انسان اور سماج
تشدد خود اپنی شکست کا باعث بنتا ہے، وہ شکست خوردہ لوگوں میں تلخی پیدا کرتا ہے۔۔۔
فیوئر باخ لکھتا ہے ''انسان جو کھاتا ہے وہی سوچتا ہے'' بلکہ ''انسان وہی سوچتا ہے جو وہ کھاتا ہے''۔ گویا خوراک کا اس کی فکر پر فوری اور فیصلہ کن اثر ہوتا ہے۔ یہاں ہمیں اٹلی کے نامور مارکسٹ ایمیڈیو بورڈیگا کے افکار یاد آتے ہیں۔ انھوں نے اس بارے میں کہا تھا کہ اگر کسی کو یہ خبر ہوکہ کسی انسان نے تقریر کرنے سے پہلے کیا کھایا ہے تو وہ اس کی تقریر کی پہلے سے ہی وضاحت کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوگا۔ جنگیں ہمیشہ دو محاذوں پر لڑی جاتی ہیں، ایک محاذ سیاسی ہوتا ہے جسے منظر عام پر اس لیے لایا جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے جواز فراہم کرنا آسان ہوتا ہے، قومیت، مذہب، تہذیب یہ سب کچھ حکمران طبقات کو جنگ کی وجوہات فراہم کرتے ہیں جب کہ دوسرا محاذ معاشی ہوتا ہے۔ تما م جنگیں بلکہ روز مرہ کے تمام تنازعات کے پس پردہ یہ ہی مفادات پنہاں ہوتے ہیں۔
لوگ تاریخ بناتے ہیں لیکن اپنی مرضی سے نہیں۔ انھیں سماج سے جو کچھ میسر آتا ہے وہ اسی مواد کی مدد سے تاریخ کی تشکیل کرتے ہیں، یعنی سماج کی خوشحالی اور بدحالی افراد کی سوچ اور فکر کو تشکیل دیتی ہیں۔ سماج خوشحال ہوگا تو افراد مہذب، روشن خیال، تہذیب یافتہ، تعلیم یافتہ اور مثبت سوچ و فکر کے حامل ہوں گے اور اگر سماج بدحال ہوگا تو افراد وحشی، بدتہذیب، جاہل، بنیاد و رجعت پرست اور منفی سوچ کے حامل ہوں گے۔ خوراک کی کمی یا فراوانی انسان کی سوچ کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ تمام منفی نظریے ایک محروم سماج کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانی ایک بیمار سماج کے نہ صرف شہری ہیں بلکہ اس کی پیداوار بھی ہیں۔ کوئی بیمار سماج صحت مند لوگوں کو جنم نہیں دے سکتا۔
ہیپو کریٹیس، ہیوسینٹ فلسفی تھا، اس کو سیکولر طب کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ وہ 410 قبل مسیح میں یونان کے جزیرے کوس میں پیدا ہوا، وہ پہلا مفکر تھا جس نے اس بات پر توجہ مرکوز کی کہ انسان کی جسمانی اور ذہنی بیماریوں کی وجوہات انسان کی اپنی ذات اور سماج میں پوشیدہ ہیں۔ ہیپو کریٹیس نے دیکھا کہ جب لوگ بیمار ہوتے تھے تو یہ تصور کیا جاتا تھا کہ خدا ان لوگوں کو عذاب میں مبتلا کررہا ہے، اس لیے کہ انھوں نے گنا ہ کیے ہیں۔ بیماریوں کو دور کرنے کے لیے لوگ دیوتائوں کے سامنے قربانیاں پیش کرتے تھے، کچھ لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ مریض پر جن اور بدروحوں کا اثر یا سایہ ہے۔ ہیپو کریٹیس نے گناہ اور جرم و سزا کے مذہبی عقائد پر سوالات اٹھائے اور توہمات کو چیلنج کیا۔ اس نے یہ بتایا کہ جسمانی اور ذہنی بیماریاں ناقص غذا، نیند کی کمی اور غیر صحت مند طرز زندگی سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ صحت کا راز دعائوں اور قربانیوں میں نہیں بلکہ ایک صحت مند طرز زندگی میں پنہاں ہے۔ جب سماج بیمار ہوگا تو افراد خودبخود بیمار ہوجائیں گے، جب افراد بیمار ہوں گے تو دنیا بھر کی ساری خرابیاں اور برائیاں یک دم سماج میں پیدا ہوجائیں گی۔ یہ ہی بیمار سماج، چوروں، لٹیروں، ڈاکوئوں، انتہاپسندوں، دہشت گردوں کو جنم دیتا ہے، یعنی چور، ڈاکو، انتہاپسند، دہشت گرد بیک وقت ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی ہیں۔ ہر انسان اپنی پیدائش کے وقت فرشتہ ہوتا ہے پھر آگے چل کر حالات، واقعات اور ماحول اسے شیطان بننے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اچھے اور برے انسان بننے میں انسان کا خود اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا بلکہ اس کا تمام تر دارومدار حالات، واقعات اور ماحول پر ہوتا ہے۔
یہاں ایک سوال اور بھی اٹھایا جاسکتا ہے، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہر انسان خود کو درست کرلے تو سماج خودبخود صحت مند ہوسکتا ہے۔ یہ دعو یٰ بالکل غلط ہے۔ کیا انسان محض ایک فرد ہے؟ کیا وہ تن تنہا کسی معاشرے کے بغیر زندگی بسر کررہا ہے؟ انسان کو سماجی جانور اس لیے کہا گیا ہے کہ سماج کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا، اگر انسان سماج کے بغیر زندگی بسر نہیں کرسکتا تو پھر وہ سماج کی بیماریوں سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔ اگر آپ سو بیماروں کو ختم کریں گے تو ایک ہزار بیمار پیدا ہوجائیں گے اور اگر آپ ایک ہزار بیماروں کو ختم کریں گے تو ایک لاکھ اور بیمار پیدا ہوچکے ہوں گے۔ آپ جب تک سماج کا علاج نہیں کریں گے اور بیماری کی وجوہات کو ختم نہیں کریں گے، اس وقت تک سماج بیمار رہے گا اور بیماروں کو پیدا کرتا رہے گا۔ کسی بیمار سماج کی صحت مندی کے لیے عملی جدوجہد کی ضرورت نہیں ہوتی محض سوچ یا فکر کی تبدیلی ہی سے سماج تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اگر فکر کو تبدیل یا صحیح کردیا جائے تو سماجی تبدیلی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ سماج کی تمام خرابیاں اور بیماریاں محض غلط فکر اور اس کے اقدامات کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔ غلط فکر یا سوچ کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے سماج میں اقتصادی انصاف قائم کرنا چاہیے۔
جب لوگ جھونپڑوں میں رہتے ہیں اور ان کے بچے بھوکے سوتے ہیں اور ان کے ہمسائے محلوں میں رہتے ہیں تو دولت اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم ان میں غصے کا موجب بنتی ہے۔ جب لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات خوراک، رہائش، تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور ملازمت سے محروم رہیں تو وہ امید، عزت نفس اور وقار کھونا شروع کردیتے ہیں، یہ لوگ ایسے ذہنی انتشار میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو ان کو مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جاتا ہے اور وہ ایسے غیر منصفانہ نظام کو تباہ کرنے پر تل جاتے ہیں، جس نے ان کی ضرورتوں کو پورا نہیں کیا۔ وہ ایسا نظام چاہتے ہیں جو ان کو سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف و امن دے سکے۔ غربت غریب لوگ پیدا نہیں کرتی، یہ امیر لوگوں کی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اقتصادی انصاف کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے، پرامن فضا پیدا کرنے کے لیے مختلف نسلی، مذہبی مختلف عقائد اور کلچرل پس منظر کے لوگوں کو مل جل کر رہنے اور پرامن طریقوں سے اپنے جھگڑے حل کرنے کا طریقہ کار اپنانا چاہیے۔ ایسی فضا اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب ملک کے قوانین ایسے ہوں جو انسانی حقوق کو اہمیت اور وقعت دیں، جس کی وجہ سے لوگوں میں سماجی شعور بیدار ہو اور وہ ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کو برداشت کریں اور اختلاف کے ساتھ ایک ساتھ جینے کا ہنر سیکھیں۔ پرامن مقاصد پرامن طریقوں سے حاصل کیے جائیں، تشدد کسی بھی سماجی مسئلے کاحل نہیں ہے، اس سے مزید پیچیدہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ تشدد سب کے لیے تباہی کا باعث بنتا ہے۔
تشدد خود اپنی شکست کا باعث بنتا ہے، وہ شکست خوردہ لوگوں میں تلخی پیدا کرتا ہے اور فتحیاب لوگوں میں ظلم۔ اس کے ساتھ ساتھ جب تک آپ اپنے سماج کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی بین الاقوامی قرارداد کے مطابق نہیں ڈھالیں گے، بیمار سماج کا علاج ناممکن ہے۔ اس قرارداد کے مطابق تمام ممالک اور معاشروں کے تمام انسان چاہے وہ کسی رنگ، نسل، زبان، مذہب اور جنس سے تعلق رکھتے ہوں برابر کے حقوق رکھتے ہیں، انسانی حقوق کا یہ آئین ہمارے لیے رہنمائی مہیا کررہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سماج میں سیاسی انصاف ناگریز ہے۔ سیاسی انصاف صرف جمہوریت ہی میں پنہاں ہے۔ جمہوری اقدار اور رویے اپنائے بغیر سماج کی بیماری اور ترقی ناممکن ہے، جمہوری اقدار اور رویے ہی سے سماج میں رواداری، برداشت، اخوت و محبت اور مساوات پیدا ہوتی ہے، جس کی وجہ سے سماج سے انتشار، مایوسی، عدم برداشت، انتہاپسندی، قدامت پرستی اور تشدد کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ آج ہم اس موڑ پر آکر کھڑے ہوگئے ہیں کہ اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں بیمار سماج چاہیے یا صحت مند سماج چاہیے۔ ہمیں بربادی، اندھیرے، غربت، دہشت گردی، انتہاپسندی، انتشار، مایوسی میں رہنا پسند ہے یا ہمیں خوشحال، ترقی، رواداری، مساوات، امید، امن، محبت و اخوت کی ضرورت ہے۔ اکثر انسان زندگی میں غلط فیصلے اپنی کم علمی، جہالت اور تعصب کی وجہ سے کرتے ہیں، جوں جوں ہم آگاہ ہوتے جاتے ہیں، دانش مندانہ فیصلے کرتے جاتے ہیں۔ یقین ہے کہ پاکستانی قوم انتہائی سمجھدار ہے اور وہ دانشمندانہ فیصلے ہی کرے گی۔