بیرونی دنیا کے بارے میں جانے بغیر آج آپ کا گزارا نہیں ہوتا سارہ زمان

عالمی خبر رساں ادارے مختلف ملکوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔


Hassaan Khalid May 30, 2021
روایتی میڈیا کو مشکلات درپیش ہیں، وائس آف امریکا کی اینکر سارہ زمان سے خصوصی گفتگو۔ فوٹو: فائل

KARACHI: سارہ زمان، 2007ء سے وائس آف امریکا کی اردو سروس سے وابستہ ہیں۔ وہ اس بین الاقوامی نشریاتی ادارے میں بطور اینکر اور سینئر ایڈیٹر کام کر رہی ہیں۔

گزشتہ کچھ برسوں میں رونما ہونے والے اہم واقعات مثلاً 'بلیک لائیوز میٹر' کی تحریک اور امریکی انتخابات کی براہ راست رپورٹنگ بھی کی۔ وہ صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان سے امریکا گئیں۔

جہاں انہوں نے ایسٹرن الینوائس یونیورسٹی سے الیکٹرانک میڈیا پروڈکشن میں بیچلرز اور یونیورسٹی آف فلوریڈا سے ڈاکومنٹری فلم میکنگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی دستاویزی فلم ''بسم اللہ'' کو 2008ء میں سٹوڈنٹ ایمی ایوارڈ بھی ملا۔ انہوں نے وائس آف امریکا کے مقبول پروگرام ''خبروں سے آگے'' اور ''زندگی تھری سکسٹی'' کی میزبانی کی، آج کل ''ویو تھری سکسٹی'' کی میزبان ہیں، جس میں بین الاقوامی حالات کے تجزیے، امریکا اور پاکستان کے سماجی امور اور صحت، خواتین، نوجوان، تعلیم، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسے موضوعات پر معلومات شامل ہوتی ہیں۔

تعلیم میں اعلیٰ کارکردگی اور 15 برسوں کے پیشہ ورانہ تجربے کی بدولت سارہ زمان نے صحافت کے شعبے میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی زندگی کی کہانی جہدمسلسل سے عبارت ہے۔ پچھلے دنوں ''ایکسپریس'' کے لیے ایک نشست میں ان کے سفر زیست اور صحافت کے مختلف پہلوئوں پر تفصیل سے گفتگو ہوئی، جو قارئین کی نذر کی جا رہی ہے۔

''بچپن میں بہت ڈرپوک ہوتی تھی''
سارہ زمان نے لاہور میں آنکھ کھولی۔ والد نے کیمیکل انجینئرنگ میں بیلجیم سے ڈاکٹریٹ کی تھی اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کی مختلف جگہ پوسٹنگ ہوتی رہتی۔ اس طرح سارہ زمان کے بچپن کا کچھ حصہ ڈیرہ غازی خان میں گزرا۔ تعلیم کا آغاز لاہور میں ہوا۔ ان کے بقول، ''بچپن کی یادیں بس اتنی ہیں کہ میں بہت ڈرپوک اور نروس بچی تھی۔ گھر میں شرارتی تھی لیکن سکول جاتے ہوئے گھبراتی تھی اور مجھے بہت عرصے تک سکول جانا پسند نہیں تھا۔ یہ خوف ہوتا تھا کہ مجھے گھر سے باہر جا کے دنیا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

میں سوچتی تھی کہ یہ کیسے ہو گا، میں گھر میں امی کے پاس کیوں نہیں رہ سکتی۔ تو اس بات پر امی ہنستی ہیں کہ آج تم ایک ایسی جاب کر رہی ہو، جس میں واقعی دنیا تمھیں دیکھ رہی ہوتی ہے۔'' وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک پراعتماد طالبہ بن گئیں اور سکول کے زمانے میں اردو اور انگریزی کے تقریری مقابلوں میں بھی حصہ لیا۔ انہوں نے علی گڑھ پبلک سکول گلبرگ، لاہور سے میٹرک جبکہ کنیرڈ کالج سے گریجویشن کی۔

''صحافت میں اتفاقیہ طور پر آئی''
کالج میں معاشیات اور شماریات کے ساتھ انہوں نے اختیاری مضمون کے طور پر فرانسیسی زبان کا انتخاب کیا۔ والد نے بیلجیم میں پی ایچ ڈی کے دوران فرنچ سیکھی تھی، لیکن اس مضمون میں سارہ زمان نے والد سے مدد لی، نہ ہی اپنی دلچسپی پیدا ہو سکی۔ تو اپنی ایک دوست کے کہنے پر وہ صحافت کی کلاس میں چلی گئیں، جس میں ان کا شوق بڑھتا گیا۔ طالبات کے ایک گروپ کے ساتھ پی ٹی وی اور نوائے وقت کے دفاتر میں جانے کا موقع بھی ملا، جہاں لوگوں کو عملی طور پر کام کرتے دیکھ کر انہیں بہت اچھا لگا۔ وہ بتاتی ہیں، ''کالج لائف سے خوب لطف اندوز ہوئی۔ اس دور میں جو دوست بنے، وہ آج بھی میری زندگی کا حصہ ہیں۔ پھر ہماری فیملی میں ایک روایت تھی کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر پڑھنے جانا ہے۔

والد کا بتا چکی ہوں، میرے تین کزن بھی بیرون ملک پڑھنے گئے، جن میں سے دو نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ میری والدہ پی آئی اے میں ایئر ہوسٹس تھیں اور انٹرنیشنل فلائیٹس پہ ہوتی تھیں۔ ہم صرف دو بہنیں ہیں۔ میری بڑی بہن نے بھی بیرون ملک تعلیم کے لیے اپلائی کیا، لیکن ویزے کے مسائل ہو گئے اور وہ نہ جا سکیں۔ تو ہمارے خاندان میں یہ رجحان تھا کہ اپنی محنت سے پڑھنے باہر جانا ہے، ایسا نہیں کہ کروڑپتی ہیں اور فیملی کے پیسوں سے باہر جائیں گے۔ یہی تھا کہ محنت کریں، اچھے گریڈز لیں، سکالرشپ مل گیا تو ٹھیک، نہیں تو پھر یہاں پہ جو بہترین موقع دستیاب ہے، وہ کریں۔ میری قسمت اچھی تھی کہ مجھے سکالرشپ پر امریکا میں پڑھنے کا موقع ملا اور اس تجربے نے نہ صرف ملازمت بلکہ شخصیت کے اعتبار سے بھی میری زندگی بدل دی۔''

''والدین کے بھروسے نے پَر لگا دیئے''
بی اے میں اکنامکس کی وجہ سے پہلے پہل بزنس کے مضمون میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خیال آیا، لیکن پھر اپنی دلچسپی اور شوق کو دیکھا تو صحافت کے شعبے کا انتخاب ہوا۔ انہوں نے امریکا میں ایسی یونیورسٹیوں کی تلاش شروع کی، جہاں صحافت کا شعبہ اچھا ہو اور وہ غیرملکی طلبہ کو سکالرشپ بھی دیتا ہو۔ بالآخر یہ کوشش کامیاب ہوئی اور انہیں داخلہ مل گیا۔ سارہ زمان کو وہ وقت نہیں بھولتا جب امریکا روانہ کرنے کے لیے انہیں والدین ایئرپورٹ چھوڑنے آئے۔

کہتی ہیں،''اس وقت پرانا لاہور ایئر پورٹ تھا، جہاز تک جانے کے لیے کافی پیدل چلنا پڑتا، جب میں نے چلنا شروع کیا تو کچھ لمحوں کے لیے ایسا محسوس ہوا جیسے ساری دنیا کا بوجھ میرے کندھوں پر ہو۔ وہ پہلا موقع تھا جب میں نے جہاز پہ سفر کیا۔ ایک لمحے کے لیے میرا دل بالکل بیٹھ سا گیا کہ میں کہاں جا رہی ہوں، پھر مجھے احساس ہوا کہ جو مجھے چھوڑنے آئے ہیں وہ کتنی امیدوں اور خوابوں کے ساتھ چھوڑنے آئے ہیں اور انہوں نے مجھ پہ کتنا بھروسہ کیا ہے۔ بس پھر اس بھروسے اور اعتماد نے مجھے پَر لگا دیئے۔''

''مائیک بریڈ، میرے محسن''
نائین الیون کے ایک سال بعد 2002ء میں وہ صحافت کی تعلیم کے لیے ایسٹرن الینوائس یونیورسٹی آ گئیں۔ خوش قسمتی سے انہیں اس دور میں کسی بھی قسم کے منفی رویے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سارہ زمان کے مطابق، ''جب آپ کیمپس میں ہوتے ہیں، جہاں بہت سے غیرملکی طلبہ ہوتے ہیں تو ثقافتی تنوع کی وجہ سے اس میں آپ کے لیے گنجائش ہوتی ہے۔ ایسا ماحول پروان ہی تب چڑھتا ہے جب مختلف پس منظر اور ثقافتوں کے لوگ ایک جگہ پر اکٹھے ہوں۔ یہ بڑی مثبت چیز تھی۔

کچھ لوگوں کے ساتھ منفی تجربات ہوئے لیکن خوش قسمتی سے میرے ساتھ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔'' پہلے سمیسٹر میں پرنٹ جرنلزم سے متعلق مضامین پڑھے۔ ٹی وی دیکھنے کے شوق کی وجہ سے انہوں نے اپنے استاد سے مشورہ کیا کہ اسے کیسے ساتھ لے کر چلا جائے۔ ان کے کہنے پر کمیونیکیشن کی کلاس اور کیمپس کے ٹی وی اسٹیشن میں جانا شروع کر دیا، اس طرح وہ بتدریج ٹی وی کی صحافت کی طرف آ گئیں۔

وہ بتاتی ہیں، ''کیمپس ٹی وی میں کام کرنے سے میری بہت اچھی تربیت ہوئی اور سیکھنے کا موقع ملا، کیونکہ جب آپ تعلیمی دور میں ہوتے ہیں تو ہر چیز سیکھنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، اس وقت آپ کو کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں لگ رہا ہوتا۔ اس تجربے نے پیشہ ورانہ زندگی میں بہت مدد کی۔ میں ان لوگوں کی بہت شکرگزار ہوں جنہوں نے میری رہنمائی کی۔ خاص طور پر میرے ایڈوائزر، مائیک بریڈ (Mike Bradd)، نے میری بہت مدد کی۔ میں انہیں اپنا محسن اور گرو سمجھتی ہوں۔ انہوں نے سکالرشپ اور ایوارڈ کے لیے میرا نام تجویز کیا، قدم قدم پر رہنمائی کی۔ آج میں جس مقام پر ہوں، اس میں ان لوگوں کا بنیادی کردار ہے۔''

زندگی کی پہلی کمائی
پڑھائی اور کیمپس ٹی وی میں عملی تربیت کے ساتھ ساتھ انہوں نے پہلے فوڈ کورٹ اور پھر لائبریری میں ملازمت بھی کی۔ سارہ زمان کہتی ہیں، ''مجھے یہ احساس تھا کہ اپنے والدین پر جتنا بوجھ کم کر سکتی ہوں وہ کروں اور اپنی ذمہ داری خود اٹھائوں، چاہے پچاس، سو ڈالر ہی کیوں نہ ملیں۔ اس لیے یونیورسٹی کے فوڈ کورٹ میں آٹھ مہینے چکن فرائی کرنے کا کام کیا۔ پہلا پے چیک پچاس ڈالر کے آس پاس تھا، جو زندگی میں پہلی کمائی تھی۔ بہت خوشی ہوئی کہ اپنے بل پہ کچھ کمایا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں وہاں کام کر کے کپڑے تبدیل کر کے اسٹیشن جاتی، پھر بھی میرے لباس پر میدے کی دھول ہوتی اور تیل کی بو آتی تھی۔ لیکن مجھے پتا تھا کہ سب کچھ کرنا ہے۔

گھر میں تو انڈے سے زیادہ کچھ فرائی نہیں کیا، لیکن امریکا جا کر پتا تھا کہ سب کام خود کرنے ہیں۔ کسی چیز کو میں نے ناں کرنے کا سوچا ہی نہیں۔ ایک ہی دن میں صبح کلاسز، شام کو فوڈ کورٹ میں کام، پھر ٹی وی اسٹیشن اور اس کے بعد رات کو لائبریری میں جا کر پڑھتی تھی۔ لائبریرین کو پتا تھا کہ یہ محنتی طالبہ ہے، جو باہر سے آئی ہے اور بہت محنت اور لگن سے پڑھ رہی ہوتی ہے۔ پھر مجھے لائبریری میں ہی جاب مل گئی تو فوڈ کورٹ کا کام چھوڑ دیا۔

ادھر یونیورسٹی کے نظام میں پہلی دفعہ یہ آسانی دیکھی کہ آپ اپنا نظام الاوقات خود طے کر سکتے ہیں، یعنی آپ نے ہفتے کے کن دنوں میں کلاس لینی ہے۔ اس طرح میں اپنے پورے ہفتے کا شیڈول مرتب کر سکتی تھی کہ فلاں دن صبح آٹھ سے دس جاب، پھر دو کلاسز، چار سے چھ جاب۔ پھر کسی دن دوپہر کی کلاس لے لی، اس طرح سے میں نے سیکھا کہ اپنے وقت کو کیسے منیج کرنا ہے۔''

''دستاویزی فلم الجزیرہ پر نشر ہوئی''
الینوائس یونیورسٹی سے بیچلرز کے بعد 2007ء میں یونیورسٹی آف فلوریڈا سے ڈاکومنٹری فلم سازی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی تھیسز فلم کو سراہا گیا۔ اس پرمزید کام اور ایڈیٹنگ وغیرہ کے لیے گرانٹس کی درخواست بھی منظور ہو گئی۔ اس فلم میں انہوں نے ایک بھارتی نژاد مسلمان خاتون کی سیاسی جدوجہد کی کہانی بیان کی۔

فرحین حکیم امریکا میں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھیں، لیکن ان کے والدین کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔ بہت متحرک اور دلیر خاتون نے ریاست مینیسوٹا میں واقع اپنی کائونٹی سے سیاست کا آغاز کیا، اور ان کا مقابلہ ایک ایسے سفید فام شخص سے تھا جو تیس سال سے مقامی سیاست میں تھا۔ فرحین حکیم نے مسلمان لڑکیوں کا ایک گرل سکائوٹ گروپ بھی بنایا تھا، جن میں سے زیادہ تر صومالی پناہ گزینوں کی بیٹیاں تھیں۔

یہ لڑکیاں اپنی لیڈر کے ذریعے دیکھ رہی تھیں کہ امریکا میں بطور مسلمان وہ اپنے لیے کیا خواب دیکھ سکتی ہیں۔ ایک طرف فرحین کی سیاست تو دوسری طرف ان مسلمان لڑکیوں کی امریکا میں نئی زندگی کا آغاز یعنی ''بسم اللہ'' ہو رہی تھی۔ فلم کی امریکا میں بڑی سطح پر یہ تصویر بنتی تھی کہ امریکی مسلمان کس طرح سے ملکی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کیونکہ کچھ سال پہلے نائین الیون کی وجہ سے ایک خوف کی فضا تھی اور لوگ مسلمانوں کے متعلق کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔

چنانچہ اسے بہت پسند کیا گیا۔ اس دستاویزی فلم کو سٹوڈنٹ ایمی ایوارڈ ملا، 2010ء میں یہ الجزیرہ ٹی وی پر نشر بھی ہوئی۔ سارہ زمان کہتی ہیں، ''اس فلم کی عکس بندی بڑا دلچسپ تجربہ تھا۔ ہم چودہ پندرہ گھنٹے کی ڈرائیو کر کے گرم فلوریڈا سے مینیسوٹا جاتے تھے، جہاں برفیں پڑ رہی ہوتی تھیں۔ اس کی شوٹنگ، ایڈیٹنگ، پروڈکشن، ڈائریکشن وغیرہ، سب کام ہم دو لڑکیوں نے کیا۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ایسے لوگوں اور ایسی کمیونیٹیز کی کہانیاں سامنے لے آئوں، جن کے بارے میں کوئی نہیں بتا رہا۔ بطور صحافی یہ میری ذمہ داری ہے کہ وہ معلومات پیش کروں جس سے لوگوں کی سمجھ بوجھ بڑھے اور اب بھی میرا ہدف یہی ہوتا ہے۔''

''وائس آف امریکا'' میں ملازمت
سارہ زمان 2007ء میں ''وائس آف امریکا'' کی اردو سروس سے وابستہ ہوئیں۔ ان کے بقول، ''عالمی خبر رساں ادارے مختلف ملکوں اورافراد کو ایک دوسرے کے حقائق سے آگاہ کرتے اور باہم جوڑتے ہیں۔ یہ لوگوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ میں امریکا میں رہتے ہوئے ایک ایسا شو کرتی ہوں جو پاکستان میں دیکھا جاتا ہے، لوگ اس میں امریکا کو دیکھتے ہیں، پھر ہم اس میں ناظرین کو پاکستان بھی دکھاتے ہیں کہ یہ بھی آپ کے ہاں ہو رہا ہے اور اس کو سمجھنا ضروری ہے، جو شاید مقامی میڈیا ریٹنگ نہ ملنے یا کسی اور وجہ سے نہیں دکھا رہا۔ لیکن وہ چیزیں درحقیقت معاشرے میں اہمیت رکھتی ہیں تو انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ میں اس وجہ سے شامل ہوتی ہیں۔ '' یہاں بطور اینکر، رپورٹر، پروڈیوسر اور ایڈیٹر فرائض انجام دیئے اور اپنے کام سے لطف اندوز ہوئیں۔

''خبروں سے آگے'' اور ''زندگی تھری سکسٹی'' کے علاوہ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال میں فیلڈرپورٹنگ کا بھی خاصا موقع ملا۔ انٹرویو کرنا، انہیں سب سے زیادہ پسند ہے، کیونکہ مختلف لوگوں سے بات کرنے، ان کا نقطہ نظر سمجھنے اور سیکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ''ٹی وی کے لیے کام کرنا شروع سے ہی پرلطف تجربہ رہا، کیونکہ ہم جو کام کرتے ہیں، وہ شام کو ٹی وی پر آتا ہے، جسے لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں۔ یہ احساس، ایک شاندار کیفیت ہے۔ میں سٹوڈیو میں اپنی کرسی پر بیٹھتی ہوں تو ایک ایکسائٹمنٹ ہوتی ہے کہ اب جو کہنے لگی ہوں، وہ لوگ دیکھیں گے۔ جانتی ہوں کہ یہ بہت اہم اور ذمہ داری کا کام ہے، میں نے اسے کبھی بھی ہلکا نہیں لیا۔ صحافت بہت ذمہ داری کا کام ہے۔ ضروری ہے کہ آپ کو بہت سی چیزوں کا پہلے سے علم ہو، آپ خود جانتے ہوں گے تب ہی لوگوں کو بتا سکیں گے اور صحیح سوال کر سکیں گے۔ فیلڈ رپورٹنگ میں آپ کو اپنے کمفرٹ زون سے باہر آ کے حقائق کی کھوج لگانی ہوتی ہے۔''

''ہمارے کام میں حکومت مداخلت نہیں کرتی''
سارہ زمان کے مطابق، میڈیا کے کچھ ادارے منافع کی بنیاد پر چلتے ہیں، اس لیے وہ ریٹنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ترجیحات طے کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم کے ادارے جو سرکاری یا غیرسرکاری فنڈنگ پر چلتے ہیں، ان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں یہ تقسیم واضح نظر آتی ہے۔ تاہم صحافت کے معیار اور اصول تقریباً ہر جگہ ایک جیسے ہیں۔ ان کے بقول، '''وائس آف امریکا' منافع کمانے والا ادارہ نہیں ہے۔ اسے کانگریس فنڈ کرتی ہے، لیکن قانون کے تحت یہ بات طے ہے کہ حکومت کی مداخلت نہیں ہو گی۔ VOA سمیت پانچ ادارے ہیں، جو ایک ادارے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (یو ایس اے جی ایم) کے ماتحت ہیں۔ اس کے سربراہ کی تقرری کانگریس کی منظوری سے انتظامیہ کرتی ہے، لیکن پانچ ماتحت اداروں کے سربراہان کی تقرری یہ ادارہ کرتا ہے۔

اس کے سوا ان میں 'یو ایس اے جی ایم' کی عمومی طور پر مداخلت نہیں ہوتی۔ کسی کو ہماری رپورٹ پر اعتراض ہے تو یہ شکایت ادارتی بورڈ دیکھے گا۔ لیکن ہماری ادارتی پالیسی کوئی بھی ادارہ ڈکیٹ نہیں کر سکتا کہ آپ یہ چھاپیں اور فلاں چیز شائع نہ کریں۔ پچھلے کچھ برسوں میں وائٹ ہائوس اور VOA کے تعلقات میں کافی اتار چڑھائو دیکھنے میں آئے۔ انتظامیہ کو ہماری کرونا وائرس کی کچھ کوریج پر اعتراض تھا لیکن ہماری لیڈرشپ نے ہر موقع پہ اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے بتایا کہ اس خبر کے پیچھے فلاں حقائق ہیں ۔

حقائق کی صحت پر ہم بات کر سکتے ہیں، لیکن حقائق کو سامنے لانے کا جو حق ہے ، ہم اس پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ حکومت نے مداخلت کی کوشش کی تو ادارے کے اندر اور باہر سے صحافیوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور کہا کہ ادارتی شکایات، صرف ادارتی بورڈ ہی دیکھے گا، کیوں کہ وہ صحافتی ضروریات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ باہر سے کسی کو مداخلت کا حق نہیں۔''

''صرف اپنے ملک کے بارے میں جاننا کافی نہیں''
سارہ زمان تسلیم کرتی ہیں کہ خبر مقامی ہوتی ہے، جو کچھ آپ کے اردگرد اور ملک میں ہو رہا ہے، وہ جاننا زیادہ اہم ہے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ زور دیتی ہیں کہ بین الاقوامی حالات سے آگاہی بھی بہت ضروری ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''آج کی دنیا میں ہم انٹرنیٹ کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں، تو صرف اپنے ملک کے بارے میں جاننا کافی نہیں۔ یہ پتا ہونا ضروری ہے کہ بیرونی دنیا میں کیا ہو رہا ہے، کیوں کہ تب ہی آپ بہترطور پر سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا میں آپ کس مقام پر کھڑے ہیں۔ باہر کی دنیا میں جو ہو رہا ہے،آج اسے جانے بغیر آپ کا گزارا نہیں ہے۔

پاکستانی میڈیا میں دیکھتی ہوں اور اب یہ چیز امریکا میں بھی آ رہی ہے کہ ملکی سیاست پر بہت زیادہ فوکس ہوتا ہے۔ ملکی سیاست بھی زندگی کا ایک حصہ ہے لیکن زندگی کے دوسرے مسائل اور باقی دنیا پر بھی بات ہونی چاہیے۔'' نئے دور میں صحافت کو درپیش چیلنجز سے متعلق سوال پر وہ کہتی ہیں، ''امریکا میں بھی پرنٹ میڈیا بہت مشکل دور سے گزرا ہے، اب بھی گزر رہا ہے، بہت سے اخبارات بند ہو گئے۔

عوام کی توقع ہوتی ہے کہ انٹرنیٹ پر جائیں تو سب کچھ مفت میںملے گا، لیکن اب بڑے اخبارات جیسے نیویارک ٹائمز وغیرہ نے سبسکرپشن فیس لازمی کر دی ہے۔ اب بھی ناظرین کا ایک وسیع حلقہ ٹیلی ویژن دیکھتا ہے، لیکن آہستہ آہستہ وہ وقت قریب آ رہا ہے جب ٹی وی سے وابستہ افراد کو بھی سوچنا پڑے گا کہ نئی صورتحال کا سامنا کیسے کریں۔ سوشل میڈیا کی صورت میں، روایتی میڈیا کو چیلنج کا سامنا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ لوگوں کے لیے نئے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ سٹیزن جرنلزم کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس میں اصل امتحان ناظرین کے لیے ہے کہ وہ پہلے دیکھیں کہ فلاں سورس کتنا قابل اعتماد ہے اور اس کی معلومات کتنی درست ہیں۔''

نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگی
سارہ زمان کے بقول، ''صحافت میں دلچسپی رکھنے والے نوجوان ضرور اس شعبے میں آئیں لیکن انہیں نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا۔ ٹرینڈز بدل رہے ہیں تو اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں۔ پچھلے ایک سو سال میں ہر شعبہ بدلا ہے۔ پہلے خطاط تھے، پھر ٹائپ رائٹر آئے اور ان کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی۔ اب جنہوں نے کمپیوٹر پر کام کرنا سیکھ لیا، ان کے لیے نئے راستے کھل گئے۔ دوسری بات یہ کہ اس شعبے میں ایک جذبے کے ساتھ آئیں، اینکر بننے کی امید سے نہ آئیں، کیونکہ میں بہت سے نوجوانوں کو جانتی ہوں جو اینکر بننا چاہتے ہیں۔

اپنا ہدف بے شک یہ رکھیں اور اس کے خواب دیکھیں، لیکن یہ ضرور یاد رکھیں کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے جن مراحل سے گزرنا ضروری ہے، ان سے گزریں، آپ کا ہی فائدہ ہے۔ جذبے، محنت اور تیاری کے ساتھ آئیں گے تو خود بخود راستے کھلتے جائیں گے۔ پاکستان میں صحافت کی تعلیم کا تو مجھے تجربہ نہیں، لیکن امریکا میں یہ اچھی چیز دیکھی کہ یونیورسٹی سے منسلک ٹی وی اسٹیشن میں آپ کو بنیادی عملی کام کی تربیت دی جاتی ہے۔

تھیوری کی اپنی اہمیت ہے، لیکن عملی کام سے آپ کی بنیاد بن جاتی ہے۔ ہمارے زمانے میں ہر سٹوری ٹیپ پر چلتی تھی، وہ چلانی سیکھی، اس کے بعد سرور آیا تو اس کا طریقہ کار سیکھا۔ ایڈینٹنگ، آڈیو، کیمرہ، سٹوڈیو اور فیلڈ رپورٹنگ، پروگرام کی میزبانی، یہ سب کام ہم نے کیمپس میں کیا۔ اس طرح سے جب آپ کہیں ملازمت کے لیے جاتے ہیں تو انہیں ایک تیار پراڈکٹ ملتی ہے، اور انہیں آپ کو سکھانے کے لیے زیادہ وقت صرف نہیں کرنا پڑتا۔''

VOA کے پسندیدہ صحافی
وہ انگریزی سیکشن کے کچھ صحافیوں کے کام کی خاص طور پر مداح ہیں، جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔ ان میں سٹیو ہرمن سرفہرست ہیں، جو وائٹ ہائوس کے لیے VOA کے چیف نمائندے ہیں۔ سارہ زمان کے بقول، ''سٹیو ہرمن وائٹ ہائوس کی رپورٹنگ کے لیے بہترین معیار کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا کوئی بھی آرٹیکل اٹھا کر پڑھ لیں، آپ بتا نہیں سکتے کہ اس رپورٹر کی اپنی پسند یا ناپسند کیا ہے۔ وہ آپ کو سارے پس منظر کے ساتھ مکمل معلومات دیں گے اور بہترین لکھتے ہیں۔

اسی طرح خاتون رپورٹر کیرولین پرسوٹی ہیں، جو بہت محنت سے خبر سے انسانی دلچسپی کا پہلو باہر لے کر آتی ہیں اور پورے ایشو کو ناظرین کے لیے عام فہم انداز میں پیش کرتی ہیں۔ جم میلون، ہمارے کولیگ تھے جو اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ میرے کچھ شوز میں انہوں نے رپورٹنگ کی۔اتنا تجربہ کار بندہ جب آپ کے ساتھ ڈیسک پر براہ راست رپورٹنگ کر رہا ہو، تو یہ تجربہ ہی بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ کس طرح جزئیات کے ساتھ وہ ایک ایک چیز بیان کرتے ہیں۔ یہ ہر کوئی اتنا اچھا نہیںکر سکتا۔'' ان کے مطابق، نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ پڑھے بغیر آپ کا گزارا ہی نہیں ہوتا۔ دو میگزین، دی اکنامسٹ اور دی اٹلانٹک بھی وہ ضرور پڑھتی ہیں۔ سی این این پر فرید زکریا کا شو انہیں بہت پسند ہے۔

''شوہر کی پہلی محبت اپنے کام سے ہے''
سارہ زمان کہتی ہیں، ''میرے شوہر گیری بٹرورتھ (gary butterworth) سفید فام امریکی ہیں اور ان سے میری ملاقات وائس آف امریکا میں ہی ہوئی۔ یہ کہانی تھوڑی دلچسپ ہے۔ وہ ''خبروں سے آگے'' کے پروڈیوسر اور میں میزبان تھی۔ ہم شام میں شو ریکارڈ کرتے تھے، اچانک سے ہمارا ٹائم صبح چار بجے ہو گیا۔ چار بجے صرف میزبان، پروڈیوسر اور ایک اور شخص نے آنا تھا۔ تو وہ جوکہتے ہیںکہ جب دو لوگ مشکل میں ہوتے ہیں تو بس وہی ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں۔

دن ایک بجے تک ہمارا دفتری وقت ختم ہو جاتا، جبکہ دوسرے کولیگز ابھی کام کررہے ہوتے۔ ذاتی دوست بھی اپنے اپنے دفتروں میں ہوتے۔ تو سوچا کہ ایک ساتھ کھانا کھا لیتے ہیں۔ بس ایسے ہی جب ساتھ دو چار دفعہ کھانا کھایا تو اچھی انڈرسٹینڈنگ پیدا ہو گئی۔ انہوں نے مجھے بعد میں بتایا کہ میں انہیں بہت عرصے سے پسند تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میں جب ان سے پوچھتی کہ ہمارا گروپ باہر سیر کے لیے جا رہا ہے، تو وہ ساتھ جانے سے انکار کر دیتے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اگر میں آپ کو پسند تھی تو آپ جاتے کیوں نہیں تھے، توان کا پرابلم بھی یہ ہے کہ ان کی پہلی محبت کام ہے اور دوسری محبت میں ہوں۔

میرا بھی یہی مسئلہ ہے، میری پہلی محبت کام ہے، دوسری محبت وہ ہیں۔ تو اس طرح ہماری دوستی ہو گئی۔ انہیں آفس میں لوگ بہت پیارکرتے ہیں، جب ہم نے منگنی کا بتایا، دفتری ساتھیوں نے بہت خوشی منائی۔ میرے کولیگز ایک طرح سے میری سیکنڈ فیملی ہیں، میں ان کی بہت شکرگزار ہوں۔ پھر ہم پاکستان آئے، یہیں پہ شادی کی۔ اس کے بعد وہ ہر سال پاکستان آتے ہیں۔ انہوں نے اردو سروس میں بہت سال گزارے ، میرے آنے سے پہلے وہ اردو سروس میں تھے، اس لیے آدھے پاکستانی پہلے ہی بن چکے تھے۔ مرچیں بھی کھاتے ہیں، نماز روزہ انہیں سارا کچھ آتا ہے۔ میرے لیے ان سے شادی کرنا آسان تھا کہ وہ مجھے ملنے سے پہلے ہی پاکستان اور اسلام آباد کے بارے میں جانتے تھے۔ مجھے اپنا کلچر، مذہب اور طرز زندگی انہیں سمجھانا نہیں پڑا۔''

''گھر والوں سے محنت کی اہمیت سیکھی''
سارہ زمان کہتی ہیں، ''میرے گھر والوں نے ہمیشہ محنت کی اہمیت کا احساس دلایا، شارٹ کٹ سے کامیابی ملتی ہی نہیں یا جو کامیابی ملتی ہے وہ تھوڑا عرصہ ہی رہتی ہے۔ دوسرے یہ کہ مجھے کام سے محبت ہے۔ مجھے اپنی خوش قسمتی کا احساس ہے کہ یہاں تک پہنچ گئی، ورنہ مجھ سے بہتر لوگ بھی ہیں جنہیں یہ موقع نہیں ملا۔'' بچپن میں انگریزی کہانیاں اور ناول پڑھے، لیکن وائس آف امریکا میں ملازمت کے بعد اردو ادب کا بھی خاطر خواہ مطالعہ کیا۔ شاعری میں فیض احمد فیض کی مداح ہیں، جن کی شاعری بچپن میں مختلف گلوکاروں سے سن کر یاد ہو گئی تھی۔

جوزف ہیلر کی کتاب ''کیچ ٹونئٹی ٹو'' انہیں بہت پسند ہے۔ بہت سے ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا، کینیڈا اور میکسیکو تو امریکا کی سرحد پر واقع ہیں، ان کے علاوہ برطانیہ، فرانس ، جرمنی، اٹلی، اسپین، جنوبی افریقہ، زمبابوے جانے کا موقع ملا۔ جنوبی افریقہ اور اسپین زیادہ پسند آئے، کیونکہ یہ دونوں ملک پاکستان کے بہت قریب لگے۔ ان کے بقول، ''یہاں کے لوگ زندہ دل، ملنسار اور اپنے خاندان کے قریب ہوتے ہیں۔ کھانا بہت اچھا ہے۔

آپ ان کی بات نہ بھی سمجھیں، جس جوش و جذبے سے وہ بات کررہے ہوتے ہیں، آپ کو فوراً یاد آ جاتا ہے کہ بالکل ہم بھی اپنے گھر میں اسی طرح بات کرتے ہیں۔'' لباس میں 'جیسا دیس، ویسا بھیس ' کے مقولے پر عمل کرتی ہیں۔ امی اور ابو کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے پسند ہیں، کیونکہ والد بھی اچھی کوکنگ کر لیتے ہیں۔ تھائی فوڈ بھی مرغوب ہے۔

فرصت کے اوقات میں ٹی وی دیکھنا اور پیدل چلنا اچھا لگتا ہے۔ بتاتی ہیں، ''میری بڑی خوش قسمتی ہے کہ واشنگٹن ڈی سی پیدل چلنے والوں کے لیے انتہائی موزوں ہے اور وہاؒں اتنا کچھ ہے دیکھنے کے لیے۔ میوزیم، وائٹ ہائوس اور کانگریس کی عمارتیں ہیں، جن کو دیکھتے ہوئے آپ کا دل کبھی اکتاتا نہیں۔ پاکستان میں پیدل چلنے والوں کے لیے سہولتیں نہیں ہیں۔ ہفتہ ، اتوار کے دن، میں اور میرے شوہر کئی کئی میل پیدل چلتے ہیں، وقت گزرنے کا پتا بھی نہیںچلتا۔ راستے میں ہی ہماری تفریح ہوتی ہے، کھانا کھاتے ہیں، کئی گھنٹے اس طرح گزار دیتے ہیں۔''

ایک تباہ حال خاتون سے یادگار انٹرویو
سارہ زمان کے بقول، ''ہر انٹرویو مجھے کسی نہ کسی سطح پر متاثر کرتا ہے۔ ایک تو نادیہ جمیل، جو ہماری اداکارہ ہیں، ان سے انٹرویو نے مجھے جذباتی طور پر بہت متاثر کیا، کیونکہ وہ کینسر سے جنگ لڑ رہی تھیں اور وہ بہت شاندار انسان ہیں۔ جاوید غامدی صاحب سے انٹرویو کر کے اچھا لگا۔ روہنگیا مسلمانوں کی صورتحال سے متعلق میانمار کے سفیر سے انٹرویو بھی میرے لیے اہم ہے۔

لیکن ایک سٹوری ایسی خاتون کی ہے ، جس پر تیزاب سے حملہ کیا گیا۔ وہ سفید فام نرس تھیں، ان کا سابق شوہر ایک رات بہت غصے میں گھر میں گھسا اور ان کے چہرے پر صنعتوں میں استعمال ہونے والا خطرناک تیزاب پھینک دیا، کچھ لمحے انہیں یہ سمجھنے میں لگے کہ ہوا کیا ہے، لیکن بس اتنی دیر میں ساری جلد پگھل گئی۔ وہ خاتون دنیا کے ان چند افراد میں سے ایک ہیں، جن کے پورے چہرے کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا، یعنی مکمل چہرے کو کسی دوسرے شخص کے چہرے سے تبدیل کیا گیا۔

میں ان سے ملی اور اس عورت کی بیٹی سے بھی ملی، جن کا چہرہ انہیں لگایا گیا۔ وہ خاتون کسی ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوئیں اور ان کے دوسرے اعضاء، دوسرے لوگوں کو عطیہ کیے گئے۔ اس ایک سٹوری میں انسانیت کے بدترین اور بہترین چہرے نظر آتے ہیں۔ ایک شخص نے تیزاب پھینک کر ایک عورت کی زندگی تباہ کر دی، جبکہ ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے والی خاتون کے اعضاء نے کتنے لوگوں کو نئی زندگی دے دی۔ اس واقعے نے مجھے جذباتی طور پر بہت متاثر کیا، میں پریشان تھی کہ کیسے اتنے بھیانک المیے سے گزرنے والی خاتون سے بات کروں گی۔

لیکن میں نے دیکھا کہ وہ اتنے آرام سے میرے ساتھ بات کر رہی تھیں، اتنی ہمت ، بہادری اور استقامت کے ساتھ، میں نے اس سے بہت سیکھا کہ کتنے ہمت والے لوگ ہوتے ہیں جو اتنے تکلیف دہ تجربے سے گزرنے کے بعد بھی شکایت نہیں کر رہے، آنسو نہیں بہا رہے، واویلا نہیں کر رہے۔

بس وہ اپنی کہانی آپ کو بتا رہی ہیں کہ ایسے ہوا تھا، میں اتنی اذیت سے گزری، میری شکل اتنی بگڑ گئی کہ دکان پر جاتی تو لوگ مجھے رک رک کے دیکھتے۔ میرے بارے میں ٹی وی پر تنبیہہ چلتی کہ اب جو مناظر آپ دیکھ رہے ہیں وہ کمزور دل افراد کے لیے نہیں ہیں۔ جس شخص کو یہ سب پتا ہو، اس کے بعد بھی وہ ایسی حالت میں بالکل پرسکون انداز میں آپ سے بات کرے، پھر آپ کو یہ بھی بتائے کہ میں آج کل پیانو بجانا سیکھ رہی ہوں، اور یہ یہ کام خود کر لیتی ہیں لیکن فلاں فلاں کام کرنا ابھی بھی میرے لیے مسئلہ ہے، آپ اس سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔