اب میڈیا کا بھی گلا دبایا جائے گا
گزشتہ تین سال کی بدترین سنسرشپ کا مقصد بھی حکومت مخالف اٹھنے والی ناپسندیدہ آواز کو مین اسٹریم میڈیا پر دبانا تھا
کیا مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو زبردستی بند کیا جاسکتا ہے؟ (فوٹو: فائل)
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں میڈیا کا گلا دبایا جارہا ہو، لیکن جس ٹیکنیکل اور منظم طریقے سے پاکستان میں میڈیا کا گلا اب دبایا جارہا ہے وہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہی ہے، یعنی حکومت کے ان اقدامات کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
یہ حکومت تو ایک قدم آگے بڑھ کر سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے، جس کےلیے اس نے پہلا قدم پاکستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے مجوزہ قوانین کے تحت اٹھا لیا ہے۔ ان کے تحت سب سے پہلے تو ویب چینلز چلانے والوں کی گردن ناپی جائے گی۔ یہ آرڈیننس بغیر کسی بحث و مباحثہ کے لاگو ہوسکتا ہے۔ ویب چینلز کو ایک فیس ادا کرنا ہوگی جو کہ یقیناً اتنی بھاری ہوگی کہ اسے بڑے سرمایہ کار ہی افورڈ کرسکیں گے۔ اسی طرح آن لائن اخبار کےلیے بھی سخت معیار بنایا جائے گا۔ سننے میں یہ بھی آرہا ہے کہ شائع ہونے والے مواد کا ایک حصہ حکومتی تعریف کا بھی ہوگا۔
یہ سب کرنے اور اتنی بھاری فیسیں لینے کے بعد اس کا ایک کمپلینٹ سینٹر بنایا جائے گا، جس میں آنے والی شکایت پر کارروائی کی جائے گی۔ فیصلہ سازی کرنے والے افراد تقریباً جج والے اختیارات رکھتے ہوں گے اور اگر کسی کو فیصلے سے اختلاف ہے تو اس فیصلے کو لوئر کورٹس میں تو چیلنج ہی نہیں کیا جاسکے گا بلکہ اس کےلیے ہائیر کورٹس میں اپیل کی جائے گی۔ ہائیر کورٹس کے اپنے معاملات ہیں اور وکلا کی بھاری فیسیں کون بھرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ ابھی جب صحافتی تنظیموں کا اجلاس ہوا تو اس مجوزہ قانون کو رد کردیا گیا ہے۔
یادش بخیر، موجودہ حکومت ایوان اقتدار میں آنے کے قابل سوشل میڈیا کی برکت سے ہوئی ہے۔ وہ ماضی میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرکے ہی سابقہ حکومتوں کے خلاف وائٹ پیپرز جاری کرتی تھی اور احقر سمجھتا ہے کہ یہ اس کا حق تھا۔ اپوزیشن کے پاس سوشل میڈیا کا ٹول موجود تھا اور وہ اس کا استعمال کررہی تھی۔ لیکن کوئی یہ سمجھائے کہ اگر ایک ٹول کل تک درست تھا تو وہ آج غلط کیسے ہوگیا؟ صحیح اور غلط کی کیا تعریف ہے؟ اگر موجود ہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کو ایسے غلط طریقے سے قابو کرے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ عین ممکن ہے کہ آغاز میں اس کو کامیابی حاصل ہوجائے لیکن یہ کامیابی محض عارضی ہوگی۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ غیر مدلل طریقے سے کسی بھی چیز کو دبایا جائے تو وہ دباؤ کم ہونے پر زیادہ قوت سے سامنے آتی ہے۔ حکومت کو یہاں یہ بھی رک کر سوچنا چاہیے کہ میڈیا اور پریس ریاست کا ایک ستون ہیں۔ ریاست کے دو ستونوں سے اس کی پہلے ہی نہیں بن رہی ہے اور اب تیسرے ستون کو کمزور کرکے وہ عمارت کو کیوں داؤ پر لگارہی ہے؟
ماضی میں سابق صدر پرویز مشرف کو بھی یہی زعم تھا کہ میں نے چونکہ میڈیا کی تعداد میں اضافہ کیا ہے تو وہ میری مرضی سے چلے گا۔ تاہم ایسا نہیں ہوا اور میڈیا نے کالے کو سفید کہنے سے انکار کردیا۔ اس انکار کے نتیجے میں چینلز پر پابندی بھی ہوتی تھی اور اس کو ریاستی جبر کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ آج وہ سابق صدر تو ملک میں موجود نہیں ہیں، البتہ پابندیاں سہنے والے تمام صحافی ملک میں موجود ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ایک عرصہ تک اسکرین اور اخبار کا حصہ رہنے کے بعد اب دوبارہ سے آف ایئر ہوئے ہیں یا ان کو زبردستی آف ایئر کیا جارہا ہے، لیکن وہ سب ملک میں ہی موجود ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو زبردستی بند کیا جاسکتا ہے؟ کیا اختلاف رائے اتنی ہی بڑی چیز ہے کہ جو اختلاف کرے تو اس کی آواز کو زبردستی خاموش کروا دیا جائے؟ راقم خود بھی اس بات کا تجربہ رکھتا ہے اور سمجھتا بھی یہی ہے کہ یہ پالیسی بری طرح سے فائر بیک کرجائے گی۔
گزشتہ تین سال کی بدترین سنسرشپ کا ایک ہی مقصد تھا کہ ہر حکومت مخالف ناپسندیدہ اٹھنے والی آواز کو مین اسٹریم میڈیا پر دبا دیا جائے۔ حکومت اس میں کامیاب بھی ہوئی لیکن اس کا عوامی اثر نہ ہوا۔ عوام تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کےلیے، اصل حقائق جاننے کےلیے، درست تجزیے اور تبصرے سننے کےلیے ان ہی صحافیوں کے پاس سوشل میڈیا پر چلے گئے جنہیں مین اسٹریم اخبار اور اسکرین سے آف ایئر کیا گیا تھا۔ یہ وہاں ہٹ ہونا شروع ہوگئے۔ اب اس آرڈیننس کا ایک ہی مقصد ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والے ہر صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کی آواز کو بالکل ہی دبا دیا جائے۔ ابھی مغرب ڈھکے چھپے الفاظ میں یا نرم الفاظ میں پاکستان میں میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کی بات کررہا ہے لیکن ان قوانین کے بعد کیا ہوگا؟ آزادی اظہار رائے تو بنیادی حق ہے اور پریس کا گلا دبانا پاکستان میں نہ سہی لیکن مغرب میں ناقابل معافی جرم ہے۔ ٹرمپ کی موجودہ ہار میں ایک بنیادی بات پریس کا گلا دبانے کی ''کوشش'' کرنا بھی شامل تھی۔ لہٰذا اگر حکومت وقت یہ سمجھتی ہے کہ وہ حامد میر، طلعت حسین، نجم سیٹھی، رضوان رضی، مطیع اللہ جان، مرتضیٰ سولنگی وغیرہ کو آف ایئر کرکے ٹھیک کر رہی ہے تو اس کو ایک لمحہ رک کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ہے۔
صحافتی تنظیمیں ان مجوزہ پابندیوں کے خلاف ہیں اور وہ مزاحمت کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔ ایک صحافی کی قوت کیا ہوتی ہے؟ اس کا قلم، جس کی کاٹ تلوارسے زیادہ ہوتی ہے۔ حقائق پر مشتمل پکی خبر، جس کو جھٹلانا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ اس خبر سے جڑے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بے لاگ تجزیہ اور تبصرہ، جو کہ اذہان سازی میں مدد کرتا ہے۔ صحافت بھی جہاد سے کم نہیں ہے اور یہ پیشہ بھی اسی وجہ سے مقدس ہے۔ اب سینگ پھنسائے جاتے ہیں تو پھر ماضی کی طرح سے ہی مزاحمت سامنے آئے گی۔ آخر تین سال بدترین سنسر شپ رکھ کر کیا ملا؟ اب مزید سنسرشپ لگا کر کیا مل جائے گا؟
لہٰذا میری حکومت سے گزارش ہے کہ آپ پرفارمنس کی جانب توجہ دیجئے۔ اگر آپ پرفارم کریں گے تو یہ زبانیں بند ہوجائیں گی اور شاید حقائق کی وجہ سے آپ کے حق میں ہوجائیں۔ لیکن اگر آپ کی پرفارمنس ٹھیک نہیں ہوگی، اگر مہنگائی اور بیروزگاری ایسے ہی بڑھے گی تو پھر سنسرشپ بھی مخالفت کو نہیں روک سکے گی۔ سنسرشپ الٹا آپ کے گلے میں پڑجائے گی۔ کیونکہ پاکستان جس جغرافیائی لوکیشن پر واقع ہے وہ دنیا سے الگ نہیں رہ سکتا اور دنیا اس سے الگ نہیں رہ سکتی ہے۔ دنیا آپ سے سنسرشپ اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سوال کرے گی، شدید اعتراض کرے گی اور مجھے خطرہ ہے کہ کہیں وہ جوابی اقدامات نہ کردے۔ کیا آپ کے پاس اس حوالے سے کوئی حکمت عملی موجود ہے؟
کیا ابھی حالیہ بی بی سی انٹرویو میں ایک وزیر صاحب کو شاندار خطاب نہیں ملے؟ کیا ملنے والے وہ خطاب اعزاز ہیں؟ ان وزیر صاحب نے بھی حقائق کے برخلاف ایک صحافی پر الزام لگایا تھا اور اس کو صحافت کا سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اتنے پیسے لگا کر بھی اگر ان کی سوشل میڈیا بریگیڈز فلاپ ہوگئی ہیں تو پھر مسئلہ اصل میں کہاں ہے؟ اگر ایسی سخت ترین سنسر شپ لگا کر بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو پھر کیا مزید اقدامات کیے جائیں گے؟ جہاں تک ہماری بات ہے تو ہم نے حالیہ ماضی بھی بھگتا ہے، ہم حال بھی بھگت ہی لیں گے اور مستقبل کا علم صرف اللہ کو ہے۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ حقائق پر مبنی خبر، اس سے جڑے تجزیے اور تبصرے کسی نہ کسی طرح عوام تک پہنچ ہی جائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔