شہباز شریف کی سفیروں سے ملاقاتیں۔ کیوں

حکومت آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ شہباز شریف کا کیا کریں۔ اگر جیل میں رکھیں تو مزاحمتی بیانیہ چھا جاتا ہے۔


[email protected]

شہباز شریف کو لندن جانے سے روکنے کی حکومتی کوشش جاری ہے۔ مقدمات عدالتوں میں پہنچ گئے ہیں اور شہباز شریف بھی اس معاملے کو عدالتوں سے ہی حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سیاست کے محاذ کو ایک حکمت عملی کے تحت استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ تا ہم شہباز شریف نے لندن جانے کی تاخیر کی بنا پر ملک کے اندر سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔

شہباز شریف کی سیاسی سرگرمیاں بھی حکومت کے لیے ان کے لندن جانے سے زیادہ درد سر بن رہی ہیں۔ ایسی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ حکومت یہ بھی سوچ رہی ہے کہ اس سے بہتر تھا شہباز شریف کو لندن جانے ہی دیا جاتا۔ تا ہم اب حکومت بھی اتنا آگے جا چکی ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے یہ لڑائی اب عدالتوں میں ہی طے ہو گی۔

شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ سے حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست واپس لے لی ہے۔ یہ ایک قانونی حکمت عملی ہے۔اس سے حکومت نے بھی سپریم کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف جو اپیل دائر کی ہوئی تھی وہ بے اثر ہو گئی ہے۔ کیونکہ شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں آنے کے بعد اب لاہور ہائی کورٹ کے بلیک لسٹ کے حوالے سے فیصلہ کی وہ اہمیت نہیں رہی جسکی وجہ سے حکومت نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

اب حکومت کا کیس بھی ای سی ایل کے حوالہ سے ہے جب کہ شہباز شریف کو بھی ای سی ایل میں نام نکلوانے کے لیے ایک نئی قانونی جنگ لڑنی ہے۔ ویسے کہیں نہ کہیں حکومت کو اندازہ ہے کہ شہباز شریف نے لندن سے واپس آہی جانا تھا۔ اس لیے روکنے کی بلا وجہ ہی کوشش کی جا رہی ہے۔ شائد یہ ایک سیاسی اسٹنٹ سے زیادہ کچھ نہیں ۔

لندن نہ جانے کی وجہ سے شہباز شریف نے پاکستان میں باقاعدہ سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سفیروں سے شہباز شریف کی ملاقاتوں نے اقتدار کے ایوانوں میں خطرہ کی گھنٹیاں بجائی ہیں۔ بالخصوص لندن، کینیڈااور چین کے سفیروں سے ملاقاتوں نے حکومت کو بہت پریشان کیا ہے۔ سفیروں سے ملاقاتیں ایک پیغام دے رہی ہیں کہ بین الاقوامی قوتیں آج بھی شہباز شریف کو پاکستان میں ایک متبادل کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔

ان کی رائے میں شہباز شریف کی سیاسی اننگ ابھی باقی ہے۔ اس لیے وہ ان سے مل رہے ہیں۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ جس طرح اہم ممالک کے سفیر شہباز شریف سے مل رہے ہیں۔ اس طرح تو ان سفیروں کو گزشتہ تین سال میں ہم نے کسی بھی اپوزیشن رہنما کو ملتے نہیں دیکھا ہے۔ صرف شہباز شریف سے یہ ملاقاتیں ایک نیا پیغام دے رہی ہیں جس کو پاکستان میں اقتدار کا کھیل کھیلنے والے حلقے غور سے سن رہے ہیں۔

کیا ہمیں اندازہ نہیں کہ کوئی بھی سفیر اپنے ملک کی وزارت خارجہ کی منظوری کے بغیر کوئی ملاقات نہیں کرتا۔ ایسا نہیں کہ سفیر اپنی مرضی سے جس سے چاہیں مل لیں۔ ہر سفیر کسی سے بھی ملاقات کرنے سے پہلے اپنے ملک میں وزارت خارجہ سے اجازت لیتا ہے۔ ایسی ملاقاتوں کے مثبت اور منفی پہلوئوں کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔ ایسی ملاقاتوں کا ایجنڈہ بھی طے ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ایسے ہی ملاقات ہو گئی۔

قائد حزب اختلاف اور وہ بھی ایسے قائد حزب اختلاف ، حکومت جس کی جان کی دشمن ہو اس سے ملاقات ایک اہم فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سفیر اپوزیشن کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں ۔ لیکن وہاں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اس طرح جنگ نہیں ہوتی۔ جمہوریت میں اپوزیشن اور حکومت مل کر ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپوزیشن کو مائنس کرنے اور ان کا سیاسی کردار ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔

جس طرح اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف کیس بنائے گئے ہیں اور بالخصوص قائد حزب اختلاف کو جیل میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ شہباز شریف کو ایک دفعہ نہیں دو دفعہ گرفتار کیا گیا۔ اور اب ضمانت پر حکومت جس طرح غصہ میں ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ تیسری دفعہ گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان گرفتاریوں کی وجہ سے شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا آئینی کردار ادا نہیں کر سکے ہیں۔

حکومت بالخصوص اسپیکر نے دوسری گرفتاری میں ان کا ایک بھی پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا۔ اس طرح وہ قومی اسمبلی کے ایک بھی اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے ہیں۔ اس لیے اس ماحول میں سفیروں کی شہباز شریف سے ملاقاتوں کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس سے پہلے ہم نے دیکھا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور شہباز شریف کے فرزند حمزہ شہباز جب جیل سے رہا ہوئے تو لاہور میں تعینات امریکی قونصل جنرل نے ان سے ملاقات کی تھی تاہم حکومتی وزیروں نے اس ملاقات کے خلاف بیان بازی شروع کر دی تھی۔ حالانکہ وہ مکمل سفیر بھی نہیں تھے۔ لیکن حکومت کو علم ہے کہ قونصل جنرل نے بھی اسلام آباد میں اپنے سفارت خانہ کی اجازت کے بغیر ملاقات نہیں کی تھی۔ اس لیے وہ بھی حکومت کو پسند نہیں آئی تھی۔اس لیے شہباز شریف کی سفیروں سے ملاقاتوں پر ملاقاتیں حکومت کوکیسے پسند آسکتی ہیں۔

شہباز شریف سے ملاقات کے بعد چین کے سفیر نے جس طرح ٹوئٹ کیا ہے وہ بھی غیر معمولی ہے۔ اس کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چین اور شہباز شریف کے درمیان دیرینہ تعلقات کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ سی پیک کے لیے جس طرح شہباز شریف نے کام کیا ہے اس کو چین میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ چین سی پیک کی کامیابی میں آج بھی شہباز شریف کے کردار کو اہمیت دیتا ہے۔

لاہور کے قونصل جنرل کی جب مدت ملازمت ختم ہوئی تھی تب بھی وہ جاتے ہوئے شہباز شریف کے لیے ایک تعریفی خط چھوڑ کر گئے تھے۔ حالانکہ شہباز شریف اس وقت جیل میں تھے وہ ان سے مل نہیں سکتے تھے۔ اس خط کو بھی سفارتی حلقوں میں بہت اہمیت دی گئی تھی کیونکہ جیل میں قید رہنما کے لیے ایسا خط غیر معمولی ہی سمجھا جاتا ہے۔

شہباز شریف سے نیپال کے سفیر نے بھی ملاقات کی ہے۔ بظاہر نیپال ایک غیر اہم ملک ہے۔ لیکن سارک کے تناظر میں نیپال کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ نیپالی سفیر اور شہباز شریف کے درمیان ملاقات میں سارک دوبارہ فعال کرنے کا اعادہ ہوا۔ جس کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ پاکستان سارک دوبارہ فعال کرنے کی بہت کوشش کر رہا ہے۔

ایسا لگ رہا ہے کہ نیپال اس کے لیے تیار ہے۔فلسطین کے بحران میں بھی شہباز شریف کا کردار ابھر کر سامنے آیا ہے۔ وہ اکیلے فلسطین کے سفارت خانہ جانے والے پہلے اپوزیشن رہنما تھے۔ بعد میں وہ اپوزیشن کا ایک مشترکہ وفد لے کر بھی فلسطینی سفارتخانہ گئے۔ ان کی قومی اسمبلی میں تقریر کو بھی غیر معمولی اہمیت دی گئی۔

کیا سفیروں کی شہباز شریف سے ملاقاتیں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اقوام عالم بھی شہباز شریف کو پاکستان میں موجودہ حکومت کے متبادل کے طور پر ہی دیکھتے ہیں۔کیا تمام تر مقدمات کے باوجود شہباز شریف متبادل ہیں۔ یہ سوال حکومت کے لیے پریشان کن ہے۔ اس لیے دیکھا جائے تو شہباز شریف کو لندن جانے سے روکنے کی حکومتی حکمت عملی سیاسی طور پر کوئی درست ثابت نہیں ہوئی ہے۔ پی ڈی ایم بھی دوبارہ فعال ہو رہی ہے۔

اگر شہباز شریف لندن چلے جاتے تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ اسی لیے حکومت آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ شہباز شریف کا کیا کریں۔ اگر جیل میں رکھیں تو مزاحمتی بیانیہ چھا جاتا ہے۔ اگر باہر نکالیں تو حکومت کے لیے خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لندن چلے جائیں تو حکومت کے لیے مشکل، نہ جانے دیں تو اور مشکل۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں