ملنے کے نہیں … نایاب ہیں ہم
کون سے بچے ہیں جو اقدار اور روایات کے اتنے پابند ہیں آج کے مادی دور میں۔۔۔
''آپ بہزاد صاحب بول رہے ہیں؟'' ایک انجان نمبر سے آنے والی کال کرنے والے نے مجھ سے پوچھا تو میں نے ہاں میں جواب دیا، اس سے پوچھا کہ وہ کون بول رہا تھا... ''میں اسلم صاحب کا بیٹا بول رہا ہوں!''
''اچھا اچھا وہ اسلم صاحب؟'' میں نے اس کے تعارف سے پہچان لیا، ''کیسے ہو تم بیٹا؟ کیوں کال کی اور اسلم صاحب خود کیسے ہیں؟'' میرے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ اسے کوئی کام ہو گا تو اسلم صاحب نے کہا ہو گا کہ ان کا حوالہ دے کر وہ خود ہی مجھ سے بات کر لے۔ اسلم صاحب سے دوستی ایک اور دوست کے توسط سے ہوئی اور عرصۂ دراز سے ان سے رابطہ نہ تھا۔ اب یقیناً ان کے بیٹے کو کوئی ملازمت وغیرہ چاہیے ہو گی، آج کل کے نوجوانوں کا اور مسئلہ ہے بھی کیا۔
''ابا کے انتقال کو تو لگ بھگ چھ ماہ ہو گئے ہیں انکل...'' اس نے کہا تو مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔
''انا للہ وانا الیہ راجعون ...'' میں نے کہا اور اگلا سوال کیا، ''کیسے؟''
''بس انکل اچانک ہی ...'' اس کی آواز بھرانے لگی۔''بتائیں بیٹا میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟'' میں نے خلوص سے اس سے سوال کیا، اب تو اس کی ہر طرح سے مدد کرنا میرا اخلاقی فرض تھا۔
''میرے لیے دعا کر دیا کریں انکل آپ...'' اس نے سنبھل کر کہا، ''ابا کے اچھے دوستوں میں سے تھے آپ...'' اس نے سادگی سے کہا یا طنز سے۔
''اچھے دوست ہیں یار کہ ان کی وفات کا ہی علم نہیں ہوا...'' میں نے اپنی خفت مٹانے کو کہا۔
''کوئی بات نہیں انکل... آج کل ہر کوئی اپنی زندگی میں اسی طرح مصروف ہے...'' اس نے میری تسلی کو ہی کہا ہو گا، ''انکل آپ سے پوچھنا تھا کہ آپ نے ابا کے ساتھ کوئی رقم کاروبار میں لگائی تھی؟''
''کچھ یاد تو پڑتا ہے ...'' میں نے ذہن پر زور دے کر کہا۔''کتنی رقم تھی وہ؟'' اس نے سوال کیا۔
''غالباً ایک لاکھ روپیہ تھا...'' میں نے یاد کر کے کہا، حقیقت تو یہ ہے کہ میں اس انوسٹمنٹ کے بارے میں بھول ہی چکا تھا، لگ بھگ ایک سال پرانی تھی۔ شاید یہ سمجھ رہا ہے کہ میں کوئی بہت امیر آدمی ہوں اور اس کی کوئی مدد کر سکوں گا، ایک بد گمانی سی دل میں آئی۔ مجھے یاد آ گیا تھا کہ اسلم صاحب نے فون کر کے کہا تھا کہ وہ لاہور میں ایک رہائشی اسکیم میں کچھ پلاٹ خرید رہے ہیں اور اگر میں اس کاروبار میں دلچسپی رکھتا ہوں تو... مجھے کاروبار سے کیا دلچسپی ہوتی اور پھر جو قیمت وہ ایک پلاٹ کی بتا رہے تھے اس کا تو میں تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ انھوں نے اصرار کیا کہ میرے پاس جتنی رقم بھی ہے وہ میں انھیں دے دوں اور اس پر اسی حساب سے منافع مجھے مل جائے گا... ''میں آپ ہی کے فائدے کے لیے کہہ رہا ہوں جناب...'' انھوں نے کہا تھا۔ مجھے اس ایک لاکھ روپے کی یاد آئی جو میں قطعی بھول چکا تھا اور دل دکھ سے بھر گیا کہ اسلم صاحب کی وفات کے ساتھ ہی میری وہ پونجی بھی لٹ گئی۔ اگر یہ رقم انھیں نہ دی ہوتی تو اس کا کوئی اور مصرف تو ہوتا۔
''بس میری تو وہی پونجی تھی بیٹا...'' میں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا، ''اس کے علاوہ تو میرے پاس کوئی اور بچت نہیں!'' میں نے اس کے ممکنہ سوال سے پہلے ہی معذرت کر لی۔
''انکل ابا کی وفات کے بعد کافی وقت تو ہمیں سنبھلنے میں لگ گیا، آہستہ آہستہ اس قابل ہوئے ہیں کہ اپنے آپ کو سنبھال سکیں...'' تو گویا اب وہ اپنے سوال کو گھما پھرا کر پیش کرے گا، میں نے دل ہی دل میں سوچا، ''میرے چاچا امریکا سے لوٹے ہیں، انھوں نے اور میں نے مل کر ابا کے سارے کاغذات نکالے تو آپ کے بارے میں علم ہوا!'' وہی مخصوص طریقہ ... کہانی بیان کر کے ہمدردی حاصل کرنے والا، مجھے اب اس کی کہانی سے کوفت ہونے لگی، ''ہمیں ان ہی کاغذات سے آپ کے بارے میں علم ہوا اور شکر ہے کہ آپ کا فون نمبر ابھی تک تبدیل نہیں ہوا ورنہ بہت سے لوگ جنھوں نے ابا کے ساتھ کاروبار میں شراکت کی تھی ان کے تو نمبر بھی تبدیل ہو چکے ہیں اور ان کے پتوں پر میں نے انھیں خط لکھے ہیں...'' اس کی وضاحت جاری تھی۔
''اب اس کاروبار کے ریکارڈ کے مطابق جب ابا نے ان پلاٹوں کو بیچا تو آپ کی ایک لاکھ کی رقم پر 36 ہزار روپے کا منافع ہے، اب آپ بتائیں کہ آپ کی اصل زر اور منافع میں کس اکاؤنٹ میں آپ کو بھجواؤں؟'' اس کا یہ کہنا تھا کہ میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور مارے حیرت کے ایک لفظ نہ بول سکا، ''انکل پلیز برا نہ منائیے گا، اصل میں جب انھوں نے پلاٹ بیچے تو ان ہی دنوں ان کا انتقال ہو گیا، ہر چیز انھوں نے تفصیل سے لکھ رکھی تھی، بس چاچا کا انتظار تھا کہ وہ آئیں تو ہم دونوں مل کر سارے حسابات چیک کریں اور پھر آپ سب لوگوں کو مطلع کریں...'' میں نے اس سے کہا کہ اسے اپنے اکاؤنٹ کی تفصیلات میں بھجواتا ہوں اور فون بند کر کے میں نے اپنا اکاؤنٹ نمبر وغیرہ ایک پیغام کے ذریعے بھیجا۔
ایک گھنٹے کے اندر اندر اس کا پیغام آ گیا کہ اس نے وہ رقم میرے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی ہے۔ میں نے اس لڑکے کی ایمانداری کا یہ واقعہ کل سے آج تک دسیوں لوگوں کو سنایا اور میں اس قدر متاثر تھا کہ ماں باپ نے اس کی تربیت کتنے اچھے انداز میں کی ہے۔ ابھی جب میں آپ کے گھر کی طرف آ رہا تھا تو اس کی کال دوبارہ آئی، میں اس کال کو اٹینڈ کرنے سے کترا رہا تھا کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دے کہ اس نے 36 ہزار روپیہ مجھے غلطی سے ادا کر دیا ہے۔
''انکل وہ میں نے معذرت کے لیے کال کی ہے، آپ کے حساب میں تھوڑی گڑ بڑ ہو گئی ہے...'' اس کا کہنا تھا کہ میرا دل خوفزدہ ہو گیا، میں تو اس رقم سے جانے کتنے منصوبے بنا چکا تھا۔
''جی بیٹا میںنے تو حساب نہیں کیا، آپ نے ہی کیا ہے، اب آپ ہی بتا دیں کہ کیا گڑ بڑ ہے؟'' میں نے اس سے دل تھام کر سوال کیا۔
''انکل وہ ہمارے حساب سے آپ کو چودہ ہزار روپیہ...'' میری سانس اٹکنے لگی، چودہ ہزار اسے واپس کرنا پڑے تو گویا صرف بائیس ہزار روپیہ مجھے ملے گا؟ اس کے سانس لینے کے وقفے میں ہی اتنا کچھ سوچ لیا میں نے اور میرے خوابوں کے محل مسمار ہو گئے، ''مزید دینا ہو گا... کیونکہ آپ کا منافع پچاس ہزار بنتا ہے...'' میں نے سکون کی سانس لی اور اس کا شکریہ ادا کیا، ''آپ کے اکاؤنٹ میں رقم بھجوا دوں انکل؟'' اس نے سوال کیا۔
''نہیں بیٹا... میں خود تمہارے پاس آ کر رقم لوں گا!'' میں نے اس سے کہا اور اس کا پتا پوچھ کر میں اس کے پاس گیا۔ اس لیے نہیں کہ مجھے تسلی نہ تھی، بلکہ اس لیے کہ اس نایاب چیز کو تو دیکھوں، کہاں آج کے دور میں ایسے انسان ہیں؟ کون سے بچے ہیں جو اقدار اور روایات کے اتنے پابند ہیں آج کے مادی دور میں؟ میں تو اس رقم کی بابت ہی بھولا بیٹھا تھا، اگر کبھی بھولی بھٹکی یاد آتی بھی تو میں اسلم صاحب کی وفات کا سن کر بھول بھال جاتا کہ میری رقم بھی ان کے ساتھ ہی دفن ہو گئی مگر آفرین ہے اسلم صاحب پر اور ان کی بیوہ پر کہ انھوں نے اس طرح کی اولاد کو پیدا کیا اور ان کی مثبت ذہنی پرورش کی۔
میں جا کر اس بچے سے ملا، وہ ابھی تک ایک طالب علم ہے اور باپ کی وفات کے صدمے سے سنبھلنے کی تگ و دو کر رہا ہے، گھر کا مستقبل کا سرپرست اور اپنی بیوہ ماں اور بہن بھائیوں کا سہارا بھی۔ اللہ تعالی اسے لمبی عمر دے کہ اس طرح کے نوجوان ہی ہمارے مستقبل کی امید ہیں، اسے صحت اور خوشیوں کے ساتھ اپنے سارے فرائض نبھانے کی ہمت دے... آمین! !!
بہزاد بھائی کی بات مکمل ہوئی... ''آمین!!!'' میں نے دل سے کہا، ''اللہ ہمارے ہر نوجوان کو ایسا ہی کر دے... آمین ثم آمین!!