی وبرطانوی سفارت کاروں نے ملاقات کیلیے وقت نہ دینے کے شکوے کیے جبکہ سیکریٹری دفاع اورقانون نافذ کرنے والے بعض اداروں کے سربراہوں کویہ شکایت ہے کہ وزیر داخلہ نے انھیں اپنے دفترسے یہ کہہ کرواپس بھجوادیاکہ آپ کی ملاقات کا وقت پہلے سے طے نہ تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔