پہلے حریف کو سمجھو پھر کچھ سوچو  حصہ اول

سمجھنے کے لیے پڑھنا ضروری ہے اور اس سے بھی اہم یہ کہ کیا پڑھنا اور کیا نہیں پڑھنا۔


Wasat Ullah Khan May 25, 2021

لاہور: جو لوگ فلسطینیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں ان پر لازم ہے کہ بنیادی مسئلے کو سمجھیں۔ سمجھنے کے لیے پڑھنا ضروری ہے اور اس سے بھی اہم یہ کہ کیا پڑھنا اور کیا نہیں پڑھنا۔

جب تک ہم اس خلطِ مبحث میں الجھے رہیں کہ اصل جھگڑا فلسطینیوں اور صیہونی نظریے کی پیداوار اسرائیلی ریاست کا ہے یا مسلمانوں اور یہودیوں کا مذہبی جھگڑا ہے۔زمینی ملکیت کا جھگڑا ہے یا نسلی مناقشہ ہے ۔تب تک ہم وہم و گمان کے خلا میں ہی معلق رہیں گے۔اور آدمی معلق ہو کہ اس کی سوچ۔ وہ نہ اپنے لیے کارآمد ہے نہ ہی کسی اور کے لیے فائدہ مند۔

مجھے اس بارے میں کسی کو زبردستی قائل کرنے سے قطعاً دلچسپی نہیں۔آپ کا کوئی بھی زاویہ نگاہ ہو۔بہتر ہے کہ اسے اعداد و شمار کی کسوٹی پر پرکھ کر ہی اپنائیے۔تاکہ آپ کا موقف ایک باخبر و خواندہ و زندہ موقف ہو نہ کہ کسی سے ادھار لیا گیا نقطہِ نظر۔

پچھلے تیرہ برس میں اسرائیل اور غزہ پر حکمران حماس کے درمیان چار بڑی لڑائیاں ہو چکی ہیں۔اگر ریاستِ اسرائیل ، غزہ اور غربِ اردن کے مقبوضہ علاقے کی آبادی کو جمع کیا جائے تو ان تینوں خطوں میں مجموعی طور پر اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی آبادی یکساں ہے۔یعنی اڑسٹھ لاکھ فلسطینی عرب اور اڑسٹھ لاکھ یہودی آباد کار۔

( میں فلسطینی عرب کی اصطلاح یوں برت رہا ہوں کیونکہ اس تعریف میں نہ صرف فلسطینی مسلمان بلکہ صدیوں سے بسنے والے فلسطینی مسیحی بھی شامل ہیں۔ اور قبضے کے خلاف جدوجہد میں دونوں کا کردار اہم ہے۔جب کہ یہودی کی اصطلاح اس لیے استعمال کر رہا ہوں کیونکہ ریاستِ اسرائیل کے آئین کے تحت یہ ریاست صرف یہودیوں کا ہوم لینڈ ہے۔اس میں آباد دیگر قومیتیں بھی اس کی شہری ہیں مگر ترجیحی گروہ یہود ہی ہیں ۔)

ریاستِ اسرائیل میں اس وقت اٹھاون لاکھ یہودی شہری اور سولہ لاکھ فلسطینی عرب شہری بستیہیں۔جب کہ مقبوضہ غربِ اردن ( مغربی کنارہ ) میں فلسطینی عربوں کی آبادی ستائیس لاکھ اور اسرائیلی آبادکاروں کی آبادی چار لاکھ چونسٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہودی آبادکاروں کی اکثریت انیس سو سڑسٹھ کی پانچ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں ہونے والے قبضے کے بعد وہاں منصوبہ بند طریقے سے بسائی جا رہی ہے ۔

مقبوضہ غربِ اردن کا قلب یروشلم ( بیت المقدس) ہے۔اس کے ایک حصے (مغربی یروشلم) کو ریاستِ اسرائیل نے وجود میں آتے ہی قبضہ کر کے اپنے میں ضم کر لیا۔جب کہ دوسرے حصے ( مشرقی یروشلم ) پر انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے دوران قبضہ کیا گیا۔مسجدِ اقصی اور ہیکلِ سلیمانی کی دیوارِ گریہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے۔

اسرائیل متحدہ یروشلم کو ریاستِ اسرائیل کا تاریخی دارالحکومت قرار دیتا ہے جب کہ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت کہتے ہیں۔اس بعد المشرقین موقف کے ہوتے فریقین کے درمیان کسی بھی ممکنہ حتمی سمجھوتے اور دو ریاستی حل کی صورت میں یروشلم کی ملکیت کا فیصلہ کیسے ہوگا ؟ فی الحال اس پر بات کرنا ٹیڑھی کھیر ہے۔

البتہ اسرائیل نے یروشلم پر اپنا دعویٰ مستحکم کرنے کے لیے شہری حدود کو آبادکار بستیوں سے گھیرنے کی پالیسی کبھی نہیں روکی۔یہ پالیسی انیس سو تہتر میں اختیار کی گئی اور اس کا مقصد یروشلم کی حدود میں بتدریج اسرائیلی آبادکاروں کی اکثریت ستر فیصد تک لے جانا اور فلسطینی عرب اکثریت کو اقلیت میں بدل کر تیس فیصد تک لانا ہے۔اب تک ایک لاکھ چالیس ہزار فلسطینوں کو مختلف قانونی حیلوں اور بزور یروشلم سے نکالا جا چکا ہے۔ کنکریٹ کی آٹھ میٹر بلند دیوار یروشلم کو تقسیم کرتی ہوئی مغربی کنارے کے دیگر مقبوضہ قصبوں تک فلسطینی کھیتوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہوئی چلتی چلی گئی ہے۔

انیس سو اسی میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے قانونِ یروشلم منظور کیا جس کے تحت یروشلم ایک متحدہ ناقابلِ تقسیم شہر اور اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔یہ اقدام اس وعدے کے باوجود کیا گیا کہ حتمی تصفیہ ہونے تک بین الاقوامی قوانین کے تحت یروشلم اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام رہے گا۔

پچھلے چون برس کے دوران اسرائیلی ریاست نے پارلیمنٹ اور وزارتی دفاتر تل ابیب سے مغربی یروشلم منتقل کر دیے ہیں۔ امریکا سمیت لگ بھگ ساٹھ ممالک بھی اپنے سفارت خانے تل ابیب سے مغربی یروشلم منتقل کر چکے ہیں۔اقوامِ متحدہ سمیت کئی ادارے اور ان کے بیشتر رکن ممالک مشرقی یروشلم کو مقبوضہ علاقہ سمجھتے ہیں اور مقبوضہ علاقے میں اسرائیلی آباد کار بستیوں کی تعمیر کو ناجائز تسلیم کرتے ہوئے ان کا قانونی مستقبل ممکنہ دو ریاستی حل سے جوڑتے ہیں۔

اس وقت مغربی یروشلم میں یہودی آبادی ساڑھے تین لاکھ اور فلسطینی عرب آبادی ساڑھے چار ہزار ہے۔ جب کہ مشرقی یروشلم میں فلسطینی آبادی تین لاکھ پینتالیس ہزار اوریہودی آباد کاروں کی تعداد دو لاکھ بیس ہزار ہے۔ اسرائیل کا تازہ ہدف یہ ہے کہ مختلف امتیازی قوانین ، دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں اور پولیس کی مدد سے مشرقی یروشلم کے فلسطینی اکثریتی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کو زیادہ سے زیادہ بسایا جائے تاکہ اگلے چند برس میں مشرقی یروشلم میں اگر یہودی اکثریت نہ بھی ہو تو کم ازکم نصف آبادی یہودی ہو تاکہ کسی بھی دو ریاستی حل کی صورت میں یروشلم کا کوئی بھی حصہ اس کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔پچھلے ماہ مشرقی یروشلم کے پرانے محلے شیخ جراح سے چھ فلسطینی عرب خاندانوں کی ایک عدالتی حکم کے سائے میں جبری بے دخلی اس کی تازہ ترین مثال ہے۔

غزہ میں دو ہزار پانچ تک اکیس یہودی بستیوں میں آٹھ ہزار آبادکار تھے۔غزہ کو فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے اور اسرائیلی فوجی انخلا کے سمجھوتے کے تحت وزیرِ اعظم ایریل شیرون نے ان بستیوں کو ہٹانے کا حکم دیا اور فی خاندان دو لاکھ ڈالر معاوضہ دے کر یہودی آبادکاروں کو اسرائیل میں بسایا گیا۔

اس وقت غزہ کی سو فیصد آبادی ( اکیس لاکھ ) فلسطینی عربوں پر مشتمل ہے۔ان میں سے ستر فیصد پناہ گزین یا ان کی اولاد ہیں۔غزہ شہر کے نواح میں آٹھ پناہ گزین کیمپوں میں چودہ لاکھ انسان بستے ہیں۔بظاہر اسرائیل کا غزہ پر غربِ اردن کی طرح براہِ راست قبضہ نہیں ہے۔البتہ غزہ کے اندر کوئی بھی شے اسرائیل کی اجازت کے بغیر نہیں لائی جا سکتی۔دو ہزار آٹھ سے اس کی بحری، فضائی اور بری حدود اسرائیلی کنٹرول میں ہیں۔

اسی لیے غزہ کو تین سو پینسٹھ مربع کلو میٹر رقبے پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے۔ یہاں کے باشندے خصوصی اجازت ناموں کے بغیر فلسطینی اتھارٹی کے زیرِانتظام مغربی کنارے تک بھی نہیں جا سکتے۔حالانکہ اوسلو سمجھوتے میں اسرائیل نے اتفاق کیا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ انتظام دونوں علاقوں کو ایک ہی خطہ تصور کیا جائے گا اور دونوں خطوں کے رابطے کے لیے ایک کاریڈور کی تشکیل پر سنجیدگی سے غور ہوگا۔

پچھلے تیرہ برس کے دوران اسرائیل اور حماس کے درمیان چار بڑی لڑائیاں ہوئیں۔( دو ہزار آٹھ ، بارہ ، چودہ ، اکیس )۔ان میں ہر ایک اسرائیلی کی ہلاکت کے بدلے تئیس فلسطینی جانیں گئیں۔فلسطینی مرنے والوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد بتیس فیصد رہی۔جب کہ اسرائیلی اموات میں فوجی ہلاکتوں کا تناسب اڑتالیس فیصد تھا۔مجموعی طور پر اس عرصے میں دو سو اکیاون اسرائیلیوں کے مقابلے میں پانچ ہزار سات سو پچاس فلسطینی جاں بحق ہوئے۔جب کہ ساڑھے پانچ ہزار اسرائیلیوں کے مقابلے میں ایک لاکھ بائیس ہزار فلسطینی زخمی ہوئے۔غزہ پر چاروں اسرائیلی حملوں میں مجموعی طور پر لگ بھگ ستر ہزار رہائشی مقامات تباہ ہوئے۔ (قصہ جاری ہے)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔