سندھ میں پانی کا مسئلہ
ہمارے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری ایک ہی کام کر رہے ہیں اور وہ ہے عمران خان پر تنقید کرنا۔
ہماری محترم اپوزیشن جو طوفان کی طرح اٹھی تھی،سکون سے بیٹھ گئی ہے اور وہاں خاموشی نظر آتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تبدیلی کیونکر آئی؟
اصل میں ہماری اپوزیشن ابتدا میں گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد کہلاتی تھی وہ دراصل صرف دو جماعتوں پر مشتمل تھی ایک مسلم لیگ (ن) دوسری پیپلز پارٹی۔ مسلم لیگ (ن) کے سیانوں کو اندازہ تھا کہ گیارہ میں سے ایک لائن نکل جائے گی تو صرف ایک رہ جائے گی۔
اور ہوا یہی کہ گیارہ کے بجائے صرف ایک جماعت رہ گئی اس کے علاوہ حضرت مولانا فضل الرحمن ہیں وہ کچھ نہ کچھ کرکے ملک کے کئی شہروں میں جلسوں کا پروگرام بناتے ہیں اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ جلسوں کا خام مال وہ ہی فراہم کرتے تھے۔
ادھر حکمران جماعت تیزی سے ایسے پروگراموں پر عمل پیرا ہے کہ مستقبل میں یہ پروگرام نہ صرف ملک کے لیے بہتر ثابت ہوں گے بلکہ ان پروگراموں کی وجہ سے خود عمران حکومت نہ صرف مضبوط ہو رہی ہے بلکہ ملک کے مستقبل کے لیے بھی یہ منصوبے بہتر ثابت ہوں گے۔ مثلاً حکومت نے دس ڈیموں کا منصوبہ بنایا ہے جو مستقبل میں پانی کی ضرورت کو پورا کرے گا۔
مثلاً پانی ملک کی ایک اہم ضرورت ہے لیکن ماضی کی کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ سندھ میں پانی کی قلت ہے اور سندھ کے چیف منسٹر مراد علی شاہ وفاقی حکومت پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ سندھ کے حصے کا پانی نہیں دے رہا ہے اس حوالے سے شاہ صاحب باضابطہ مہم چلا رہے ہیں۔
شاہ صاحب کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور پیپلز پارٹی عشروں اقتدار میں رہی ہے کیا اس دوران پانی کے مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا جاسکتا تھا؟ اپنی غلطیوں کو تسلیم کیے بغیر دوسروں پر الزام لگانا ہمارا وطیرہ ہے ابھی حال میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دس سال حکومت کرتے رہے کیا اس دوران ڈیم نہیں بنائے جاسکتے تھے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اشرافیہ اپنا سارا وقت کمائی کے دھندوں میں گزارتی ہے پھر وہ تعمیری اور عوام دوست کام کیسے کرسکتی ہے؟ سندھ کی موجودہ حکومت بھی برسوں سے اقتدار میں ہے کیا اس دوران وہ ڈیم نہیں بنا سکتی تھی؟ دوسروں پر الزام تراشی بہت آسان کام ہے اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کو تسلیم کرنا بڑے ظرف کی بات ہے۔ بدقسمتی سے روز اول ہی سے ایلیٹ پاکستانی عوام کے سروں پر مسلط ہے لیکن عوامی دولت کی لوٹ مار کے بعد وہ کوئی عوامی مفاد کے کام کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟
ہماری اشرافیہ نے ایک آسان نسخہ تلاش کرلیا ہے وہ عوام کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے زبان اور قومیت کو استعمال کرتی ہے خاص طور پر یہ حرکت سندھ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پانی کی قلت کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ پانی بڑے پیمانے پر ٹینکر کے ذریعے بیچا جاتا ہے اگر اس کاروبار کو بند کیا جائے تو پانی کا قحط ختم ہو سکتا ہے۔
لیکن ٹینکر مافیا اس قدر مضبوط ہے کہ اسے ختم کرنا مشکل ہے موجودہ حکومت یعنی عمران حکومت ملک کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ وہ جلد یا بدیر پانی کے مسئلے کو بھی حل کرلے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن اس قسم کے کاموں میں مدد کرتی لیکن صوبائی حکومت اور اکلوتی اپوزیشن حکومت گرانے کے نیک کام میں جٹی ہوئی ہے۔
اس قسم کی ذہنیت نے ملک کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے۔ عمران حکومت نے ملک میں دس ڈیم بنانے کا اعلان کیا ہے اور اس کام پر عملدرآمد کی ابتدا بھی ہو رہی ہے مشکل یہ ہے کہ یہاں اشرافیہ تو کوئی کام نہیں کرتی لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ کسی کو کام کرنے بھی نہیں دیتی۔ یہ وہ بنیادی خرابی ہے جس کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر پا رہا ہے۔
ہماری اپوزیشن جس ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ پی ڈی ایم تتر بتر ہوکر رہ گئی ہے پی ڈی ایم کا مطلب صرف مسلم لیگ (ن) رہ گیا ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ (ن) کا واحد مقصد میاں صاحب کی رہائی ہے اگر میاں صاحب کسی حوالے سے سزا سے بچ نکلتے ہیں تو ان کا ایجنڈا کیا ہوگا؟
پانی عوام کی ضرورت ہے اور پانی کی اس ضرورت کو ہر حال میں پورا ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے محاذ آرائی نہیں بات چیت کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ ہمارے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری ایک ہی کام کر رہے ہیں اور وہ ہے عمران خان پر تنقید کرنا۔ بلاول کو یہ جاننا چاہیے کہ اب پیپلز پارٹی بھٹو کے دور کی پیپلز پارٹی نہیں رہی۔ ہمارے محترم زرداری صاحب کی پالیسیوں کی وجہ سے بھی پیپلز پارٹی کو بہت نقصان پہنچا ہے اب یہ نوجوان بلاول کا کام ہے کہ وہ غیر ضروری مصروفیات کو ترک کرکے پیپلز پارٹی کی تنظیم نو کرنے میں دلچسپی لیں۔