چراغِ طور کا الائو

کیا امریکی افواج کے انخلا کے بعد امریکا کو پاکستان پر افغان امن برقرار رکھنے پر اعتبار نہیں۔


وارث رضا May 30, 2021
[email protected]

چراغ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اٹھاؤ! بڑا اندھیرا ہے

مجھے بالکل علم نہیں کہ ساغر صدیقی نے یہ غزل کیوں لکھی اور شہنشاہ غزل مہدی حسن نے اس غزل کی گائیکی کو اتنا ڈوب کر کیوں گایا،البتہ یہ گمان ضرور ہے کہ ملک میں جاری جبر استبداد کے تسلسل کو یہ دونوں تخلیق کار عمیق نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے جبر کے اندھیروں میں ''چراغِ طور'' جلانے کی تحریک اور جذبے اپنی نسل کو دینے کی کوشش کی،زندگی اور اظہار کی آزادی میں اگر اسد طور نے اپنا دیا جلانے کی کوشش کی تو اسے لہولہان ہونا پڑا،مگریہی تو ہیں جو ''کوہِ ندا'' کی پکار کے مصطفی زیدی اور حبیب جالب کے نغموں میں اظہار کی آزادی کے رنگ بھرنے میں مگن ہیں۔

ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگر اظہار کے ذرایع نہ ہوتے تو افغان جنگ میں پاکستان اور امریکا کے کردار اور اس کے نقصانات سے دنیا کیسے باخبر ہوتی؟اگر اظہار کی قوت نہ ہوتی تو دہشت گرد طالبان کے بم دھماکوں سے معصوم عوام کو کس طرح نجات ملتی؟

اظہار میں طاقت نہ ہوتی تو ہمارے عوام اپنے ملک میں عالمی اثر و رسوخ کی خبروں سے کیسے آگاہ ہوتے؟ اگر اظہار رائے کے آئینی حقوق نہ ہوتے تو ایوانوں میں عوام کے معاشی اور سیاسی حقوق پر ڈاکا ڈالنے والے کیونکر منظر عام پر آتے؟اور جب عوام حقائق سے ہی بے خبر رہتے تو کس طرح بہتر سے بہتر نمایندوں کا انتخاب کر پاتے،اظہار کے عالمی و ملکی ذرایع نہ ہوتے تو بھلا عوام ملک کے اندر افغان امن کی آڑ میں امریکا کے آیندہ کردار سے کیسے واقف ہوتے؟

یہ خبر کا ذریعہ ہی ہے نا کہ جس کے ذریعے ملک کے آیندہ مستقبل اور کردار کا ازسرنو تعین کیا جا رہا ہے اور عوام باخبر ہورہے ہیں۔اس خطے کو دوبارہ سیٹو سینٹو کی مانند عالمی طاقت وروں کا غلام بنانے کی کوششیں جاری ہیں،جو خارجہ پالیسیوں کے تحت کی جارہی ہیں جب کہ عوام کوتاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ سلیکٹیڈ جمہوری حکومت کی خارجہ پالیسی ہے جس کے تحت افغان طالبان پر نظر رکھنے کے لیے پاکستانی حدود میں امریکی پروازوں کی اجازت دینے کا معاہدہ امریکی حکومت سے کیا جا رہا ہے۔

امریکی امداد اور امریکا کی جانب جھکائو کی داستان کسی طور نئی نہیں،روس کے سوشلسٹ انقلاب کے اثرات کو روکنے کے لیے امریکی انتظامیہ کو ایک قابل اعتماد دوست کی تلاش تھی جو روس کے مقابلے میں امریکی مفادات کی نگرانی کرے،جس کے لیے امریکی حکومت کو پاکستان میں سویلین حکومت یا جمہوری منتخب حکومت سے زیادہ آمروں کی حمایت درکار تھی،اسی مقصد کے تحت جب 1954کے بعد آئین ساز حکومت کی تیاریاں جاری تھیں تو محمد علی بوگرہ نے آئینی کوششوں پر کاری ضرب لگائی اور عبوری طور سے ملک کا نظم و نسق چلانے کی عوام دشمن کوشش کی، جس کا مقصد جنرل ایوب کو اقتدار تک لانا تھا۔

تاریخ کے صفحات کا جائزہ لیتے وقت یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب ملک میں نئے آئین کے تحت انتخابات منعقد کرانے کا مطالبہ زور پکڑتا ہے تو اس وقت کی سول اور غیر سول اسٹیبلشمنٹ نے ایک مرتبہ پھر اسمبلی تحلیل کردی اور ملک میں 7 اکتوبر 1958 کو مارشل لا نافذ کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب صدر اسکندر مرزا تھے لیکن چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان تھے۔ امریکا کے لیے بہتر یہی تھا کہ پاکستان میں امریکا کی حامی ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت قائم ہو۔ اسی لیے ایک امریکی اہلکار سی بی مارشل نے مارشل لا سے ناراضی کا اظہار بھی کیا، لیکن منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جب اقتدار پر قبضہ کر لیا گیا تو اس کے دو ہفتوں کے بعد 21 اکتوبر کو امریکا کے اس وقت کے وزیرِ دفاع نیل میک الروئے ایک اعلیٰ اختیاراتی فوجی وفد لے کر پاکستان پہنچے۔

ثمینہ احمد اپنی کتاب ''دی ملٹری اینڈ فارن پالیسی اِن پاکستان'' میں لکھتی ہیں کہ امریکی وزیر دفاع نیل میک الروئے جب پاکستان آئے تو انھوں نے صدر اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان دونوں سے ملاقاتیں کیں۔ وہ 26 اکتوبر کو واپس امریکا روانہ ہوئے اور 27 اکتوبر کو جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کرکے آئین معطل کردیا۔ ثمینہ احمد کے مطابق، اس وقت پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان نے بعد میں کہا ''اسکندر مرزا اور ایوب خان دونوں کے امریکا اور برطانیہ کی جانب جھکائو دیکھتے ہوئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ فوجی انقلاب اگر ان دونوں ملکوں کے ایما پر نہیں لایا گیا تو کم از کم وہ اس کے بارے میں آگاہ ضرور تھے۔''

ترقی پسند دانشور حمزہ علوی کہتے ہیں کہ انھوں (امریکی وزیر دفاع) نے اسکندر مرزا کو برطرف کیا اور ایوب خان کو صدر بننے کا مشورہ دیا اور 'ایوب خان کو ملک کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایوب خان نے اس دورے سے پہلے جو اہداف طے کیے تھے کیا وہ انھیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے؟اس کا تجزیہ کرتے ہوئے حمزہ علوی لکھتے ہیں کہ امریکا جانے سے پہلے جنرل ایوب نے کہا تھا کہ وہ انڈیا کی امداد رکوانے یا کم کروانے جا رہے ہیں اور اس کے علاوہ وہ کشمیر کا تنازع طے کرانے کے لیے امریکا کا موثر کردار چاہتے ہیں۔ لیکن جب وہ دورے سے واپس آئے تو نہ وہ انڈیا کی امداد رکوا پائے اور نہ کشمیر کے لیے مدد حاصل کرسکے۔''

امریکی ایما اور منشا پر ہی جنرل ضیاالحق نے افغان جنگ کو کفر اور اسلام کی جنگ بنا کر پیش کیا اور طالبان کی دہشت گردی خطے کو دے کر خوب امریکی ڈالر سمیٹے،یہی کچھ جنرل مشرف نے اقتدار پر غیر آئینی قبضے کے بعد کیا اور 9/11 کا بہانہ بنا کر ڈالروں کی چمک میں پاکستانی اڈے امریکی استعمال کے لیے دیے جس کی سزا پاکستانی عوام نے طالبان دہشت گردی کی صورت میں جھیلی اور ہزاروں افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے۔

آج طاقتور اشرافیہ کے ہوتے ہوئے جو فیصلے اسٹبلشمنٹ کرتی ہے،اس پر محض ثبت مہر لگانے کے لیے موجودہ جمہوری سیٹ اپ کو رکھا گیا ہے جو انتہائی فرمانبرداری سے ''ایک پیج'' کی رِٹ میں ہر اس فیصلے کی توثیق کردیتی ہے جو اسٹبلشمنٹ نے کیا ہو،اس تناظر میں دوبارہ سے امریکی فضائیہ کو پاکستانی حدود سے پرواز کرنے کی اجازت دینے کا وہ اہم اعلان ہے جو افغانستان میں امریکی فوجی انخلا کے ضمن میں بتایا جا رہا ہے،جس کی اطلاع پینٹاگون کے ذرایع نے دیتے ہوئے نائب وزیر دفاع ڈیوڈ ہیلوے کا سینیٹ سے خطاب ہے جس میں وزیر موصوف نے امریکی سینیٹ کو بتایا کہ پاکستان امریکا کو افغانستان میں طالبان کی نقل و حمل کی مانیٹرنگ کے لیے فضائی اجازت دینے پر راضی ہے،جو امریکی مفادات کے لیے اہم ضرورت ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا امریکی افواج کے انخلا کے بعد امریکا کو پاکستان پر افغان امن برقرار رکھنے پر اعتبار نہیں یا امریکا اس دبائو سے ایک طرف اپنے مفادات کا حصول چاہتا ہے جب کہ دوسری جانب امریکا روس کی طرح چین کی مضبوط معیشت کو کمزور کرنے کا کام لینا چاہتا ہے،اور چونکہ موجودہ سیٹ اپ میں ادارے ملکی معیشت بہتر کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں لہٰذا چین کے مقابلے میں معیشت کے استحکام کے لیے امریکی ڈالر کی امداد اہم کردار کے طور پر دکھائی جارہی ہے،اس اہم فیصلے سے جہاں خطے کی سیاسی اور معاشی صورتحال میں ایک بھونچال کا اندیشہ ہے،وہیں نظر آرہا ہے کہ پاکستان کی مقتدرہ ملکی عوام کے ووٹوں کی طاقت سے زیادہ امریکی ڈالر کی طاقت پر اعتماد کرکے اس ملک کو دوبارہ افغان بحران سے زیادہ نقصان کی طرف لے جا رہی ہے جو کسی طور احسن قدم نہیں۔

اب جب ایسے حالات و واقعات کا نقاب عوام کے سامنے اٹھایا جاتا ہے تو جمہوری سوچ کے اندھیرے میں اظہار کی طاقت ''چراغِ طور'' نہ جلائے تو کیا کرے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں