سلیم راز کا اقبال بلند
کمیونسٹ نظریئے کی بقا اور فروغ میں اقبال علوی نے نقصان کی پرواہ کیئے بغیر نظریاتی نکتہ نظر رکھا۔
دل بھر آتا ہے جب خیبر پختونخوا میں کمیونسٹ سیاسی شعور کی آبیاری کرنے والے سلیم راز اور کراچی میں مزدور،طلبہ اور اہل دانش میں کمیونسٹ نظریئے کی جوت جگانے والے اقبال علوی کا پرسہ دینے کے لیے نمناک آنکھیں امام علی نازش کو تلاش کرتی ہیں۔
یہ وہی امام علی نازش ہیں جنھوں نے اپنا گھر بار،دولت جائیداد ٹھکرائی اور کمیونسٹ نظریئے کے عظیم آدرش اور انسانی جمہوری سیاسی آزادی و شعور کے لیے خود کو وقف کردیا،سب کے غم گسار رہے اور ترکے میں کمیونسٹ نظریہ اور انسانی آزادی کی جدوجہد چھوڑ گئے،نازش کے دیے ہوئے نظریئے کو ہر مصائب میں بھی سلیم راز اور اقبال علوی نے پروان چڑھائے رکھا،آج نہ نازش ہیں نہ ان کے راز رکھنے والا سلیم راز اور نہ ہی ان کے نظریئے کے اقبال بلند کرنے والا اقبال علوی۔
مجھے انیس سو ستاسی کے اس زمانے کا وہ دور یاد ہے،جب ہر سو جبر اور آمر ضیا الحق کے خونین پنجے سماج کی روشن خیال سوچ کی شہ رگ پر تنگ نظر نظریئے کی آڑ میں گاڑے جا رہے تھے۔ترقی پسند و جمہوری قوتوں کی یکجائی کی وجہ سے قہر کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے تھے،یہ بھی سب نے دیکھا کہ ضیائی قابض حکومتی ٹولہ عدل و انصاف کا اسلامی ڈھونگ رچا کر انسانی آزادی کے پروانوں کو سر عام کوڑے مار کر ملک کو مصر کے بازار میں تبدیل کر رہا تھا۔
ضیا الحق کے آمرانہ دور میں انسانی حقوق کی پامالی اور عوام کے جمہوری حقوق سلب کی جانے والی دگرگوں صورتحال کا حل نکالنے کے لیے پنجابی زبان کے ادیب فخر زمان کی دعوت پر سلیم راز،حمید اختر،ظہیر کاشمیری،عبدالرئوف ملک،افضل رندھاوا، افضل توصیف،زاہدہ حنا،شوکت صدیقی سمیت ن م دانش،اسرار شاکی،نور محمد شیخ اور ہر زبان کے نوجوان شاعر وادیب لاہور میں جمع ہوئے،سینیئرز اور جونیئرز کے تعارف اور ان کے فاصلوں کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی جب کہ تمام زبانوں کے ادیبوں کی اس ''لاہوری منڈلی''نے طے کیا کہ ملک کے ادیب اپنی تحاریر سے ضیا کی آمریت کا مقابلہ کریں گے اور ملک میں کم از کم جمہوریت کی بالادستی کی جنگ میں قلم کا بھرپورحصہ ڈالیں گے اور اظہار کی پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
اس فکر کو توانا بنانے میں سلیم راز کو میں نے بہت متحرک پایا اور ہم نوجوان دوست جو کراچی سے جاتے وقت انجمن ترقی پسند مصنفین کے احیا کا سوچ کر گئے تھے،سب نے سلیم راز سے ملنے کا فیصلہ کیا،یہ ہماری سلیم راز سے پہلی ملاقات تھی جو ایک پشتون ادیب کے طور ہوئی،سلیم راز نے انجمن کے احیا کی کوششوں میں بھرپور تعاون کیا اور اس طرح ہم دوستوں کا لاہور میں تمام سینیئرز کے سامنے اپنا موقف رکھنے کا یہ کامیاب مشن ثابت ہوا،جس نے انجمن کو ملکی سطح پر نہ صرف مضبوط کیا بلکہ انجمن،تنظیم سازی میں سینیئرز اور جونیئرز کی مثالی ہم آہنگی کا ایک اہم ذریعہ بنی۔
میں اس وقت کمیونسٹ پارٹی میں متحرک تھا مگر سلیم راز کو بحیثیت ادیب ہی جانتا تھا،مجھے بالکل علم نہ تھا کہ سلیم راز کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے رکن تھے،یہ انکشاف مجھے کوئٹہ میں اس وقت ہوا جب میری ڈیوٹی لگائی گئی کہ میں امام علی نازش کو کوئٹہ لے کر جائوں اور میٹنگ کے بعد بحفاظت امام علی نازش کو واپس کراچی لائوں،ہم اور نازش صاحب پروفیسر بہادر بلوچ کے گھر ٹہرے ہوئے تھے کہ اچانک دیکھا کہ صبح سلیم راز اور پروفیسر جمال دینی نازش صاحب سے ملنے آگئے،میں سلیم راز کو فوری پہچان گیا جب کہ جمالدینی صاحب سے میرا تعارف کروایا گیا،میں اس دم حیرت و استعجاب کی تصویر بنے سلیم راز کے متعلق سوچ رہا تھا کہ اس پشتون ادیب کو نازش صاحب سے ملنے اور پشاور سے یہاں آنے کی کیا ضرورت پیش آئی۔
تھوڑی دیر بعد جب یہ دونوں احباب چلے گئے تو میں نے نازش صاحب سے کہا کہ یہ سلیم راز یہاں کیسے آئے، نازش صاحب نے کہا کہ پارٹی میٹنگ میں... میرے۔ ۔ جی... کے استعجاب بھرے لہجے کو دیکھ کر نازش صاحب نے کہا کہ ''بھئی راز صاحب کمیونسٹ پارٹی کی سینٹر کمیٹی کے رکن ہیں۔''
میری موجودگی میں پہلی پشتو کانفرنس جو پشاور کے نشتر ہال میں ہوئی کہ اعلامیئے میں خطے میں ترقی پسند ادب کی ترویج کا برملا اعادہ کیا گیااور ایک کامیاب کانفرنس کی گئی،سلیم راز سے میرے ذاتی تعلق کی بنیاد کمیونسٹ نظریہ انجمن اور پارٹی رہی،اور ہمارا یہ رشتہ آخر دم تک نظریاتی بنیادوں پر قائم رہا،سلیم راز نے پشتو ادب کی تاریخ سمیت متعدد موضوعات پر کتابیں تصنیف کیں، جن کے ترجموں کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
اب چلتے ہیں اس ابتدائی دور کی طرف کہ جس دور میں طاقتور اشرافیہ اپنے خونین پنجے سماج کی سیاسی، معاشی اور سماجی تحریک میں گاڑنے کا کام ریاستی طاقت اور تنگ نظر سرمایہ دارانہ نظام کی آڑ میں کر رہی تھی،یہ جنرل ایوب کا وہ آمرانہ دور تھا جس میں ریاستی بیانیے کے مخالف افراد کو ''غداری'' کے سرٹیفکیٹ بانٹے جا رہے تھے،جب کہ پوری دنیا کے عوام اپنے ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب ذریعے ایک بہتر اور انصاف بر مبنی معاشرہ بنانے کی جدوجہد میں جتے ہوئے تھے۔
کمیونسٹ پارٹی نے جب صنعتی شہر کراچی میں مزدور ٹریڈ یونین کی بنیاد رکھی اور سماج کے تمام طبقوں کو جوڑ کر جدوجہد کا راستہ دکھایا تو نوجوان اقبال علوی کمیونسٹ نظریئے کے وہ پیروکار بنے کہ پی آئی اے کی ٹریڈ یونین کی تنظیم سازی سے لے کر شہر کی دیگر ترقی پسند فکر کی تنظیموں کے مددگار اور نظریاتی محافظ ٹہرے،اقبال علوی نے ایوبی مارشل لا کی پرواہ کیے بغیر نظریاتی جدوجہد میں دامے ،درمے، سخنے اپنا حصہ ڈالا اور تمام تر صحت کے مسائل باوجود وہ کمیونسٹ نظریئے کی پرچارک کے وہ سپاہی بنے جن کی موجودگی تنظیمی محفل کا حوصلہ بنی رہی۔
کمیونسٹ نظریئے کی بقا اور فروغ میں اقبال علوی نے نقصان کی پرواہ کیئے بغیر نظریاتی نکتہ نظر رکھا اور کبھی اپنے نکتہ نظر پر سمجھوتہ نہ کیا،نظریئے کی سچائی کے ضمن میں اقبال علوی ہمیشہ ڈٹ کر کھڑے رہنے والوں کی وہ مشعل راہ تھے جنھوں نے اپنے نظریاتی دیے سے نجانے کتنے چراغ روشن کیے اور کبھی روشنی کی چکا چوند میں خود کو گم نہیں کیا،طلبہ تحریک کے ساتھی ہوں،ٹریڈ یونین تحریک دوست ہوں ادیب و صحافی ہوں،اقبال علوی ہر ایک کے غم گسار اور اس کی مدد کے لیے تیار و کامران رہتے تھے،وہ کمیونسٹ رہنما امام علی نازش کی فکر کے وہ سپاہی تھے جنھوں نے کسی بھی تحریکی عمل میں اپنی مجبوری اور بیماری کو سہارا نہیں بنایا۔
سوچتا ہوں کہ اقبال علوی کی ہر محفل میں گونجنے والی آواز''او نوجوان کامریڈ،یو آر آور پرائوڈ''کیسے سن پاؤں گا،اقبال علوی کے نظریاتی دوست احباب اپنی تنہائی کس سے بانٹیں گے،اس ارتقا کے سارے راز سے واقف شخص سے مٹی کیسے اپنے راز چھپا پآئے گی،کیونکہ سچ کے کھوجی سے کوئی چیز چھپانا اتنا آسان نہیں،اور یہ اس وقت مشکل ہوجاتا جب وہ کمیونسٹ سماج کے قیام کی تعبیر پانے میں بیقرار اقبال علوی ہوں۔