پی ڈی ایم کی سیاست
سیاست مفادات کا کھیل ہے۔ اِس میں کوئی کسی کا دوست اور مہربان نہیں ہوتا۔
پی ڈی ایم جب سے معرض وجود میں آئی ہے کوئی نہ کوئی مسئلہ اُس کی بقا و سالمیت کے لیے خطرہ ہی بنتا رہاہے۔ کہنے کو یہ دس یا آٹھ جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد ہے مگر جس میں چند ہی سیاسی پارٹیاں پاکستان کے جمہوری نظام میں اپنا کوئی اہم رول ادا کرتی رہی ہیں جب کہ بہت سی دوسری جماعتیں تو برائے نام ہی پارلیمان میں نشستیں حاصل کر پاتی ہیں۔
اُن دس گیارہ جماعتوں میں سے بھی اب دو بڑی پارٹیاں ناراض اور خفا ہوکر اتحاد سے الگ ہوچکی ہیں۔ یہ اتحاد صرف اور صرف مولانا فضل الرحمن صاحب کی ذاتی کوششوں سے بن پایا تھا ورنہ اُسے بنانے میں کسی کی بھی کوئی دلچسپی نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا دراصل خود پارلیمنٹ سے آج باہر بیٹھے ہوئے ہیں شاید اِسی وجہ سے وہ قبل ازوقت نئے الیکشن کروانے میں اپنا تمام زور لگادینا چاہتے ہیں۔
پی پی پی کے پاس تو ایک صوبے کی حکومت کی شکل میں کچھ نہ کچھ ذریعہ معاش اور روزگار موجود ہے لیکن مسلم لیگ نون اور مولانا تو بالکل ہی خالی بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھیں اپنے آپ کو مصروف اور سیاسی طور پر فعال رکھنے کے لیے جلسوں اور جلوسوں کی شدید ضرورت ہے ورنہ ڈر ہے کہ عوام 2023 تک کہیں انھیں بھول ہی نہ جائیں۔ 2019میں کورونا وباء پھیلنے سے کچھ ماہ قبل مولانا نے اکیلے ہی ایک لانگ مارچ اور دھرنے کا اہتمام کر ڈالا تھا۔
اُس وقت بھی وہ ساری جماعتوں کو ساتھ ملانا چاہتے تھے مگر کسی نے اُن کا ساتھ نہیں دیا اور وہ اکیلے ہی اسلام آباد کی طرف چل پڑے۔ اسلام آباد کے سرد موسم اور بارشوں کی وجہ سے انھیں سخت اور مشکل حالات کا سامنا بھی رہا اور پھر چند دنوں میں ہی وہ اپنا یہ دھرنا لپیٹ کر واپس جانے پر مجبور ہوگئے۔
کہنے کو اور عزت رکھنے کو دھرنے کی واپسی جناب پرویز الٰہی کی یقین دہانی پر ہوئی جس میں مبینہ طور پر کہا گیا کہ مارچ 2020 تک عمران حکومت کو چلتا کر دیا جائے گا۔ مگر بعد میں آنے والے حالات گواہی دے رہے ہیں کہ ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی تھی۔
ویسے بھی اُس دھرنے میں اتنا دم خم بھی نہیں تھا کہ حکومت کرنے والے اور اُسے سہارا دینے والے بلیک میل ہوکر یہ انتہائی ناپسندیدہ قدم اُٹھانے پر مجبور ہوجائیں۔اِس واقعہ کے ٹھیک ایک سال بعد مولانا پھر سے سرگرم ہوگئے اور اپوزیشن میں شامل تمام جماعتوں کو اکٹھا کر کے ایک اتحاد بنانے میں بالآخر کامیاب ہوگئے۔پیپلز پارٹی کو احتجاجی مظاہروں، جلسے اور جلوسوں کے پروگرام کے عمل درآمد پر تو کوئی اعتراض نہ تھا لیکن اسمبلیوں سے استعفوں کے بارے میں اُس کے ہمیشہ سے تحفظات رہے ہیں۔ وہ کسی مرحلہ پر استعفیٰ دینے پر تیار نہ تھی۔
پی ڈی ایم والوں کو پیپلزپارٹی سے ایسا کوئی مطالبہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا جب کہ وہ خود بھی دوسری جانب ملک میں ہونے والے ہر ضمنی الیکشنوں میں حصہ بھی لیتے رہے ہیں اور اُس میں کامیابیوں کے جشن بھی مناتے رہے ہیں۔ PDM کے کمزور پڑ جانے سے نقصان اپوزیشن کاہی ہوا۔ عمران حکومت کو بظاہر اب کم از کم ایک سال تک تو کوئی بھی خطرہ نہیں ہے۔
ہماری قومی سیاست کا یہ المیہ ہی رہاہے کہ الیکشن سے پہلے سارے مل کر حکومت وقت کے لیے مشکلیں کھڑی کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ وہ اگر ایسا نہ کریں تو الیکشنوں میں عوام کے سامنے کس طرح سرخرو ہو پائیں گے۔ یہ اُن کی مجبوری بھی اور ضرورت بھی۔ ساری اتحادی ایک ایک کرکے الگ ہو جائیں گے اور ہو سکتا ہے حکومت کو وقت سے پہلے ہی نئے الیکشن کروانے پڑ جائیں۔ویسے بھی خان صاحب ایک سے زائد مرتبہ یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ بلیک میل ہونے کے بجائے حکومت ختم کرکے نئے الیکشن کروا سکتے ہیں۔ اور شاید یہی تجویز خود اُن کے لیے بھی بہتر ثابت ہو۔
PDM کے حالیہ اجلاس میں جون کے مہینے سے احتجاجی پروگرام ترتیب دیا گیا ہے مگر پیپلزپارٹی اور اے این پی کے بارے میں کوئی واضح فیصلہ نہیں ہو پایا ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ اِن دونوں سیاسی پارٹیوں کے بغیر ہی یہ احتجاجی پروگرام شروع کر دیں گے۔اُن استعفوں کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا جن کو بنیاد بناکر پیپلزپارٹی کو فارغ کر دیا گیا۔ اب وہ خود بھی استعفوں کے بغیر ہی احتجاج کے اگلے مرحلہ میں داخل ہورہے ہیں۔ سوچا جائے کہ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پھر بلا وجہ پیپلزپارٹی کو ناراض کیوں کیا گیا۔ لگتا ہے اِس سارے کھیل کے پیچھے کچھ اور ہی اغراض و مقاصد کار فرما تھے۔
پیپلزپارٹی کے لوگ مسلم لیگ نون پر الزام دیتے ہیں کہ پی ڈی ایم کو نون لیگ نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جب کہ مسلم لیگ نون والے یہ سمجھتے ہیںکہ پیپلزپارٹی جو صوبہ پنجاب سے مکمل طور پر صاف ہو چکی تھی اُسے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر پنجاب میں اپنی ساکھ بحال کرنے کا موقعہ مل گیا۔ دونوں اپنی اپنی جگہ درست معلوم ہوتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اکیلے پنجاب میں کس طرح کامیاب جلسے اور جلوس منعقد کر پاتی ہے۔ پی ڈی ایم کی باقی تمام جماعتوں کو یہ بھی احساس ہے کہ خواہ وہ کچھ بھی کرلیں صوبہ سندھ میں انھیں کسی بھی انتخاب میں کامیابی حاصل نہیں ہونے والی۔
سیاست مفادات کا کھیل ہے۔ اِس میں کوئی کسی کا دوست اور مہربان نہیں ہوتا۔ وہ اُس وقت تک ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے رہتے ہیں۔ اور جب مفادات کے تکمیل کہیں اور نظر آنے لگتی ہے وہیں سے راہیں جدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اِسی لیے کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ خود غرضی اور مفاد پرستی کا ایک بھرپور مجموعہ ہے۔ جو اس کھیل میں ماہر اور چالاک ہوتا ہے بدقسمتی سے ہمارے یہاں اُسے ہی لوگ کامیاب اور کامران گردانہ کرتے ہیں۔