التسخیر یا نقطہ بینی کی مشق
جسم کے تین اہم مقامات دماغ، قلب اور زیر ناف، انسانی جسم میں ایسے اعصابی گچھوں کی حیثیت رکھتے ہیں
ہم نے تذکرہ کیا تھا کہ نظر کی اہمیت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ خیال کی گولی کے لیے بندوق کی نالی کا کام دیتی ہے، جس طرح بندوق کی نالی سے گولی بڑے زناٹے سے گزرتی ہے، اسی طرح نظر کی وساطت سے خیال کی لہریں پوری قوت سے مشہود سے ٹکراتی ہیں اور وہ کچھ ظہور میں آتا ہے جس کا بیان بھی امکان سے باہر ہے۔ محاورہ مشہور ہے کہ ''چشم بد دور''۔ جب کسی کے حسن کی تعریف کرتے ہیں تو چشم بد دور ضرور کہتے ہیں۔ نظر بد میں بھی ایک قسم کی مقناطیسیت ہوتی ہے لیکن اس قوت کا اثر منفی ہوتا ہے یعنی نظر بد جس چیز پر پڑتی ہے اس کے کلیجے میں شگاف ڈال دیتی ہے، ایک قوت مثبت ہوتی ہے اور آدمی بیک نظر اس سے مسحور ہوجاتا ہے۔ شعرا نے آنکھ کی تعریف میں دیوان کے دیوان لکھ ڈالے ہیں، شاید ہی کوئی شاعر ایسا ہو جس نے نگاہِ مست، نرگسِ مخمور، مدھ بھری آنکھیں، جادو بھری آنکھیں، نگاہِ شوق، نگاہ دلربا اور کیفیت چشم کی تعریف نہ کی ہو۔ جسم کا سب سے زیادہ حسین، موثر اور سحر انگیز عضو ''آنکھ'' ہوتا ہے۔ خوبصورت آنکھ یوں بھی سحر انگیز ہوتی ہے اگر ارتکاز توجہ کی مشقیں کرلی جائیں تو اس طلسماتی عضو میں ایسی ایسی نادر خوبیاں، خصوصیتیں اور صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں کہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
جسم کے تین اہم مقامات دماغ، قلب اور زیر ناف، انسانی جسم میں ایسے اعصابی گچھوں کی حیثیت رکھتے ہیں جنھیں خارق العادات قوتوں کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔ تصوف میں لطائف ستہ مشہور ہیں، یعنی جسم انسانی کے چھ لطیفے۔ یہ لطیفے وہ دریچے ہیں جو عالم نور کی طرف کھلتے اور خاکی آدم زاد کا رشتہ روحانی یا روحی دنیا سے جوڑ دیتے ہیں۔ ارتکاز توجہ اور سانس کی تمام مشقوں سے اعصابی نظام کے ان ہی حصوں کی پراسرار قوتیں رفتہ رفتہ بیدار ہوتی ہیں۔ گزشتہ کالم میں ہم نے البصیر اور التجلی کی مشقوں کا تذکرہ کیا۔ بعض افراد محض ابتدائی دنوں میں ان مشقوں کے خاطر خواہ نتائج حاصل کرلیتے ہیں لیکن اکثریت کو ایک لمبی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اگر البصیر اور التجلی کی مشقیں پابندی سے پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ کی جائیں تو رفتہ رفتہ مختلف قسم کے تجربات ہوتے ہیں، ہاں جو لوگ قدرتی طور پر حساس واقع ہوئے ہوں یا جن میں میڈیم شپ یعنی معمول بننے کی صلاحیتیں موجود ہوں ان کی ترقی کی رفتار حیرت انگیز ہوتی ہے۔ التسخیر یا نقطہ بینی کی مشق بطور خاص تنویم سے تعلق رکھتی ہے۔ التسخیر (نقطہ بینی) کا طریقہ یہ ہے۔
چکنے سفید کاغذ پر سیاہ روشنائی سے چنے کے برابر نقطہ بنائیے اور کاغذ کو کسی ایسی جگہ چپکا دیں کہ آپ مشق کے لیے بیٹھیں تو چنے کے برابر یہ سیاہ نقطہ کم و بیش ڈھائی تین فٹ کے فاصلے پر رہے۔ سانس کی مشق کے چار پانچ چکر مکمل کرنے کے بعد قدرتی آرام دہ نشست میں بیٹھ جائیں، اب دونوں نظریں اس نقطے پر جمادیں۔ پلک نہ جھپکیں۔ جھپک بھی جائے تو مشق جاری رکھیں۔ نظر کے ساتھ ذہن کی پوری قوت بھی اسی ایک نقطے پر مرکوز کرنے کی کوشش کریں۔ تصور یہ ہو کہ اس سیاہ نقطے کے اندر سے روشنی کا چشمہ ابل رہا ہے۔ چند روز کی مشق کے بعد یہ سیاہ نقطہ روشنی سے جگمگانے لگے گا۔ جب آپ اس حد تک کامیابی حاصل کرلیں تو نقطے کے سائز کو دگنا کردیں یعنی تقریباً ایک روپے کے سکے کے برابر کرکے اس پر ارتکاز توجہ کی مشق کریں۔ جب اس کوشش میں بھی کامیابی ہوجائے تو سائز بڑھا کر دو روپے کے سکے کے برابر گول دائرہ بنا کر مشق شروع کردیں۔ جب اس میں بھی کامیابی ہوجائے تو کاغذ پر پانچ کے سکے کے برابر دائرے میں تبدیل کردیں۔ اس مشق کی شرائط، اوقات اور طریق کار بھی وہی ہے جو دوسری مشقوں کا ہے۔ عام طور پر فن تنویم hypnotism کے طلبا کو نقطہ بینی (التسخیر) کی مشق کرائی جاتی ہے۔ راقم الحروف اس مشق کے اثرات و نتائج سے بھی واقف ہے اور مہینوں سیاہ دائرے کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرکے بیٹھا ہے۔ التصویر (بلور بینی) اور التسخیر (نقطہ بینی) ایک ہی قسم کی مشقیں ہیں، ارتکاز توجہ کا طریقہ بھی یکساں ہے، تاہم بعض لوگوں کو بلور بینی سے مناسبت ہوتی ہے اور بعض لوگوں کو نقطہ بینی راس آجاتی ہے، یہ فیصلہ تو ایک مزاج شناس استاد ہی کرسکتا ہے کہ کس طالب علم کو التصویر کا درس دیا جائے اور کسے التسخیر کا۔
نقطہ بینی (التسخیر) کی ایک صورت یہ ہے کہ سفید کاغذ پر سیاہ، نیلے یا سبز (یا کسی اور) رنگ میں اسم محمدؐ (یا اسم ذات اﷲ) لکھا جائے اور پھر اس مبارک نام پر نظر اور دماغ کی پوری قوتوں کے ساتھ ذہن کو یکسو (One Pointed) کرکے ارتکاز توجہ کی مشق کی جائے۔
ارتکاز توجہ کی مشقوں سے عملی شعور کی رو سست پڑ جاتی ہے اور ذہن کی گرامو فون پلیٹ کا دوسرا رخ تصور کی سوئی کے نیچے آجاتا ہے۔ ہر شخص کا ذہنی ریکارڈ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، اس لیے ہر شخص اپنی ذہنی کیفیت کے مطابق مناظر دیکھتا ہے۔ نفس انسانی کے اندر بے پناہ صلاحیتیں اور قوتیں موجود ہیں۔ ادراک ماورائے احساس اسی کو کہتے ہیں۔ آنکھ یعنی حسِ باصرہ کا عام دائرہ عمل چند ہزار گز سے زیادہ نہیں، جب بصارت کی حس عملی شعور کے تحت کام کرتی ہے تو ایک خاص حد تک دیکھ سکتی ہے۔ مناظر و مرایا (دیکھنے اور نظر کرنے کا علم) جاننے والے جانتے ہیں کہ آنکھ کس طرح دھوکے کھاتی اور فریب نظر کا شکار ہوسکتی ہے۔ خواب میں ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے وہ حاسۂ بصیرت کی کرشمہ آرائیوں سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا لیکن بصارت کی یہی حس جب شعور برتر کی سطح پر کام کرتی ہے تو زمان و مکان دونوں کی حدود اور قیود کو توڑ دیتی ہے اور انسان اپنے کمرے میں بیٹھے بیٹھے دنیا جہان کا نظارہ ایسے کرلیتا ہے، جس طرح سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کا۔
قارئین کا اصرار ہے کہ روحانی سفر (Astral Travel) پر بھی کالم پیش کیا جائے۔ یقیناً ہم اس موضوع پر بھی بات کریں گے لیکن ارتکاز توجہ کی اس مشق سے دور دراز مقامات کا تصوراتی سفر کرنا روحانی سفر سے یکسر مختلف ہے۔ التسخیر یا التصویر کی مشقوں میں آپ تصوراتی طور پر جو مشاہدات کرتے ہیں ان کا طریقہ کار روحانی سفر سے مختلف ہے، Astral Travel میں آپ اپنے جسم مثالی کی پرواز کا سہارا لے کر مختلف مقامات کی سیر کرتے ہیں جب کہ متذکرہ مشقوں میں بلور، پانی کے گلاس یا نقطے سے پھوٹتے ہوئے نور میں کسی شخص یا مقام کا تصور کرکے دیکھتے ہیں کہ وہ شخص اس وقت کیا کر رہا ہے یا مطلوبہ مقام پر اس سمے کیا ہورہا ہے۔
(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)