مدارس اور حکومتی اقدامات
مدارس دینیہ پر مغربی ممالک نے جتنا بھی پراپیگنڈا کیا‘ وہ ناکام ہوا اور حملہ آور نامراد ٹھہرے، خاک میں مل گئے۔
پاکستان کے مدارس اسلام کے حقیقی قلعے ہیں، جہاں ہمہ وقت قال اللہ و قال رسول کی صدائیں گونجتی ہیں ۔البتہ ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو دانستہ یا نادانستہ مدارس کے حوالے سے تحفظات رکھتا ہے۔
ادھر مغربی ممالک کی حکومتیں اور دانش ور خوفزدہ ہو کر مدارس دینیہ پر حملہ آور ہونے کے لیے نت نئے انداز اورعنوان اپناتے رہتے ہیں۔ کبھی مدارس پر دہشت گردی کے اڈوں کا الزام لگایا جاتا ہے، کبھی علم و نور کے ان روحانی مراکز کو جہالت کی فیکٹریاں قرار دیا جاتا ہے، کبھی ان کے نصاب کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی انھیں قدامت پسندی کا طعنہ دیا جاتا ہے۔
تاہم مدارس دینیہ پر مغربی ممالک نے جتنا بھی پراپیگنڈا کیا' وہ ناکام ہوا اور حملہ آور نامراد ٹھہرے، خاک میں مل گئے، تاریخ میں ان کا ذکر تک نہیں، اگر کسی کا ذکر ہے تو وہ ذکر خیر نہیں۔
مدارس آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہیں۔ آج بھی ہمیں خدا کے قریب کررہے ہیں، نبوت پر ایمان، اطاعت، محبت، قرآن سے عقیدت اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ صحیح عقائد مہیا کرتے ہیں۔ باطل نظریات اور ضعیف الاعتقادی سے باز رکھتے ہیں۔
نیک صالح معاشرے کے خدوخال سے برائیوں کی گرد ہٹاتے ہیں۔ صرف جرائم کو ختم کرنے کی بات نہیں کرتے بلکہ اسباب جرائم کو بھی جڑ سے اکھاڑنے کی بات کرتے ہیں۔ غیبت، چغلی، گالم گلوچ، تہمت، بہتان طرازی سے بھی روکتے ہیں۔
یعنی اسلام کی نظریاتی سرحدوں پر انھیں مدارس کے فیض یافتہ مورچہ زن ہیں۔ اسلام اور ارکان اسلام کے متعدد شعبہ جات کی تعلیم دینے والے مدرس یہیں سے میسر ہوتے ہیں، اہل اسلام کو مذہبی اور سیاسی و سماجی قیادت بھی مدارس ہی مہیا کرتے ہیں۔
اس سے بھی آگے کی بات کہی جائے تو آپ کے محلے کی مسجد کا خادم، موذن، امام، خطیب اور مدرس مدرسہ ہی کی برکت سے ہے، قرآن کا ترجمہ، تفسیر، حدیث اور فقہ کی تشریح کرنے والے مدارس سے ہی فیض یافتہ ہیں، فتنہ گروں کی فتنہ گری کے آگے ڈھال بن کر کھڑا ہونے والے عالم کے پیچھے مدارس کا مضبوط نظام نظر آتا ہے۔
شرعی مسائل کا حل بتانے والے مفتیان کرام کو جو فیض ملا وہ بھی مدارس کی کرم نوازی ہے، کاروباری زندگی میں شرعی بورڈز کے ذمے داران مدارس ہی سے فارغ التحصیل ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ درست کرانے والے قاری مدارس نے پیدا کیے، دینی علوم سمجھانے والے علماء مدارس نے تیار کیے، مسلمان کے گھر بچہ پیدا ہوجائے اس کے کان میں اذان دینے سے لے کر اس کا نام رکھنے تک جس عالم، قاری یا حافظ کی خدمات لی جاتی ہیں وہ مدارس کا فارغ التحصیل ہوگا۔ آپ کے بچوں کی علمی و اخلاقی تربیت کرنے والے علماء مدارس کے فیض یافتہ ہیں۔
عبادات و معاملات میں رہنمائی کرنے والے اہل علم کے پیچھے مدارس ہی ملیں گے۔ حلال و حرام کی پہچان کرانے والے علماء مدارس نے تیار کیے۔کوئی مسلمان مر جائے تو اس کے غسل سے تجہیز وتکفین کرنے والا مدارس کا فیض یافتہ۔ زندگی کا کون سا گوشہ ملے گا جہاں آپ مدارس کے فیض یافتہ ان علماء سے دامن چھڑائیں گے۔
اسی لیے میں نے عرض کیا کہ مدارس ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں اورآج ہم جو کہیں نام کے اور کہیں کام کے مسلمان ہیں تو ان ہی مدارس کے دم قدم سے ہیں۔ اسی لیے مغربی ممالک بار بار ان سرحدوں پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔
اب میں پاکستان میں مدارس کے نظام میں حالیہ اصلاحات کے اقدام کی جانب آتا ہوں۔ کراچی سے خیبر تک ملک گیر سطح پر پھیلے ہوئے ہزاروں مدارس کی نمائندگی کل پانچ وفاق کررہے تھے جن میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان مدارس اور ان میں موجود طلباء کی تعداد کے اعتبار سے نمایاں ہے۔ یہ وفاق دیوبند مکتب فکر کی ترجمانی کرتا ہے اور اسی پر سب سے زیادہ حملے کیے جاتے ہیں۔
تنظیم المدارس پاکستان بریلوی، وفاق المدارس سلفیہ اہل حدیث، وفاق المدارس شیعہ اہل تشیع اور رابطۂ المدارس الاسلامیہ پاکستان جماعت اسلامی کے مدارس کی نمائندگی کرتا ہے۔
ملک بھر کے مدارس کا الحاق ان پانچ وفاقوں ہی کے ساتھ رہا ہے اور یہی وفاق مدارس کا نظام و انصرام دہائیوں سے چلا رہے ہیں۔اب وفاقی حکومت نے پانچ نئے وفاق کے قیام کی منظوری دی ہے۔ وزارت تعلیم نے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظوری کے بعد پانچ نئے وفاق المدارس کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اتحاد مدارس العربیہ پاکستان (دیوبند) کو بورڈ کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اتحاد مدارس الاسلامیہ پاکستان (اہلحدیث)، نظام المدارس پاکستان(بریلوی منہاج القران)، مجمع المدارس (دیوبند) تعلیم الکتاب والحکمت (اہل تشیع) اوروفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ پاکستان (بریلوی) کو بورڈ کا درجہ دیا گیا ہے۔
وفاق المدارس العربیہ کو حکومت کے فیصلے پر تحفظات ہیں۔ علماء کا موقف ہے کہ حکومتی فیصلے سے بہتری کے بجائے مدارس کا نظام کمزور ہو جائے گا۔اس حکومتی فیصلے کے بعد وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ، مجلس شوریٰ اور اہلسنت والجماعت دیوبندی مکتب فکر کی تمام نمایندہ جماعتوں اور اداروں کا اجتماع جامعہ اشرفیہ لاہور میں مولانا انوار الحق کی صدارت میں منعقد ہواجس میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا محمدحنیف جالندھری، مولانا مفتی مختار الدین شاہ، مولانا فضل الرحیم اشرفی، مولانامحمد احمد لدھیانوی، مولانااللہ وسایا، مولانا کفیل شاہ بخاری، مفتی محمد حسن، مولانا عبدالستار، مولانا حکیم مظہر، مولانا سعید یوسف، مولانا قاضی عبدالرشید، مولانا امداداللہ یوسف زئی، مولانا صلاح الدین، مولاناحسین احمد، مولانا زبیر احمد صدیقی، مولانا فیض الرحمن عثمانی، مولانااشرف علی، مولاناقاری حق نواز، مولانامفتی غلام الرحمن، مفتی محمد طیب، مولانا مطیع اللہ آغا، مولانا قاری عبدالرشید، مفتی محمد خالد، مولانا ارشاد احمد، مفتی طاھر مسعود، مولانا قاری محب اللہ، مولانا عبدالمنان، مولانا عبدالمجید، مولانا منظور احمد مینگل، مولانا قاری محمد یاسین، مفتی ظفر احمد قاسم، مولانا عبدالقدوس، مولانا عبدالقدوس محمدی، مولانا طلحہ رحمانی، مولانا منظور احمد عباسی، مولانا فیض الرحمن عثمانی، مولانا ناصر سومرو، مولانا مطیع اللہ آغا، مولانا اصلاح الدین حقانی، قاضی ارشد الحسینی، قاری محمد عثمان، مولانا الیاس مدنی، مولانا ظہوراحمد علوی، مولانا عبدالغفار، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور دیگر نے شرکت کی۔ پچانوے فیصد سے زائد مدارس اور کابرین نے وفاق المدارس العربیہ پاکستان پر بھرپور اعتماد اور ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اکابرین نے نئے قائم ہونے والے مدارس بورڈز کو مسترد کر دیا اور وفاق المدارس سے راہیں جدا کر کے نئے بورڈز بنانے والوں کا وفاق المدارس سے الحاق ختم کر دیا گیا۔
اس اجلاس سے اگلے ہی روز جمعیت علماء اسلام (ف)کی مجلس شوریٰ و عاملہ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی اور ملک گیر سطح پر تحفظ مدارس دینیہ کے نام پر تحریک چلانے کا اعلان کردیا۔ تمام دینی جماعتوں اور اکابرین کا اتحاد اس بات کا پتا دے رہے ہیں کہ اس محاذ پر بھی حکومت کو یوٹرن کی ضرورت پیش آئے گی۔ جو ادارے وفاق سے علیحدہ ہوئے ہیں ان کے پاس ابھی وقت ہے وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے سے گریز کریں۔ انھیں اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ:
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ جو بھی فیصلے یا اقدامات کرے' مدارس اور علماء کو اعتماد میں لے کر کرے' علماء اور مدارس اصلاحات کے مخالف نہیں ہیں' حکومت انھیں اعتماد میں لے کرآگے بڑھے تو معاملات درست ہو جائیں گے۔