کوچۂ سخن

جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔


Arif Aziz May 30, 2021
فوٹو : فائل

غزل
دل جو تیشہ زنی پہ مائل ہے
کچھ نہ کچھ راستے میں حائل ہے
تو جو حیرت زدہ نہیں ہوتا
تو مری گفتگو کا قائل ہے
میں مسافر ہوں کہنہ رسموں کی
میرے آ گے رہِ قبائل ہے
کیا سناؤں میں حال ِدل کہ یہ دل
تیری کج فہمیوں سے گھائل ہے
میرے پیروں کو ڈسنے والا سانپ
میری گردن میں کیوں حمائل ہے
(بلقیس خان۔ میانوالی)


۔۔۔
غزل
دل وقفِ اضطراب، بہت دیر تک رہا
در پیش یہ عذاب بہت دیر تک رہا
اک دن اُسے کُھرچ کے کہیں لے گئے یہ لوگ
آنکھوں میں رنگِ خواب بہت دیر تک رہا
دیکھا جب اُس نے جھیل کے پانی میں اپنا عکس
شعلہ بہ سطحِ آب، بہت دیر تک رہا
اس واسطے جناب کے میسج نہ مل سکے
موسم یہاں خراب بہت دیر تک رہا
کوئی تو اس میں بات تھی، ہر ایک سے الگ
جو شخص کامیاب بہت دیر تک رہا
اپنی ذرا بھی آپ صفائی نہ دے سکے
اوروں کا احتساب بہت دیر تک رہا
(یاور عظیم ۔ رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
آنکھ سے اشک گرا،اشک سے تصویر ہوئی
یوں زمانے میں مرے رنج کی تشہیر ہوئی
پہلے پہلے تو فقط عشق ہوا کرتا تھا
یہ اداسی تو بہت بعد میں تعمیر ہوئی
مجھ کو معلوم ہے یا میرا خدا جانتا ہے
کن وسائل سے مرے خواب کی تعبیر ہوئی
بے زباں دل کے ارادوں کو زباں دیتے ہوئے
اس کو بھی وقت لگا مجھ سے بھی تاخیر ہوئی
وہ محبت جسے نادانی میں اپنایا تھا
آخرِ کار وہی پاؤں کی زنجیر ہوئی
آمدِ نور سے نقصان ہوا ظلمت کا
گفتگو کرنے سے خاموشی کی تحقیر ہوئی
(سبحان خالد۔ تلہ گنگ۔ چکوال)


۔۔۔
غزل
گلوں میں رنگ ستاروں میں نور بھرتے ہوئے
میں چل پڑی ہوں خزاؤں کو زیر کرتے ہوئے
تھکی تھکی ہوئی آنکھوں بجھے چراغوں سے
گزر رہی ہے مری شب خطاب کرتے ہوئے
وہ شخص پھول نہیں خوشبوؤں کی صورت ہے
اسے سمیٹ لوں کیسے میں خود بکھرتے ہوئے
بس اس گلی کے نظاروں کی خیر ہو یارب
گزر رہا ہے زمانہ جہاں سے ڈرتے ہوئے
میں اپنی جھوٹی ہنسی سے فریب کھاتی تھی
تمہارے ہجر کے لمحوں میں رنگ بھرتے ہوئے
میں تیرے شعر پہ ایمان کس طرح لاؤں؟
کہ تیرے لفظ لگے ہیں کسی کے برتے ہوئے
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)


۔۔۔
غزل
ہر چہرے میں اُس کا چہرہ دیکھے گا
دِل، جیسا سوچے گا ویسا دیکھے گا
آنکھوں والو سوچو، سوچ کے بتلاؤ
اندھا خواب میں دیکھے تو کیادیکھے گا
حاسد شخص کی ایک نشانی یہ بھی ہے
جل جائے گا جس کو ہنستا دیکھے گا
وہ میری تعریف کرے تو حیرت کیوں
اچھا تو ہر اک کو اچھا دیکھے گا
سارے جسم کو آنکھ بنا کر بھی دیکھے
پھر بھی دیکھنے والا کتنا دیکھے گا
تیری آنکھیں دیکھتا ہوں تو حیرت کیوں
جس کو پیاس لگے گی، دریا دیکھے گا
مجھ کو دیکھنے کی خاطر شہباز ؔکوئی
سب کی جانب جھوٹا مُوٹا دیکھے گا
(شہباز نیّر۔رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
ایک ہی بار محبت کی تھی
پھر لگاتار محبت کی تھی
ہم نے دیوار جسے سمجھا تھا
وہ تو دیوار محبت کی تھی
خیر چرچے تو ہیں اِس پار بہت
میں نے اُس پار محبت کی تھی
آپ تو یونہی برا مان گئے
بات تو یار محبت کی تھی
یعنی وہ وقت گزاری تھی تری
یعنی بے کار محبت کی تھی
آپ جو چاہیں سمجھ لیں اس کو
ہم نے سرکار محبت کی تھی
(علی عمران۔ گڑھ موڑ)


۔۔۔
غزل
تمہاری بزم میں آنکھیں جو بھر کے آیا ہوں
میں بار گاہِ صنم سے گزر کے آیا ہوں
سوال پوچھا گیا مجھ سے تیرے بارے میں
نہ چاہتے ہوئے تجھ سے مکر کے آیا ہوں
اے میری موت مجھے کرنا سہل سے رخصت
کہ تیرے پاس کئی بار مر کے آیا ہوں
ہر ایک پل میں ہے مفلس کی آہ پوشیدہ
حسین دنیا کا دیدار کر کے آیا ہوں
مگر نہ اٹھ سکا ایمان عشق سے پھر بھی
میں دیکھ عشق میں کتنا بکھر کے آیا ہوں
یہ کھا رہا ہوں جو ٹھوکر قدم قدم پہ حمیدؔ
کسی کی راہ پہ آنکھوں کو دھر کے آیا ہوں
(حمید راہی۔ سرگودھا)


۔۔۔
غزل
عجب تقدیر چل دیتی ہے چالے زندگانی کے
ہمیشہ کھیل ہوتے ہیں نرالے زندگانی کے
تمہارے بعد گلشن میں یہ کیا رنگِ بہار آیا
متاعِ حُسن کو پڑتے ہیں لالے زندگانی کے
سدا جاری رہیں گے سلسلے یوں ہی محبت کے
ہمارے بعد بھی ہوں گے مقالے زندگانی کے
ہمارا ضبط تو دیکھو کہ ہم مسکائے جاتے ہیں
بدن سے روح تک ورنہ ہیں چھالے زندگانی کے
انھیں میں ایک مُدّت سے سہارا دے رہا ہوں یار
خدارا اب کوئی یہ دکھ سنبھالے زندگانی کے
ابھی الجھے ہوئے ہیں ہم ابھی ممکن نہیں طاہرؔ
ملی فرصت تو دیکھیں گے اجالے زندگانی کے
(طاہر ہاشمی۔ نشتر کالونی، لاہور)


۔۔۔
غزل
تُو میرے ساتھ کوئی رابطہ کرے، نہ ملے
خدا پہ چھوڑ دیا ہے کہ تُو ملے نہ ملے
اداسی اور اذیت نے وحشتیں بُنی ہیں
مرے وجود کے حصے کسے کسے نہ ملے
میں پہلے پہلے بہانے تلاش کرتا تھا
مگر دعا ہے مری اب کہ تُو مجھے نہ ملے
زہے نصیب تجھے چاہتا ہوں برسوں سے
میں عمر بھر تجھے چاہوں گا تُو بھلے نہ ملے
میں چاہتا ہوں مجھے دور سے ملے ہر شخص
تمہارے بعد کوئی بھی مجھے گلے نہ ملے
تمام شہر کی سنتا ہے بات وہ حاجبؔ
جسے کبھی مجھے سننے کو کچھ سمے نہ ملے
(نبیل حاجب۔ منڈی بہاؤالدین)


۔۔۔
غزل
میں تھا جس خواب میں وہ خواب دکھاؤ مجھ کو
یار اب کچھ بھی کرو ڈھونڈ کے لاؤ مجھ کو
اب چلے آئے ہیں وہ لفظ کا مرہم رکھنے
جب سکوں دینے لگے ہیں سبھی گھاؤمجھ کو
عشق کی راہ میں حائل کہیں میں ہی تو نہیں
ہے اگر ایسا تو رستے سے ہٹاؤ مجھ کو
دل سے آیات کی صورت کبھی لب تک لاؤ
یعنی ہو نٹوں پہ دعاؤں سا سجاؤ مجھ کو
ایک دو گھونٹ سہی عشق کے کافی ہیں مجھے
تم بھلے دوست سمندر نہ پلاؤ مجھ کو
(ندیم ناجد ۔ خانیوال)


۔۔۔
غزل
سبھی تیری زلفوں کے خم دیکھتے ہیں
تری بزم میں سب کو ہم دیکھتے ہیں
زمانے کی ہر عیش و عشرت بھلا کر
محبت کے رنج و الم دیکھتے ہیں
مرے حال کو چھوڑ یہ دیکھ دلبر
''تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں''
عمرؔ جن کو داغِ محبت ملا ہو
سبھی منظروں کو وہ نم دیکھتے ہیں
(عمر بٹ۔ جلالپور جٹاں)


۔۔۔
غزل
وہ شخص تو ہے پیار کا حق دار زیادہ
کرتا ہے وفاؤں کا جو پرچار زیادہ
وہ پھول بہت جلد کچل دیتی ہے دنیا
دیتے ہیں زمانے کو جو مہکار زیادہ
یہ وقت بتائے گا فقط دیکھتے جاؤ
زاہد ہیں زیادہ یا گنہ گار زیادہ
اس شہر سے اب دور بہت دور بسیں گے
لاشوں کے ہیں اس شہر میں انبار زیادہ
اس شخص کے سائے سے ذرا دور ہی رہیے
جو آپ کا ہو جائے طرف دار زیادہ
اب کیوں نہ ضیا ؔپیار کی دولت کو لٹائیں
' دنیا میں ہیں دولت کے طلب گار زیادہ'
(سرفراز ضیاء سرگودھا)


کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔