تب اور اب
یہاں ہر کوئی دوسرے ہی کو ٹھیک کرنے اور راہ راست پر لانے پر مُصر ہے۔۔۔
تب اور اب کے سفر کے درمیانی ادوار میں فرق قدرتی یعنی مشیت الٰہی کے سبب ہے اور رہے گا کیونکہ زمانے میں ثبات صرف تغیر کوہے لیکن انسان بہتری ہی کی جانب گامزن رہا اسی لیے غار اور پتھر کا زمانہ گزر گیا اور اس نے زمین سے بلند ہو کر فضاؤں کو مسخر کیا اور نئی دنیاؤں کی تلاش میں کروڑوں نوری سالوں کی مسافت پر بھی جا بسیرا کیا۔ اس کے علاوہ علوم و فنون میں کمال حاصل کر کے اس دنیائے فانی کو بھی اپنے لیے جنت نظیر بنانے کے تجربات میں مگن رہتا ہے لیکن حیف اور مقام افسوس کہ 66سال کے سفر کے باوجود میرے ملک کے مکینوں نے اپنی جد و جہد ترقیٔ معکوس کی جانب موڑ دی۔
تب انگریزوں کے وضع کردہ اور ہمارے لیے چھوڑے ہوئے قوانین و ضوابط سادہ اور قابل فہم تھے اور جرائم پر قابو پانے کے لیے سزائیں بھی ہوتی تھیں اور اب اگرچہ سخت قوانین نافذ کر دیے گئے ہیں لیکن سنگین ترین جرائم پر بھی سزائیں نہیں ہوتیں ۔ دیوانی مقدمات کا فیصلہ تو اب دو نسلیں گزرنے کے بعد ہوتا ہے اور فوجداری جرم پر سزا ہو بھی جائے تو اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ Justice delayed is Justice denied کے سچ ہونے کی زندہ مثال ہمارے ملک سے بہ آسانی دی جا سکتی ہے۔ تب ایک پولیس کانسٹیبل کسی کو سائیکل پر ڈبل سواری کرتے پکڑتا تو چالان کا اختیار نہ ہونے کے سبب سائیکل کے ٹائر کی ہوا نکال کر ڈبل سواری کے جرم کا سدباب کر دیا کرتا تھا۔ اب ایک موٹر سائیکل پر 7سواریاں سفر کرتی دیکھ کر پولیس کا گریجویٹ وارڈن منہ پھیر کر درگزر کر دیتا ہے جیسے کہ اس نے کچھ دیکھا ہی نہ ہو۔
تب گورنمنٹ کالج لاہور کا پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمدپرانی سائیکل پر کالج کے دفتر کے قریب پہنچتا تو دس اسٹوڈنٹ سائیکل تھامنے کے لیے لپکتے تھے اور اب جاہل نو دولتئے باپ کا بیٹا اپنی مہنگی کار میں کالج پہنچ کر اپنے یاروں کے ساتھ پروفیسر کی پرانی سوزوکی کار کے بارے ٹھٹھہ کرتا ہے۔ تب اپنے استاد کو قریب آتا دیکھ کر شاگرد تعظیماً خاموش ہو جاتے اور گردن جھکا کر سلام کرتے تھے اب شاگرد سگریٹ کا دھواں استاد کی طرف چھوڑ کر رستہ نہیں چھوڑتے ۔ اب والے بعض استاد البتہ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو شاگردوں کے ساتھ مذاق اور سگریٹ شیئر کرتے ہیں، ایسے ہی اساتذہ کے بارے میں کہا گیا ہے؎
گر ہمی مکتب و ہمی ملّا
کار طفلاں تمام خواہد شد
تب فوجی اور سول حکمران بیورو کریسی سے ناجائز اور منافع رساں کام کہنے یا لینے ہوئے احتیاط کرتے تھے کہ کہیں کرپشن کے الزام میں ان ہی کی گرفت نہ ہو جائے۔ بیوروکریٹ بھی قانون اور ضابطوں کا حوالہ دے کر معذرت کر لیتے تھے۔ اب حکمران اپنے ناجائز کام کروانے کے لیے بیورو کریٹوں سے دوستی کر کے ''کچھ لو کچھ دو'' کی پالیسی طے کر کے ان سے کُھل گئے ہیں۔ بیوروکریٹ ان کے لیے ضابطوں میں راستہ بنانے کے لیے اپنی مہارت اور قابلیت کو استعمال کر کے حکمرانوں سے پارٹنر شپ کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر دس میں سے دو تین اپنے اُلّو بھی سیدھے کر لیتے ہیں۔ عوام کو یا میڈیا کو جب تک خبر ملتی ہے حکمران فارغ اور بیوروکریٹ پہلی پوسٹنگ سے ٹرانسفر یا ریٹائر ہو چکے ہوتے ہیں اور نئے آنے والے عبرت کی بجائے اسی لائن کو پکڑ کر اپنے اپنے اُلّو سیدھے کرنے میں جانے والوں کی مہارت اور تجربے سے استفادہ کرنے لگتے ہیں۔ اب دیکھ لیجیے ہر وزیر، مشیر، وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم اپنی پسند کی جہاندیدہ ٹیم لے کر دفتر کھولتا ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ مزے میں ہیں۔ تب اور اب میں کتنا انقلاب آیا ہے۔
تب ہر شہر میں اپنی اپنی مارکیٹیں تو تھیں ہی لیکن صوبہ پنجاب میں لاہور کا انار کلی بازار اپنا ہی مقام رکھتا تھا اسی لیے تو انورؔ مقصود کو بھی کہنا پڑا کہ: تُو کیہہ جانیں بھولیے مَجھّے (بھینس) نار کلی دیاں شاناں۔ تب واقعی جو کوئی بھی دوسرے شہر سے لاہور آتا انارکلی سے شاپنگ کیے بغیر واپس جا ہی نہیں سکتا تھا لیکن ترقی ہوئی اور لبرٹی مارکیٹ، ایم ایم عالم روڈ، ڈیفنس اور قصوری روڈ میں نت نئی دکانیں، پلازے اور مارکیٹیں کھل گئیں اور اب ان جگہوں میں فرنچائز اور ڈیزائنر کے ناموں سے لوگ متعارف ہوئے البتہ جو لوگ یورپ، امریکا جاتے رہتے ہیں ان کے لیے کچھ نیا نہیں تھا لیکن امراء' نودولتیوں، کرپٹ مافیا اور ٹیکس چوروں نے بھی تو اپنا پیسہ نکالنا ہی تھا لہٰذا مذکورہ مارکیٹوں میں چلے جائیں تو گاہک اور بکاؤ مال دونوں کو دیکھ کر شک پڑتا ہے کہ ہم پاکستان میں نہیں بلکہ یورپ یا امریکا کی کسی ماڈرن مہنگی Mall میں گھوم رہے ہیں۔
تب اسکولوں اور کالجوں کی لائبریریوں میں طلباء انہماک سے مطالعہ کرتے تھے اور لائبریریوں کا کتب خانہ Update ہوتا رہتا تھا۔ اب طالبعلموں کے پاس لائبریری کے لیے وقت نہیں وہ موبائل ٹیلیفونوں سے کھیلنے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ ہم سب کو سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ شاید لاہور یا صوبہ کے چند ہی طالب علموں کو معلوم ہو کہ یہاں پنجاب پبلک لائبریری نام کی عمارت میں قدیم و جدید کتب کا ایک خزانہ ہے جس سے استفادہ کرنے والے اب ناپید ہو رہے ہیں اور بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔تب صوبہ پنجاب کے تعلیمی مرکز لاہور میں کالے، گورے اور پیلے چہرے رکھنے والے لڑکے اور لڑکیاں کالجوں میں بکثرت دیکھے جاتے تھے۔ عرب طلباء بھی تعلیم حاصل کرنے پاکستان کا رخ کرتے تھے کیونکہ یہاں معیار تعلیم بلند اور امن و امان ہوا کرتا تھا۔ اب اگر کوئی غیر ملکی حصول علم کے لیے ادہر کا رخ کرے تو وہ معجزہ ہو گا۔
تب کسی بھی ضلع میں عدلیہ اور انتظامیہ کے علاوہ دیگر محکموں میں بمشکل ایک دو افسروں پر بد شہرتی کا دھبہ ہوتا تھا۔ اب بشمول ان محکموں کے کسی بھی شعبہ حیات کے فرد کے بارے میں قسم کھانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ کسی شخص کا راتوں رات دولت مند ہو جانا ایک عجوبہ ہوتا تھا اب راتوں رات امیر ہونا عام ہے۔ تب بجلی پانی ہو یا گیس کی کمی یا عدم دستیابی کی شکایت نہیں ہوتی تھی۔ کیا حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو مورد الزام ٹھہرائیں کم یابی کو وجہ نایابی سمجھیں یا ڈیمانڈ اور سپلائی کا تخمینہ لگانے والوں کی نااہلی کا ماتم کریں۔ اب تو اسے عذاب الٰہی کا نام بھی دے دیں تو نظر اپنے کرتوتوں ہی پر جائے گی جس کا خمیازہ حکمرانوں کی بجائے عوام ہی کو بھگتنا ہے۔
تب سے اب تک جو کچھ ہو چکا اس پر ماتم کرنا غیر ضروری اور بے کار ہو گا۔ ہر پاکستانی اپنے اپنے گریبان میں جھانکے گا تو اسے اپنی ہی شکل نظر آئے گی۔ یہاں ہر کوئی دوسرے ہی کو ٹھیک کرنے اور راہ راست پر لانے پر مُصر ہے لہٰذا اب والے حالات کو تب کی طرف واپس لے جانے کے لیے خود مجھی کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ دوسرا کوئی طریقہ نہیں۔