مسلم اُمہ
کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ ابھی تین سوسال پہلے تک انھی مقبوضہ علاقوں میں مسلمان سب سے بڑی قوت تھے۔
مسلمان دنیا کے تمام براعظموں میں آباد ہیں اور مسلم اُمہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ حجاز ہو یا مصر ہو چین ہو یا ایران امریکا ہو یا آسٹریلیا، یورپ ہو یا افریقہ ہواور ایشیا تو مسلمانوں کا گھر ہے۔ مسلمان ایک اُمت ہے اور حامل قرآن ہے۔ اس کے پاس انسانیت کی نجات کا پیغام ہے۔
اسلام انسانیت کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ جب تک دنیا قائم رہے گی، اسلام قائم و دائم رہے گا۔ اﷲ کا ارشاد ہے کہ ''تم سب سے بہتر اُمت ہو، تمہاراکام معروف کا حکم دینا ہے ، منکر سے روکنا اور اﷲ پر ایمان لانا ہے ''۔
ہمارے دین کو تخریب کے لیے نہیں تعمیر کے لیے بھیجا گیا ہے لیکن اس تعمیر کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو چاہے وہ کشمیر میں ہو یا فلسطین میں ، ان کو اپنے ہی گھروں سے نکال کر اپنی ہی سرزمین میں اجنبی کر دیا جائے اور ان کو ساری دنیا میں بکھیر کر دنیا بھر سے یہودیوںکو لا کر ان کی سر زمین پر بسایا جائے اور پھر یہ کہا جائے کہ یہ فلسطین نہیں اسرائیل ہے اور ہم اپنا سر تسلیم خم کر دیں۔
آج استعماری ممالک مسلم ممالک کے اندر گھس چکے ہیں۔کشمیر میں ہماری زمین ان کے قبضے میں ہے۔ فلسطین ان کے قبضے میں ہے۔ عرب ممالک میں جو تباہی مچائی گئی ہے وہ ہمارے لیے ایک پیغام ہے۔ افغانستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جس خونریزی اور بر بریت کا مظاہرہ روس اور امریکا کی جانب سے کیا گیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ ابھی تین سوسال پہلے تک انھی مقبوضہ علاقوں میں مسلمان سب سے بڑی قوت تھے۔ ابھی تین سو سال ہی تو ہوئے ہیں اوریہ تہذیب اور یہ قوت اور یہ امامت مسلمانوں سے چھن گئی۔ لیکن اس بالادستی کو واپس حاصل کرنا ہے تو ہمیں علم کی طرف پلٹنا ہو گا۔ مسلمان جدید علوم کے بانی تھے اور اب جدید دنیا میں مسلمانوں کو تمام علوم میں بالادستی حاصل کرنی ہے۔ ہمیں کسی بھی پہلو میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔
آج کی دنیا میں جنگوں کے زمانے گزر چکے ہیں۔ آج کا دور معیشت اور کاروبار کا دور ہے ۔ جو جنگ ہتھیاروں سے نہیں جیتی جا سکتی وہ معاشی بالادستی سے باآسانی جیتی جاسکتی ہے۔ دنیا کی سپر پاور اب وہی ملک ہے جس کی معیشت مضبوط ہے۔ دنیا پرکسی ایک ملک کی اجارہ داری کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے۔ امریکا جو کئی دہائیوں تک واحد سپر پاور کا کردار ادا کرتا رہا ہے، اب چین نے اس اجارہ داری کو اپنی مضبوط معیشت سے للکارا ہے۔
آج کی دنیا کا یہ وہ کارگر اور موثر ترین ہتھیار ہے جس سے دنیا کا کوئی بھی ملک فتح کیا جاسکتا ہے۔ آج سے تقریباً سوسال پہلے جن قوتوں نے عثمانی ترکوں کی خلافت کا شیرازہ بکھیرا ہے، ان کا آیندہ لائحہ عمل اور ارادے کیا ہیں،کیا کسی نے اس بارے میں غور وفکر کیا ہے۔ مسلمانوں نے ستر کی دہائی کے آخر میں ایک تنظیم او آئی سی کے نام سے قائم کرکے مسلم قیادت کے خلا کو پر کرنے اور اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی۔
اسلامی ریاستوں کی یہ بدقسمتی رہی کہ ان پر وہ رہنما مسلط رہے جو انھی طاقتوں کے پروردہ تھے جو مسلمانوں کو غلامی کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہتی تھیں اور ان کٹھ پتلی حکمرانوں کے ذریعے وہ اس میں کامیاب بھی رہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی بات کی جائے تو تیل کی پیداوار کے بعد ان ممالک نے تیل سے حاصل ہونے والی اپنے کل آمدن ان کافر ملکوں میں منتقل کر کے ان کی معیشت کو سہارا دینے میں قابل ذکر کردار ادا کیا اور آج عربوں کا یہ پیسہ ان غیر مسلم ملکوں میں یرغمال بنایا جا چکا ہے۔
مسلم دنیا کی موجودہ صورتحال میں او آئی سی کے غیر فعال کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے کہ مسلم دنیا ایک ایسی تنظیم کے جھنڈے تلے جمع ہوجو خالصتاً معاشی طور پر مضبوط ملکوں کے زیر اثر ہو اور ان مسلم ممالک کا مضبوط معیشت کے زور پر اثر رو رسوخ دنیا میں تسلیم کرایا جائے تا کہ جب بھی مسلم امہ کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو یہ مسلم معاشی بلاک اس میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کر سکے اور دنیا اس کے فیصلوں کو اہمیت دے۔اس ضمن میںترکی، ملائیشیا اور پاکستان نے مل کر ایک کوشش کی تھی لیکن ہمارے عرب دوست اس سے ناراض ہو گئے اور یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
مسلمان کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا اور یہ اس کے ایمان کی نشانی ہے۔لیکن ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو قرآن اور سنت سے دور کر لیا ہے اور اﷲ کے بتائے ہوئے راستے اور اس کے رسولﷺ کی ہدایات سے رو گردانی کر رہے ہیںاور دنیا کی رنگینیوں میں مشغول ہو گئے ہیں جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔