جنگ بندی کے بعد
پاکستان، ایران اور ترکی نے حکومتی سطح پر اسرائیلی بمباری کی کھل کر مذمت کی اور سفارتی سطح پر بھی بھرپور کوششیں کیں۔
مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل کا وجود ہے جو مسلم امہ کے سینے میں ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی اور نہتے فلسطینیوں اور لبنانیوں کے خلاف وقفے وقفے سے وحشیانہ جارحیت اور ننگی بربریت کا ارتکاب دراصل پوری عرب دنیا پر قابض ہونے اور ''گریٹر اسرائیل'' منصوبے کو عملی شکل دینے کا صہیونی قوت کا ایک ایسا خوفناک منصوبہ ہے کہ اگر آج امت مسلمہ نے اختلافات بھلا کر اور مفادات کو بالائے طاق رکھ کر پوری طرح متحد و متفق ہوکر اس یہودی سازش کا مقابلہ کرنے اور اس کا منہ توڑ جواب دینے کی سنجیدہ کوششیں نہ کیں تو مرگ مفاجات کی صورت میں جرم ضعیفی کی سزا ایک ایک کرکے تمام مسلم ملکوں کا مقدر بن سکتی ہے۔
ان مسلمان ممالک کے لیے یہ لمحہ فکریہ جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرچکے ہیں اور جو اس سے تعلقات استوار کرنے کے ارادے باندھ رہے ہیں۔ پاکستان نے فکری و نظریاتی اختلافات سے قطع نظر ہر مسلمان ملک کے خلاف کسی بھی قسم کی ریاستی دہشت گردی اور جارحیت کی نہ صرف یہ کہ ہمیشہ مخالفت کی بلکہ حکومتی اور عوامی ہر دو سطح پر بھرپور صدائے احتجاج بھی بلند کی۔
فلسطین کے مسئلے پر تو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی فلسطینی مسلمانوں کے موقف کی بھرپور تائید و حمایت کی تھی بعینہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بھی قائد واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ یہ پاکستان کی شہ رگ ہے۔ جارحیت کا نشانہ بننے والے فلسطین و کشمیر کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے محض رسمی احتجاج اور زبانی کلامی دعوؤں سے اب کام نہیں چلے گا بلکہ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ جارحیت کا شکار ہر مسلم خطے کی بقا کے لیے میدان عمل میں نکل کر ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
دامے، درمے، سخنے، قدمے ہر طرح سے ان کی مدد و معاونت کرنا ہوگی۔ نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی مسلم حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمان جسد واحد کی مانند ہے اور اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم متاثر ہوتا ہے۔
ذرا 2006 کا وہ وقت ، زمانہ یاد کیجیے جب بیروت میں عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس میں لبنان کے وزیر اعظم پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے اور مسلم حکمرانوں سے اپیل کی تھی کہ ان کے ملک کو اسرائیل کی سفاکی، جارحیت اور بربریت سے بچایا جائے۔ انھوں نے آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا تھا کہ اسرائیل لبنان کے عوام کا قتل عام کر رہا ہے، ہم اپنے موقف کی بنیاد بیوہ عورتوں، شہید بچوں، ہزاروں زخمیوں اور بے گھر ہونے والے افراد کے دکھوں پر مرہم رکھ رہے ہیں۔
اس جارحیت نے ہمارے ملک کو کئی عشرے پیچھے دھکیل دیا ہے، اسرائیل نے پورے لبنان کا انفرااسٹرکچر پلوں، سڑکوں، اسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی علاقوں کو تباہ کرنے کے علاوہ اقوام متحدہ اور عرب بھائیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے امدادی قافلوں کو بھی انتقامی کارروائی کے طور پر نشانہ بنایا۔ لبنانی وزیر اعظم نے وزرائے خارجہ سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ہمارے ساتھ کھڑے ہونا آپ کی ذمے داری ہے۔
عرب ممالک کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہیے لیکن افسوس کہ مسلم ملکوں کا اتحاد او آئی سی آج غیر موثر ہو چکا ہے۔آج تقریباً ڈیڑھ عشرے بعد کم و بیش اسی قسم کی صورتحال کا فلسطین کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس کا دل بھی آنسوؤں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اسرائیل کے جنونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے 11 روز تک ریاستی دہشت گردی کے ذریعے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔
اسرائیلی درندگی کا آغاز رمضان المبارک کے 27 ویںروزے کو ہوا جب فلسطینی مسلمان مسجد اقصیٰ میں عبادت میں مصروف تھے تو اسرائیلی فوجیوں نے ان پر وحشیانہ مظالم ڈھاتے ہوئے قبلہ اول کے تقدس کو پامال کردیا۔ پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا اور غزہ پر اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے آگ کے شعلے بلند ہوتے رہے۔
البتہ پاکستان، ایران اور ترکی نے حکومتی سطح پر اسرائیلی بمباری کی کھل کر مذمت کی اور سفارتی سطح پر بھی بھرپور کوششیں کیں۔ اس ضمن میں وزیر اعظم عمران خان اور ترکی کے صدر طیب اردگان کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے غزہ میں بین الاقوامی پروٹیکشن فورسز کی تعیناتی کا دو ٹوک الفاظ میں مطالبہ کیا۔
پاکستان سمیت امریکا، برطانیہ، فرانس، اسکاٹ لینڈ و دیگر ممالک میں عوامی سطح پر ہونے والے بھرپور احتجاج اور عالمی دباؤ کے باعث امن کے رکھوالوں کو کچھ ہوش آیا اور11 روز کی مجرمانہ خاموشی کے بعد غزہ میں اسرائیلی غنڈوں کی جانب سے آگ و خون کی ہولی کے کھیل کو روکنے کے لیے جنگ بندی کا سامان کیا گیا۔
جمعے کو فلسطینی عوام جنگ بندی کے خاتمے پر یوم تشکر منانے سڑکوں پر نکلے اور مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے پہنچے تو جنگ بندی کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی اسرائیل نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نمازیوں پر ایک مرتبہ پھر مظالم کا سلسلہ شروع کردیا۔
صہیونی نفرت کے اس اظہار کے بعد یقین سے کہنا مشکل ہے کہ اسرائیل و حمایت جنگ بندی کا تازہ معاہدہ اپنی سیاہی خشک ہونے تک قائم رہ بھی سکے گا یا پھر ماضی کی طرح ایک بار پھر جنگ بندی کا یہ کاغذی ضامن جنونی اسرائیل کے بارود میں جل کر راکھ ہو جائے گا یا فلسطینیوں کے لہو میں ڈوب کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا ذریعہ بنے گا۔ سوال یہ ہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ میں جس انسانی المیے نے جنم لیا ہے اس کا حساب کون دے گا؟
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا یہ کہنا ہے کہ ''اگر زمین پر کوئی جہنم ہے تو وہ غزہ میں رہنے والے بچوں کی زندگی ہے'' کافی نہیں بلکہ انھیں اپنے عالمی ادارے کی لاج رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق فلسطین کے دو ریاستی حل پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اپنا مثبت و تعمیری کردار ادا کریں۔ نہ صرف یہ بلکہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا بھی انھیں سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے۔
اس ضمن میں بھی ادارہ ہٰذا کی قراردادیں عمل درآمد کی منتظر ہیں پاکستان طویل عرصے سے یہ مطالبہ کرتا چلا آ رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کا حل تلاش کیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ عالمی طاقتیں اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق تو تنازعات کے حل میں دیر نہیں لگاتی۔ مشرقی تیمور کی آزادی اس کی زندہ مثال ہے لیکن جہاں ان کے مفادات کا گزر نہیں ہوتا وہاں یہ لمبی تان کر سو جاتی ہیں۔ یہ دو عملی پالیسی کسی بڑے انسانی المیے اور تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
توقع کی جانی چاہیے کہ فلسطین میں جنگ بندی کے بعد اقوام متحدہ کا ادارہ اپنی ذمے داریوں اور فرائض منصبی کا احساس کرتے ہوئے کشمیر و فلسطین کے دیرینہ تنازعات کا قابل قبول حل تلاش کرنے کے لیے سنجیدہ عملی قدم اٹھائے گا۔